[ad_1]
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ دو ارب ڈالر سے زائد کے معاہدے اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط ہونے جا رہے ہیں۔ سعودی وفد کے دورے کا مقصد دو طرفہ تعاون کو بڑھانے اور باہمی طور پر فائدہ مند اقتصادی شراکت داری کو مثبت تحریک دینا ہے۔ مزید برآں رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دو طرفہ تجارت 2.4بلین ڈالر ریکارڈ کی گئی ہے۔
بلاشبہ سعودی حکومت اور کمپنیوں کے لیے پاکستان سرمایہ کاری کے لیے ایک ترجیحی ملک ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب باہمی تجارت اور سرمایہ کاری کے معاہدوں کو بڑھانے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر تیزی سے کام کررہے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان مضبوط تجارتی، دفاعی اور ثقافتی تعلقات ہیں۔ سعودی عرب میں لاکھوں پاکستانی تارکین وطن رہتے ہیں، جو نقدی کی کمی کا شکار پاکستان کو ترسیلات زر کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ سعودی عرب ماضی میں اکثر پاکستان کی مدد کرتا رہا ہے۔ سعودی سرمایہ کار پاکستان کی معیشت، جغرافیائی حیثیت، قدرتی وسائل اور صلاحیتوں پر بھرپور اعتماد کرتے ہیں۔
پاکستان اور سعودی عرب نے مجموعی طور پر 21 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے کیے ہیں جن میں آئل ریفائنری کے قیام کے لیے تقریباً 10 ارب ڈالر، گوادر پورٹ پر پٹروکیمیکل کمپلیکس کے لیے ایک ارب ڈالر اور پانچ ارب ڈالر کی تجارتی سرمایہ کاری شامل ہیں۔ سعودی آئل کمپنی ارامکو سال کے آخر تک پاکستان میں اپنا پہلا برانڈڈ ریٹیل گیس اسٹیشن شروع کرے گی جس نے مئی میں گیس اینڈ آئل پاکستان لمیٹڈ کے 40 فیصد حصص کا حصول مکمل کر لیا ہے۔ ان منصوبوں سے جہاں پاکستان کی معیشت مضبوط ہوگی وہیں عام آدمی کو درپیش مسائل بھی حل ہوں گے۔
معاہدے ہو گئے اور ہورہے ہیں، اسی پر ہمارے اداروں اور حکومت کو اکتفا کر کے نہیں بیٹھ جانا چاہیے بلکہ بیرونی سرمایہ کاروں کو جو بھی سہولتیں درکار ہیں ممکنہ حد تک وہ انھیں فراہم کی جانی چاہئیں جس میں منصوبوں کے لیے مطلوبہ جگہ کا فراہم کیا جانا بھی شامل ہے۔ توانائی کی نہ صرف وافر مقدار میں دستیابی بلکہ اس کی قیمتیں بھی کم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امن و امان کی صورتحال کا مثالی ہونا بھی لازم ہے۔ کچھ عرصہ قبل اپنے ہی کئی سرمایہ کار توانائی کی کمی، ناقابل برداشت قیمتوں اور دہشت گردی کے عفریت کے باعث پاکستان سے اپنے کاروبار دوسرے ممالک میں لے گئے تھے۔ پاکستان میں توانائی اور امن و امان کے مسائل حل ہو جائیں تو اس سے کئی گنا زیادہ سرمایہ کاری آ سکتی ہے۔
بلاشبہ ملکی زرمبادلہ میں اضافے اور مستحکم معیشت کے لیے برآمدات میں اضافہ ناگزیر ہے، ہمیں اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری کے ذریعے ایکسپورٹ کی شرح کو ہر حال میں بڑھانا ہوگا، جس کے لیے نجی شعبے کو نئے سے نئے مواقعے تلاش کرنے چاہئیں۔ بالخصوص پاک سعودی سرمایہ کاری اور ایکسپورٹ میں اضافے کے حوالے سے خصوصی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے اور اس امر کے لیے ہمارے اداروں کی استعداد کار بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ برآمدات میں اضافہ کیا جاسکے اور سرمایہ کاری کے ذریعے بے روزگاری میں بھی کمی ہو۔
اس وقت زراعت، ٹیکسٹائل، انفارمیشن ٹیکنالوجی، فارماسوٹیکل، موبائلز، کھیلوں کے سامان، منرل و معدنیات اور دیگر مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کی گنجائش موجود ہے۔ دوسری جانب اگر مقامی صنعت برآمد کرنے کے قابل ہوگئی ہے تو اُسے وہ مراعات فراہم کرنی چاہئیں تاکہ وہ اپنی پیداوار کو برآمد کرسکے۔ ان طریقہ کار کے ذریعے مقامی صنعت کی پیداواری صلاحیت اجاگر ہوگی۔ سرمایہ کاری بڑھے گی، پیداوار اور برآمد کے ذریعے روزگار کے مواقعے نکلیں گے اور حکومت کو محصولات ملیں گے جس کی ان کو اشد ضرورت ہے۔
دوسری جانب اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے ماہِ ستمبر 2024میں ورکرز ترسیلاتِ زر کی تفصیلات جاری کر دیں۔ سعودی عرب سے ستمبر میں 68 کروڑ ڈالر جب کہ متحدہ عرب امارات سے ستمبر میں 56 کروڑ ڈالر بھیجے گئے ہیں۔ ورکرز ترسیلات کا بہاؤ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو قابو میں رکھے گا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق لگ بھگ 25 لاکھ پاکستانی سعودی عرب میں روزگار کے لیے مقیم ہیں جو ہر سال اربوں ڈالر بطور زرمبادلہ ملک میں بھیجتے ہیں جسے پاکستان کی معیشت میں کلیدی حیثیت حاصل ہے۔
جتنی اہم مستحکم حکومت اور معاشی و معاشرتی ہم آہنگی ہونا چاہیے اتنا ہی اہم یہ ہے کہ معیشت کو افزائش کی طرف لے جایا جائے جو اس طرح ممکن ہے کہ ٹیکنالوجی اور قدر افزودہ (value added) صنعتوں میں سرمایہ کاری کریں اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی پالیسیوں کو مقامی ضروریات سے ہم آہنگ کرتے ہوئے ان پر عمل پیرا ہوں۔ مزید ہمیں ورلڈ بینک اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے تصورات کو مقامی حالات کے مطابق اور معیشت کی افزودگی کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنانا ہے، ہمیں بین الاقوامی سوچ وفکرکو مقامی عزم کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہے۔
گاڑیوں کی صنعت کو مثال کے طور پر پروان چڑھایا جاسکتا ہے اور وہ بین الاقوامی مسابقتی معیار پر آسکتی ہے۔زراعت میں اگلے 5 سالوں کے دوران پاکستان بیرونی سرمایہ کاری سے 20 سے 30 ارب ڈالرز کا منافع کما سکتا ہے اور 42 ارب ڈالرز کا ممکنہ منافع برآمدات کے متبادل میں ہوسکتا ہے۔ زراعت کے شعبے میں تین لاکھ نئی نوکریوں پیدا ہونگی۔ معدنیات میں پاکستان اگلے پانچ سال میں بیرونی سرمایہ کاری اور برآمدات بڑھانے سے 51 ارب ڈالرز کے ریونیو کی توقع کر رہا ہے، معدنیات میں پاکستان اپنے دو دوست ممالک سعودی عرب اور یو اے ای کے ساتھ براہ راست بیرونی سرمایہ کاری سے25 ارب ڈالرز کی ڈیل کرنے جارہا ہے، معدنیات میں 14 ارب ڈالرز کا منافع برآمدات کے متبادل میں ہوسکتا ہے۔ معدنیات میں برآمدات بڑھانے سے 16 ارب ڈالرز کا منافع ہوسکتا ہے، جب کہ معدنیات کے شعبے میں 2 لاکھ نوکریاں ملیں گی۔
اس کے علاوہ پاکستان آئی ٹی کے شعبے میں بیرونی سرمایہ کاری، برآمدات کے متبادل بڑھانے سے 51 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی توقع کررہا ہے، آئی ٹی کے شعبے میں پاکستان براہ راست بیرونی سرمایہ کاری سے 20 ارب ڈالرز کا منافع کما سکتا ہے۔ضرورت اِس امر کی ہے کہ حکمران مالیاتی اِداروں کی تمام شرائط تسلیم کرنے کے بجائے اپنی ضروریات اور مجبوریاں بھی بتائیں اور ٹیکس نیٹ بڑھاتے ہوئے عام آدمی کی مشکلات پیشِ نظر رکھیں۔ توانائی کی قیمتیں تو پہلے ہی جنوبی ایشیا کے تمام ممالک سے زیادہ ہیں اگر آئی ایم ایف کی ہدایات پر مزید اضافہ کیا جاتا ہے تو پیداواری لاگت بڑھنے سے پاکستانی مال مہنگا ہو جائے گا اور عالمی منڈی میں مقابلے کی پوزیشن میں نہیں رہے گا۔
معیشت کی بہتری کا حکومتی پیمانہ اور ہے اور عوام کا پیمانہ اور۔ حکومت اسٹاک ایکسچینج کی بلندی، شرح سود میں کمی اور پٹرول کی قیمت میں رد و بدل کو معیشت کی بہتری کا معیار سمجھتی ہے،جب کہ عوام کے نزدیک معیشت اس وقت بہتر ہوتی ہے جب ان کی قوت خرید میں اضافہ ہوتا ہے۔ حکومت کا پٹرول پر اختیار ہے، اسے کم یا زیادہ کر دیتی ہے لیکن صرف پٹرول ہی تو سب کچھ نہیں۔ باقی اشیاء کی قیمتیں کیسے کمی کے تناسب سے واپس لانی ہیں، اس بارے میں کوئی لائحہ عمل بنایا جانا چاہیے مگر ایسا کوئی امکان دور دور تک نظر نہیں آتا۔ صرف ادویات کی قیمتوں میں سو دو سو نہیں بلکہ کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔
ہر پندرہ دن بعد قیمتیں بڑھانے کا ایک ایسا مرض ادویات ساز کمپنیوں کو لاحق ہوا کہ وہ اب تک نہیں جارہا۔ اس کی وجہ بلند شرح سود، عمومی مہنگائی اور خام مال کی درآمد میں رکاوٹ کو بیان کیا جاتا رہا۔ کیا محکمہ صحت یا ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے پاس ایسا کوئی طریقہ ہے، اس کے پاس اس حوالے سے اعداد و شمار ہیں کہ جس بنیاد پر وہ ادویات کو مہنگائی میں کمی کے تناسب سے سستا کرنے کا حکم جاری کر سکے۔ کوئی اگر یہ سمجھتا ہے پاکستان میں معیشت خود کار نظام کے تحت کام کرتی ہے اور قیمتیں اوپر نیچے ہوتی رہتی ہیں تو وہ خواب و خیال کی دنیا میں رہتا ہے۔
یہاں صرف قیمتیں اوپر جاتی ہیں اور پھر کبھی نیچے نہیں آتیں، پھر کوئی بتا سکتا ہے جب قیمتوں نے بلند سطح پر برقرار رہنا ہے تو عوام کو مہنگائی میں کمی کا فائدہ کیسے مل سکتا ہے؟ کسی بھی ملک میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری، اس بات کی علامت ہے کہ بیرونی دنیا اس ملک کی معیشت کو سرمایہ کاری کے لیے ایک قابل قدر جگہ سمجھتی ہے اور یہ اس ملک کی معیشت کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے۔
براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری، ایسے ممالک کو اسکلز اور ٹیکنالوجی فراہم کرتی ہے، جو مقامی طور پر نہیں جانتے کہ وہ وسائل کو کیسے استعمال کرکے مصنوعات تیار کریں، جو شاید براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری نہ ہونے کی صورت میں یہ مصنوعات تیار کرنے کے قابل نہ ہوتے۔ سرمائے کے استعمال سے حاصل ہونے والے منافع کو انفرااسٹرکچر کی تعمیر، صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم کو بہتر بنانے، پیداواری صلاحیت بہتر بنانے اور صنعتوں کو جدید بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس بات کو یقینی بنایا جانا ضروری ہے کہ براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری طویل مدت میں سب سے زیادہ لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنائے گی۔
[ad_2]
Source link