[ad_1]
کینیڈین ریسرچرز کے مطابق ایسے لوگ جو ذیابیطس کا شکار ہیں‘ اگر وہ اپنی روزمرہ خوراک میں لوبیا اور دوسری ترکاریاں شامل کر دیں تو ان کے خون میں شوگر لیول اور بلڈ پریشر میں بہتری دیکھنے میں آئے گی۔ مسور کی دال اور لوبیا میں پروٹین اور فائبر (ریشہ) زیادہ مقدار میں ہوتا ہے‘ جس سے دل کی صحت میں بہتری آ سکتی ہے۔ کیونکہ ایسی خوراک کا گلیسیمک انڈکس (خوراک میں شوگر کی مقدار کا پیمانہ) کم ہوتا ہے۔ اس وجہ سے اس کے ذریعے ذیابیطس کو کنٹرول کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
ڈاکٹر ڈیوڈ جو کہ یونیورسٹی آف ٹورنٹو میں غذائیات کے محقق ہیں‘ کا کہنا ہے، ’’ترکاریوں کو ہمیشہ سے دل کی صحت کے لئے مفید خیال کیا جاتا ہے‘ جو کہ دل کے لئے مفید ہیں بھی۔ بعض اوقات ان سے ایسے ایسے فوائد ملتے ہیں‘ جن کا ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ لوبیا کے استعمال سے نہ صرف ذیابیطس کے مریضوں کا گلوکوز لیول کنٹرول ہو گا‘ بلکہ اس نے بلڈ پریشر پر بھی مثبت اثرات مرتب کئے۔ ہم وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ اس نے شوگر اور بلڈ پریشر پر کیونکر اثرات مرتب کئے؟ ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ ان ترکاریوں میں موجود پروٹین‘ فائبر اور منرلز ہوں۔‘‘
ڈاکٹر ڈیوڈ نے مزید کہا کہ ’’اپنی روزمرہ کی غذا میں ترکاریوں کا زیادہ استعمال، صحت کے لئے مفید ثابت ہو گا۔ اس سے بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کو کم کرنے میں مدد ملے گی اور گلوکوز بھی کنٹرول میں رہے گا۔‘‘ اس تحقیق کے لئے ذیابیطس میں مبتلا 121 مریضوں کا انتخاب کیا گیا‘ جنہیں ہدایت کی گئی کہ وہ دن بھر میں ایک کپ ترکاریوں کا استعمال کریں یا صرف گندم سے بنی ہوئی چیزیں کھائیں۔
تین ماہ تک ریسرچرز نے مشاہدہ کیا کہ وہ لوگ جو ترکاریاں کھا رہے تھے، ان کے بلڈ شوگر میں 0.5 درجے بہتری آئی۔ جبکہ جو گندم کی بنی ہوئی چیزیں کھا رہے تھے، ان میں 0.3 درجے بہتری آئی۔ اس کے علاوہ وہ لوگ جو ترکاریاں کھا رہے تھے، ان کا بلڈ پریشر 4.5 درجہ کم ہوا۔ جبکہ دوسرے لوگوں کا صرف 2.1 درجہ تک کم ہو سکا۔ محققوں کا کہنا ہے، ’’ترکاریاں کھانے کی وجہ سے فشار خون اور بلڈ شوگر میں آنے والی اس بہتری سے ذیابیطس کے کنٹرول اور دل کی بیماریوں کا خطرہ کم کرنے میں مدد ملے گی۔‘‘
ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ اس تحقیق کے مطابق صرف گندم کی بنی ہوئی چیزیں کھانے والوں کے بلڈ پریشر اور شوگر لیول میں بھی بہتری دیکھنے میں آئی۔ اس لئے ذیابیطس کے مریضوں کے لئے زیادہ اہم یہ نہیں ہے کہ وہ کیا کھاتے ہیں‘ بلکہ ان کے لئے زیادہ اہم یہ ہے کہ وہ کتنا کھاتے ہیں؟
[ad_2]
Source link