[ad_1]
ہم بہت خوش ہیں کہ ان دنوں ہمارے صوبے کے پی کے عرف صوبہ ’’خیر پخیر‘‘ میں خوشخبریوں کے فوارے پھوٹ رہے ہیں کیونکہ مشیران برائے… اور معاونین برائے… کے بیانات میں۔ موجودہ حکومت نے صوبے کو پورے سولہ چاند لگا دیے ہیں۔
تحریک انصاف کی پہلی حکومت نے چار چاند لگائے تھے دوسری حکومت نے آٹھ اور اب اس تیسری نے سولہ چاند نہ صرف لگائے بلکہ چڑھائے بھی ہیں۔کچھ لوگ ان چاندوں کو وزیر،مشیر اور معاون بھی کہتے ہیں۔چنانچہ اب ہم صوبے کو’’چاہ نخشب‘‘بھی کہہ سکتے ہیں۔چاہ نخشب ایک’’کنواں‘‘ تھا جس سے ’’ابن مقنع‘‘ نام کا ایک شخص ہر رات ایک’’چاند‘‘ نکالا کرتا تھا، مرشد نے بھی اس کا ذکر کیا ہے
چھوڑا ’’مہ نخشب‘‘ کی طرح دست قضا نے
خورشید ہنوز اس کے برابر نہ ہوا تھا
ابھی ابھی تازہ خبریں آئی ہیں ان کے مطابق تین مزید چاند لگائے یا نکالے گئے ہیں ایک تو یہ کہ ایک محترمہ کو دوبارہ مشیرہ یا معاونہ برائے’’سماجی بہبود‘‘ مقرر کردیا گیا ہے۔دوبارہ، کا مطلب ہے کہ کچھ عرصہ کے لیے یہ’’چاند‘‘ کی بدلی میں چھپ گیا تھا لیکن اب پھر طلوع کردیا گیا۔سنا ہے اس’’چاند‘‘ کے دوبارہ چڑھنے سے خوشی کے مارے’’سماج‘‘ اور’’بہبود‘‘ دونوں ناچنے لگے ہیں۔دوسری خبریں تعلیم اور جنگلات دونوں کے لیے بھی’’قائمہ کمیٹیاں‘‘قائم کردی گئیں۔اور یہ دونوں محکمے بھی اب دوڑنے لگیں گے۔
دراصل وہ جو انگریز لوگ تھے وہ چونکہ ’’بدنیت‘‘ تھے اس لیے ’’محکمے‘‘ تو بنا گئے لیکن ان کو چلانا چاہتے نہیں تھے اس لیے ان کو چلانے بلکہ دوڑانے کے لیے وزیر،مشیر،معاون اور قائمہ کمیٹیاں نہیں رکھیں۔ لیکن ’’آزادی‘‘ کی نعمت پانے کے بعد جب ’’اپنے‘‘ آگئے تو انھوں نے دیکھا کہ ’’بسیں‘‘ تو کھڑی ہیں لیکن ان کو چلانے والے ڈرائیور نہیں ہیں۔تب یہ وزیروں،مشیروں،معاونوں اور قائمہ کمیٹیوں کے چاند چڑھائے جانے لگے۔
ہم اکثر سوچتے ہیں کہ اگر خدانخواستہ ہمارے باتدبیروں کو ہر محکمے اور ادارے کو ’’چاند‘‘ لگانے کا یہ طریقہ نہ سوجھتا تو یہ محکمے اور ادارے تو کبھی کے زنگ آلود ہوکر گل سڑ چکے ہوتے۔کافی عرصہ پہلے کی بات ہے، شاید اس کا ہلکا سا ذکر ہم کہیں کر بھی چکے ہیں کہ ایک دن ہم نے دیکھا کہ ہمارے گاؤں کے لوگ جوق درجوق اپنے ایم این اے کے گاؤں جارہے ہیں۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ ہمارے ایم این اے صاحب کو حکومت میں کچھ ’’بنایا‘‘ گیا ہے، مزید یہ بھی معلوم ہوا کہ ایم این اے نے اس خوشی میں ایک بہت بڑی خیرات یا دعوت کا انتظام بھی کیا ہوا ہے۔
ہم بھی فارغ تھے اس لیے موڑ مہار کر چلے گئے وہاں عجیب قسم کے جشن کا سماں تھا، ایم این اے صاحب اپنے خاص حلقہ بگوشوں کے ساتھ ہاروں سے لدے پھندے بیٹھے تھے اور آگے ایک بہت بڑے پنڈال میں پلاؤ، زردہ اور مرغن کھانے اڑائے جارہے تھے۔لیکن ہمیں یہ تجسس تھا کہ ایم این اے صاحب کیا ’’بنے‘‘ ہیں یا بنائے گئے ہیں؟آخرکار ہم پتہ چلانے میں کامیاب ہوگئے۔
موصوف کو قائمہ کمیٹی برائے تعلیم کا رکن بنایا گیا تھا۔ جس میں حیرت کی بات یہ تھی کہ موصوف الف لٹھ ان پڑھ تھے۔اس پر ہمیں اپنا ایک پاگل رشتہ دار یاد آیا ایسپ خان۔ایک دن ایسپ خان دوسرے گاؤں کو جانے والی سڑک پر ملا۔پوچھا ایسپ خان کدھر؟بولا پاس والے گاؤں کے ایک خان کو ٹریکٹر ڈرائیور کی ضرورت ہے وہاں جا رہا ہوں۔ہمیں معلوم تھا کہ اسے سائیکل چلانا بھی نہیں آتا۔اس لیے کہا کہ تمہیں تو ٹریکٹر چلانا آتا نہیں تو ٹریکٹر ڈرائیور کیسے بنوگے۔
بولا بس ٹریکٹر کی سیٹ پر بیٹھ جاؤں گا اور ڈرائیور بن جاؤں گا۔بہت سمجھایا کہ ٹریکٹر چلانے کے لیے ڈرائیونگ سیکھنا ضروری ہے لیکن اس کا کہنا تھا کہ سیکھنے ویکھنے کی کیا ضرورت ہے بس سیٹ پر بیٹھ کر چلانا شروع کردوں گا۔پھر باقاعدہ کھڑے ہوکر دونوں ہاتھوں سے ہوا میں فرضی اسٹیرنگ گھما پھرا کر بولا ایسے۔اور پھر اس کے گاؤں کے راستے ہولیا۔ غالباً حکومت بھی ایسپ خان کے نظریے پر عمل پیرا ہے کہ سیٹ پر بٹھا دیتی ہے اور وہ ٹریکٹر چلانا شروع کردیتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ٹریکٹر کا کام ہی نیچے کی مٹی اوپر اور اوپر کی مٹی نیچے کرنا ہے۔اسے عربی میں انقلاب اور اردو میں الٹ پلٹ کہتے ہیں۔اور انصاف کے معنی ہیں۔
آدھا آدھا یا ففٹی ففٹی کرنا۔نصف ونصف لک۔ایک اور بڑی اچھی خبر یہ ہے کہ تحریک انصاف پشاور کے صدر نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اپوزیشن ممبران کو قائمہ کمیٹیوں میں ہرگز ہرگز نمایندگی نہ دی جائے اس کا سلیس اردو ترجمہ یہ ہے کہ غیروں کو دسترخوانوں پر نہ بٹھایا جائے۔لیکن اس صاحب انصاف کو چنتا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، حکومت پہلے ہی ’’بکارخویش‘‘ ہوشیار ہے وہ خوان لغیما پر کوئی خالی جگہ چھوڑتی ہی نہیں۔اور ہر ہر جگہ مناسب لوگ بٹھاچکی ہے۔ویسے ہمیں ایک مرتبہ پھر اپنی صوبائی حکومت اور حکومتوں پر پورا بھروسہ ہے
فغاں کیں بولیاں شوخ وشیرین کار شہرآشوب
چنانچہ بردند صبرازدل کہ ترکاں خوان لغیمارا
ترجمہ۔فریاد ہے کہ شہر آشوب کی یہ چالاک اور آزمودہ کار حسینائیں دل کا صبر یوں لوٹ لیتی ہیں جیسے ’’ترک‘‘لوگ خوان لغیما کو لوٹتے ہیں۔’’شہرآشوب‘‘ یعنی ہمارے اس شہر کے واقعات تو بہت ہیں لیکن دسترخوان لوٹنے کے ہم صرف دو واقعات سنانا چاہتے ہیں جن میں سے ایک تو افطار پارٹی تھی جو ہوٹل میں تھی۔افطار پارٹیوں کا عمومی طریقہ تو یہ ہوتا ہے کہ اذان کے ساتھ ہلکی پھلکی چیزوں سے افطاری ہوتی ہے پھر نماز پڑھی جاتی ہے۔
اس کے بعد ڈنر ہوتا ہے۔لیکن یہاں افطار اور نماز کے بعد جب ہم کھانے کے برتنوں کے پاس گئے تو سب خالی ہوچکے تھے یعنی ترکان نے خوان لغما کو لوٹ لیا تھا۔دوسری پارٹی غیر ملکی تھی، انقلاب کی سالگرہ تھی یا کوئی اور تقریب تھی۔جب کھانا شروع ہوا تو لوگ برتنوں پر ٹوٹ پڑے اور خاص لوگوں کے لیے کچھ بھی نہ بچا تھا۔چنانچہ اور کھانا لانے کا بندوبست ہوگیا۔لیکن جیسے ہی کوئی بیرا کسی برتن میں کچھ لاتا ،لوگ راستے ہی میں اس پر ٹوٹ پڑتے۔ چنانچہ کھانے کی میز کے گرد ہم کھڑے رہے اور یہ لوٹ مار جاری رہی کوئی بھی چیز میز تک نہیں پہنچ پائی۔آخر کار مایوس ہوکر خالی پیٹ ہی لوٹ آئے ۔
[ad_2]
Source link