[ad_1]
امریکا اور چین کے درمیان تائیوان کے مسئلے پر تنازع نیا نہیں ہے۔اس وقت دنیا میں چین ایک بڑی قوت کے طور پر آگے بڑھ رہا ہے۔ عالمی تجارت میں بھی چین کی حیثیت ایک بڑے پارٹنر کے طور پر موجود ہے‘ بہرحال تائیوان کا تنازع تاحال اپنی جگہ قائم ہے‘ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک میں تائیوان کو ایک الگ ملک کے طور پر تسلیم کر رکھا ہے جب کہ چین تائیوان کو اپنا حصہ سمجھتا ہے اور اس نے تائیوان کی آزاد اور خود مختار حیثیت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔
اگلے روز عوامی جمہوریہ چین نے امریکا پر زور دیا ہے کہ وہ چین سے متعلق اپنا دہرا معیار ترک کر دے اور تائیوان کو اسلحہ کی فراہمی بند کرے۔ پاکستانی میڈیا نے چینی خبر رساں ایجنسی شنہوا کے حوالے سے خبر دی ہے کہ چین کی وزارت قومی دفاع کے ترجمان وو کیان نے تائیوان کو تقریباً 567 ملین ڈالر کی فوجی امداد فراہم کرنے کے حالیہ امریکی فیصلے کے بارے میں بدھ کو میڈیا سے گفتگو کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا کہ امریکا چین کے بارے میں اپنا دہرا معیار اور تائیوان کو اسلحہ کی فراہمی بند کرے، امریکا اس طرح کے حربے بند کرے اور دونوں ممالک اور افواج کے درمیان تعلقات کو خراب نہ کرے۔
ترجمان نے کہا کہ امریکی اقدام ایک چین کے اصول اور امریکا اور چین کے درمیان 3 مشترکہ اعلامیوں، چین کی خودمختاری اور سلامتی کے مفادات کی شدید خلاف ورزی ہے اور آبنائے تائیوان کے امن و استحکام کے لیے نقصان دہ ہے، ہم اس کی شدید مذمت کرتے ہیں اور امریکا کے ساتھ بھرپور احتجاج کرتے ہیں، حالیہ برسوں کے دوران امریکا نے اپنے وعدوں کو پورا نہیں کیا جس نے خطے میں کشیدگی میں اضافہ کیا ہے۔
ادھر چینی ریاستی کونسل کا متعلقہ ممالک پر ون چائنا اصول پر عمل کرنے پر زور دیاہے، چینی ریاستی کونسل کے تائیوان امور کے دفتر کی ترجمان جوو فنگ لیان نے چھائی اینگ ون کے چیک ریپبلک اور دیگر یورپی ممالک کے آمدہ دورے کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا ڈی پی پی حکام نے بین الاقوامی برادری کو دھوکہ دینے کے لیے مختلف بہانوں سے تائیوان کی علیحدگی پسند سرگرمیاں انجام دی ہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کیا کہتے اور کرتے ہیں، وہ اس حقیقت کو تبدیل نہیں کرسکتے کہ تائیوان چین کا ایک اٹوٹ حصہ ہے۔ تائیوان کی علیحدگی کی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتیں، ہم متعلقہ ممالک پر زور دیتے ہیں کہ وہ ایک چین کے اصول پر عمل کریں، امور تائیوان کو احتیاط سے سنبھالیں، تائیوان کی علیحدگی پسند قوتوں کو غلط اشارے بھیجنے سے گریز کریں۔
امریکا کی پالیسی کی وجہ سے دنیا میں عدم استحکام چل رہاہے۔ ماضی میں ویت نام کے مسئلے پر بھی چین اور امریکا کے درمیان اختلافات رہے ہیں ‘بلاآخر ویت نام نے جدوجہد آزادی لڑ کر امریکا کو ویت نام سے پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔ شمالی کوریا کے حوالے سے بھی امریکا اور چین کی پالیسی الگ الگ ہے۔اسی طرح ہانگ کانگ اور مکاؤ کے حوالے سے بھی چین کا اپنا موقف رہا ہے۔ ان دونوں جزیروں پر چین نے اپنا اقتدار اعلیٰ بحال کر لیا ہے۔
تاہم تائیوان کے مسئلے پر دونوں ملکوں میں اختلافات موجود ہیں۔ امریکا تائیوان کو جدید اسلحہ اور ٹیکنالوجی فراہم کر رہا ہے۔ تائیوان کا مسئلہ بھی خاصا قدیم ہے۔ چین میں کمیونسٹ انقلاب کے بعد قوم پرستوں نے تائیوان پر اپنی حکومت کا اعلان کر دیا تھا۔ خاصے عرصے تک اقوام متحدہ میں تائیوان کی نشست چین کے متبادل کے طور پر موجود رہی ۔تاہم چین نے اپنی حیثیت منظور کروائی اور اقوام متحدہ کی رکنیت حاصل کر لی۔ اس کے بعد چین نے برطانیہ کے ساتھ ہانگ کانگ کے مسئلے پر مذاکرات شروع کیے اور مطالبہ کیا کہ ہانگ کانگ چونکہ عوامی جمہوریہ چین کا حصہ ہے اس لیے ہانگ کانگ کو چین کے حصہ تسلیم کیا جانا چاہیے۔ اسی طرح مکاؤ پر بھی چین نے اپنی حاکمیت کا مطالبہ کیا۔
چین نے اپنے کامیاب سفارتی کوششوں کے ذریعے ہانگ کانگ اور مکاؤ پر اپنا اقتدار اعلیٰ قائم کر لیا ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ بغیر جنگ کے بھی معاملات کو حل کیا جا سکتا ہے۔ چین نے اپنی ساری توجہ اقتصادی ترقی پر مرکوز رکھی ‘چینی قیادت نے سرد جنگ کا بھی حصہ بننے کی کوشش نہیں کی اور وہ اب تک بھی جنگ سے کامیابی سے دور ہے۔
امریکا ابھی بھی تائیوان کے مسئلے پر چین کے ساتھ مخاصمت کے دور سے گزررہا ہے۔ چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان ما ننگ نے جمعرات کے روز یومیہ پریس کانفرنس میں تائیوان انتظامیہ کے سربراہ لائی چھنگ ڈی کے بیان کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ تائیوان کی علیحدگی کے بارے میں لائی چھنگ ڈے کا غلط بیان اس حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتا کہ آبنائے تائیوان کے دونوں اطراف ایک چین ہے، اور اس رجحان کو روکا نہیں جا سکتا کہ چین بالآخر لازمی طور پر دوبارہ وحدت حاصل کرے گا۔ دنیا میں صرف ایک چین ہے، تائیوان چین کا ایک اٹوٹ حصہ ہے اور عوامی جمہوریہ چین کی حکومت پورے چین کی نمایندگی کرنے والی واحد قانونی حکومت ہے۔ایک چین کا اصول بین الاقوامی تعلقات اور بین الاقوامی برادری کا عالمگیر اتفاق ہے۔
تائیوان کبھی ایک الگ ملک نہیں رہا ہے اور نہ ہی کبھی ایک الگ ملک بن سکتا ہے، اور اسے کوئی نام نہاد خودمختاری حاصل نہیں ہے۔چین تائیوان کے ساتھ کسی بھی قسم کے سرکاری تبادلے ،کسی بھی شکل میں اور کسی بھی بہانے سے چین کے داخلی معاملات میں مداخلت کی سختی سے مخالفت کرتا ہے ۔چین کا یہ موقف بالکل درست ہے کیونکہ چین اقوام متحدہ کا باقاعدہ رکن ملک ہے اور یہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا بھی مستقل رکن ہے۔ اس لیے عوامی جمہوریہ چین ہی چین کے حوالے سے نمایندگی کا حقدار ہے۔
امریکا اور مغربی ممالک کی پالیسی ہی رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح عالمی تنازعات کو برقراررکھا جائے ۔امریکا اور مغربی یورپی ممالک کی اسی پالیسی کی وجہ سے روس اور یوکرین کے درمیان جنگ ہوئی ہے جوابھی تک جاری ہے۔ اس جنگ کی وجہ سے یوکرائن کو اور روس کو بے پناہ نقصان پہنچا ہے۔یہی نہیں بلکہ اس جنگ سے عالمی تجارت کو بھی نقصان پہنچا ہے۔اسی طرح امریکا مشرقی وسطیٰ میں تنازعات ختم کرنے کی پالیسی اختیار نہیں کر رہا بلکہ بلکہ اسرائیل کے ہر اقدام کی بے جا حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسرائیل فلسطینیوں کے علاقے پر زبردستی قابض ہے اور وہ اپنی توسیع پسندانہ سرگرمیوں کو شام ‘اردن اور لبنان تک وسعت دے رہا ہے۔
اس سلسلے میں اس نے حماس کے ساتھ ساتھ حزب اللہ کے خلاف بھی جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ جس کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کا عمل داؤ پر لگا ہوا ہے۔چین کے ساتھ ضد کی وجہ سے امریکا بھارت کا ساتھ دے رہا ہے۔بھارت نے تبت کے مسئلے پر دلائی لامہ کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے جب کہ چین نے سکم اور ارونا چل پردیش پر دعویٰ کر رکھا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو امریکا چین کا مسئلہ گھیراؤ کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔بحیرہ جنوبی چین میں جاپان اور جنوبی کوریا موجود ہیں جب کہ گوادر بندر گاہ پر بھی چین کے لیے مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔
امریکا کو عالمی تنازعات کو بڑھانے کی بجائے انھیں حل کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے‘ اگر امریکا اور نیٹو عالمی تنازعات کو حل کرنے پر توجہ دیں تو دنیا میں امن قائم ہوسکتا ہے۔ چین نے ابھی تک جو پالیسی اختیار کر رکھی ہے ‘اس کی وجہ سے جنگ کا ماحول پیدا نہیں ہو رہا ۔عالمی تجارت کو پرامن رکھنے کے لیے عالمی تنازعات کا حل بہت ضروری ہے۔ اگر جنگوں اور تنازعات کا ماحول برقرار رہا تو عالمی تجارت بھی متاثر ہوتی رہے گی۔ اس وقت ریجنل تنازعات کی وجہ سے پوری دنیا شدید بے چینی کا شکار ہے۔ فلسطین کی وجہ سے پورا مشرق وسطیٰ متاثر ہو رہا ہے جب کہ یوکرین کے تنازعہ کی وجہ سے سارا مشرقی یورپ متاثر ہو رہا ہے۔ اسی طرح کشمیر کے تنازعہ کے باعث پاکستان اور بھارت کے تعلقات کشیدہ ہیں۔
برما میں اراکانی مسلمانوںکا تنازعہ برما کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ اگر یہ تنازعات خوش اسلوبی سے حل ہو جائیں اور اس کے ساتھ ساتھ تائیوان اور دیگر تنازعات کا حل سامنے آ جائے تو پوری دنیا میں امن قائم ہو جائے گا ۔ اس امن کے ماحول میں عالمی تجارت پھلے پھولے گی ‘عالمی خوشحالی میں اضافہ ہو گا اور سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی نسل و انسانی کو امن کی نئی منزلوں سے آشنا کر دے گا۔
[ad_2]
Source link