[ad_1]
ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے پاکستان تحریک انصاف اس ملک میں کسی نہ کسی صورت اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے اور خیبر پختونخوا میں تیسری بار اقتدار کے جھولے جھول رہی ہے۔
پختون قوم کی بدقسمتی ہے کہ 100 دن میں ملک کے حالات بدلنے کی دعویدار بانی پی ٹی آئی کی پارٹی نے 11 سال میں خیبرپختونخوا کا وہ حشر کر دیا کہ الامان الحفیظ، مگر افسوس کہ وہ اپنے سوشل میڈیا بریگیڈ کے ذریعے یہ تاثر پورے ملک اور دنیا میں دے رہے ہیں جیسے خیبرپختونخوا ترقی اور امن کی منازل طے کرتا ہوا یورپ اور جاپان کو بھی پیچھے چھوڑ کر وہاں دودھ اور شہد کے نہریں بہہ رہی ہیں۔ جاپان اور امریکا کی وڈیوز شیئر کرکے بتایا جارہا ہے کہ خیبرپختونخوا بدل گیا ہے یہ خاکہ سوشل میڈیا بریگیڈ کے ذریعے دنیا کو دکھایا جا رہا ہے۔ ہم نے ہمیشہ اصل حقائق سے آگاہی اور ہر طرف پھیلی غلط فہمی کا ازالہ کرنے کی کوشش کی تاکہ باقی صوبوں کے عوام تک یہ حقیقت پہنچ جائے کہ اگر وہ اپنی سادہ لوحی میں تقلید سے باز نہ آئے تو ان کے صوبوں کا حال خیبر پختونخوا سے بھی برا ہوگا۔
خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی حکومت کی کارکردگی پر بات ہوتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ پولیس ریفارمز کے ذریعے صوبائی پولیس کو عوام دوست بنایا گیا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ روز اول سے خیبرپختونخوا پولیس، باقی صوبوں کی پولیس کے مقابلے میں بہتر تھی اور یہ کسی ریفارمز کی وجہ سے نہیں بلکہ پختون روایات اور اقدار کی وجہ سے تھا لیکن جب تحریک انصاف نے پہلی بار حکومت سنبھالی اور خیبر پختونخوا پولیس کا موازنہ پنجاب پولیس سے کرنے لگے اور پنجاب پولیس کو وِلن اور خیبرپختونخوا کی پولیس کو ہیروز گرداننا شروع کیا تو خیبرپختونخوا پولیس نے تاریخ میں پہلی بار اپنی روایتی اقدار کی پامالی شروع کی، پولیس آفیسرز باقاعدہ سیاسی ایکٹویسٹ بن گئے۔
صوبے میں جس معاشی ترقی کے دعوے پی ٹی آئی کرتی نہیں تھکتی، اس کی حقیقی تصویر اس قدر بھیانک ہے کہ لوگ دانتوں میں انگلیاں دبائیں گے۔ گزشتہ دس سال میں صوبے کے قرضوں میں دس گنا سے زیادہ اضافہ ہوچکا ہے، مسلسل تین بار صوبے پر حکومت کرنے کے باوجود پشاور میٹرو کے سوا کوئی میگا پروجیکٹ شروع نہیں کرسکے، اور وہ بھی کرپشن میں لتھڑا ہواہے، اس طرح کے منصوبے ٹریفک کی روانی اور سڑکوں پر رش ختم کرنے اور کاروباری سرگرمیاں بڑھانے کے لیے بنائے جاتے ہیں جس طرح اسلام آباد اور پنڈی کے درمیان میڑو کی وجہ سے مری روڈ جیسے علاقے میں ٹریفک کی روانی پہلے سے بہت بہتر ہوئی۔
مری روڈ پہلے سے کشادہ ہونے کی وجہ سے کاروباری سرگرمیوں میں بھی بہتری آئی، جب کہ پشاور کے بے ڈھنگ میٹرو منصوبے کی وجہ سے یونیورسٹی روڈ اور خیبر بازار میں لوگوں کے کاروبار تباہ ہوگئے اور پشاور کے عوام کو ٹریفک جام کے مستقل عذاب سے دوچار کر دیا گیا۔ امن و امان پر نظر ڈالتا ہوں تو قتل و غارت اور دہشت گردی میں بے تحاشا اضافہ ہوا جو زبان زد عام ہے۔ امن و امان کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے۔
اپنے آبائی اور امن کے روایتی گہوارے ضلع صوابی جہاں کی ہر سیٹ کو 2013 کے بعد سے لمحہ موجود تک تحریک انصاف کے نام کر دیا گیا ہے جہاں تحریک انصاف کے لیڈران اور ذمے داران کی برسات رہتی ہے، سابق اسپیکر قومی اسمبلی، سابق اور موجودہ صوبائی وزراء کے اپنے آبائی ضلع کے گریبان تک دہشت گردوں کے ہاتھ پہنچ چکے ہیں اور چند دن پہلے پولیس اسٹیشن صوابی میں دہشتگردی کے واقعات نے ہر صوابیوال کو رُلا دیا‘ امن کا گہوارہ صوابی آج علاقہ غیر کا نقشہ پیش کر رہا ہے جہاں قتل وغارت گری، چوری ڈکیتی نے سکون برباد کر دیا، آئس جیسے نشے کے بڑھتے ہوئے رجحان نے نئی نسل کا مستقبل خطرے میں ڈال دیا ہے۔
صحت و تعلیم میں جس انقلاب کا ذکر کرتے تحریک انصاف کے لیڈران نہیں تھکتے‘ اس کی حالت زار سے پردہ اٹھانے کے لیے کئی کالمز درکار ہیں لیکن اختصار سے اتنا بتاتا چلوں کہ صوبے میں بچا کچا ادنیٰ و ثانوی نظام تعلیم اور صحت عامہ کے ادارے یونیسف جیسے اقوام متحدہ کے ذیلی عالمی اداروں کی امداد کے مرہون منت ہیں، گزشتہ 11 سال میں کوئی ایک بڑا منصوبہ شروع نہیں کرسکے بس یونیسف کے پروجیکٹس کے فیتے کاٹنے پر گزارا کر رہے ہیں۔ اپنی مثال آپ سرکاری تعلیمی اداروں کے اسٹاف کی تنخواہیں کئی مہینے بند رہیں اور جو تعلیمی ادارے ایم ایم اے اور عوامی نیشنل پارٹی کی حکومتوں نے بنائے ان کی زمینیں آج تبدیلی سرکار’’اپنی غربت مٹانے‘‘کے لیے بیچ رہی ہے۔
تبدیلی سرکار کی صحت انصاف پالیسی اور خصوصاً صحت کارڈ کی دو دھاری تلوار کے مضمرات اور شوگر کوٹیڈ زہر پر کتاب لکھی جاسکتی ہے کہ کس طرح اس سفید ہاتھی نے اپنی مثال آپ محکمہ صحت کا بھٹا بٹھا دیا۔ اس کی مثال ایسے ہے کہ آپ کو بخار ہو اور گاؤں کا چوہدری آپ کے اثاثے گروی رکھ کے آپ کو پیناڈول کی گولی دے اور باقی کے پیسوں سے ’’اپنی غربت‘‘ مٹائے، سیاست چمکائے اور آپ بھنگڑے ڈالتے پھریں اور چوہدری صاحب پورے ملک میں ڈھنڈورا پیٹتے رہے کہ سر درد کا مفت علاج کیا گیا۔
اگر کوئی ترقیاتی کام نہیں ہو رہا اور اداروں کے پاس ملازمین کی تنخواہوں کے لیے پیسے نہیں تو اب تک سارے صوبائی حکومتوں کے کل قرضے سے دس گنا قرضہ اور خیبرپختونخوا کے بڑھتے ہوئے قدرتی وسائل کہاں خرچ ہوئے اور ہورہے ہیں؟ تحریک انصاف کے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لیڈروں کے بدلتے ہوئے معیار زندگی سے واضح ہے کہ وہ وسائل یا تو سیاستدانوں کی جیبوں میں گئے یا ڈی چوک کے دھرنوں پر استعمال ہوتے رہے اور تاحال خرچ ہو رہے ہیں۔
2013 کے الیکشن کے بعد بانی پی ٹی آئی کے ملکی اقتصادیات پر ’’خودکش دھرنے‘‘ سے شروع ہونے والا سازشوں کا سلسلہ آج تک نہیں رکا۔ اپنے دور حکومت میں ملک کو اقتصادی طور پر دیوالیہ بنا کر چھوڑنے والی پی ٹی آئی معیشت کے مثبت اعشاریے دیکھ کر ایک بار پھر ریاست و معیشت پر اپنی احتجاجی تحریک کی آڑ میں حملہ آور ہو کر ملک کو اس نہج پر لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں کوئی محب وطن پاکستانی اس کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
2013 کے دھرنے سے اقتصادی اور معاشی خوشحالی کے ضامن سی پیک کا بَھٹا بِٹھا کر شہد سے میٹھی اور ہمالیہ سے اونچی پاک چین دوستی کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا، موجودہ احتجاجی تحریک کا نشانہ آنے والی شنگھائی تعاون تنظیم کی کانفرنس ہے اگر تعصب کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو مودی سرکار کو پاکستان میں سیاست کی اجازت ہو تو کیا ان کا رویہ سی پیک اور شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس کے حوالے سے بانی پی ٹی آئی سے مختلف نہیں ہوگا؟ ہرگز نہیں! پھر آخر کیوں ایسے ملک دشمن عزائم رکھنے والوں کی رسی دراز کی جارہی ہے اگر ریاست 9 مئی کے دن ریاست پر حملہ آور ذمے داران کو نشان عبرت بنالیتی تو آج ملک میں سکون ہوتا اور کسی کو ریاست پر حملہ آور ہونے کی جرات نہ ہوتی مگر افسوس کہ غلط پالیسیوں سے وہ لوگ ایک بار پھر ریاست اور ریاستی اداروں پر حملہ آور ہوگئے۔ جو لوگ تھانہ ایس ایچ او سے خوفزدہ تھے آج پاک فوج کے جرنیلوں اور سپہ سالار پر حملہ آور ہیں۔
کلمہ طیبہ کے نام پر بنے پاکستان کے عوام کو ایک قوم نہ بننے کے لیے اربوں ڈالرز خرچ کرنے اور 75 سال سے جدوجہد کرنے والے ہمارے دشمن ممالک ہمارا سکون تو برباد کرتے رہے مگر محب وطن پاکستانیوں نے انھیں کامیاب نہیں ہونے دیا مگر اب جو کھیل بانی پی ٹی آئی نے علی امین گنڈاپور کے ذریعے شروع کیا یہ قومی یکجہتی اور سلامتی کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔
وفاق اور پنجاب پر حملہ آور ہوکر ملک کے باقی تینوں صوبوں میںخیبر پختونخوا کا جو تصور ابھارنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ ملک کے ایک صوبے اور اکائی کے بجائے ایک دشمن ہمسائے کا ہے۔ یہ بدقسمتی ہے ہمارے وسائل ہماری فلاح و بہبود کے بجائے ہمیں وفاق سے لڑوانے، لسانی نفرتیں پیدا کرنے، سی پیک کو رول بیک کرنے اور ریاست کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں۔ پی ٹی آئی اپنے سیاسی مفادات کی خاطر پختونخوا کے وسائل اور نوجوانوں کو جس آگ میں جھونک رہے ہیں اگر اس کا بروقت تدارک نہ کیا گیا تو خدانخواستہ وفاق کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ اگر حکومت وقت اور ریاست آئینی ترامیم کے ڈرامے سے تھوڑا سا وقت فتنہ گنڈاپوری کو بروقت نہیں دے سکی تو ہم بحیثیت قوم مشکل میں پھنس سکتے ہیں۔
[ad_2]
Source link