53

سُروں کی ملکہ، شمشاد بیگم (پہلا حصہ)

[ad_1]

میرے پیا گئے رنگون کیا ہے وہاں سے ٹیلی فون

تمہاری یاد ستاتی ہے، جیا میں آگ لگاتی ہے

٭…٭

پی کے گھر آج پیاری دلہنیا چلی

روئیں ماتا پِتا ان کی دنیا چلی

٭…٭

کبھی آر کبھی پار لاگا تیرِ نظر

سیاں گھائل کیا رے تُو نے مورا جگر

٭…٭

ان گانوں کی مدھر آواز کو بھلا کون بھول سکتا ہے، سب سے زیادہ ری مکس بھی اسی گلوکارہ کے گائے ہوئے گیت کمپوزکیے جاتے ہیں۔ کسے معلوم تھا کہ یہ ننھی سی لڑکی جس نے کسی سے موسیقی کی تعلیم حاصل نہیں کی، وہ ایک دن برصغیر (غیر منقسم ہندوستان) کی ایسی آواز بن کے اُبھرے گی کہ اس کا ثانی نہیں ہوگا۔ جس نے اپنے اسکول میں ایسی آواز میں اسکول کی دعا گائی کہ پرنسپل صاحبہ نے کہا کہ ’’ اب سے یہی بچی پرارتھنا گائے گی اور باقی بچے اس کے پیچھے گائیں گے۔‘‘ اسے کہتے ہیں قدرت کا عطیہ اور قدرت شمشاد بیگم پر پوری طرح مہربان تھی۔

موسیقی سے لگاؤ ہمارے پورے گھرانے کو تھا۔ میرے والد تو سول سرونٹ ہونے کے باوجود شوقیہ موسیقار بھی تھے۔ وائلن اور ستار بہت اچھا بجاتے تھے۔ میری بڑی بہن کی شادی میں سنا ہے ڈومنیاں اور میراثنیں ایک ہفتہ پہلے ہی سے آ کر شادی بیاہ کے گیت گاتی تھیں، میری بہن کو یہ گیت بہت پسند تھا جسے وہ بار بار سنتی تھیں۔

اماں میرے ابا کو بھیجو ری،کہ ساون آیا

بیٹی تیرا باوا تو بڈھا ری کہ ساون آیا

یہ گیت آج بھی نگہت سیما، عشرت جہاں اور کجن بیگم کی آواز میں یوٹیوب پر سنا جاسکتا ہے۔ میں نے جب ہوش سنبھالا اور جس گلوکارہ کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی وہ تھی شمشاد بیگم۔ میری والدہ فجر پڑھ کر سو جاتی تھیں لیکن میرے والد بیڈ ٹی لے کر لاؤنج میں آ جاتے اور مجھے بھی اٹھا دیتے۔

ان دنوں اخبار بہت صبح آ جاتا تھا، وہ اخبار پڑھتے جاتے اور جب سات بجتے تو وہ ریڈیو سیلون لگا دیا کرتے تھے اور مجھ سے کہتے تھے کہ میں ڈان اخبار کی سرخیاں پڑھ کر انھیں سناؤں، پھر جب صبح کے سات بجتے تھے تو ریڈیو سیلون سے ’’بناکا گیت مالا‘‘ شروع ہو جاتا تھا اور میری ڈیوٹی بھی ختم ہو جاتی تھی اور میں بھی اسکول جانے کی تیاری کے ساتھ ساتھ گیت مالا بھی سنتی جاتی تھی۔ اس وقت یہ نہیں معلوم ہوتا تھا کہ گلوکارکون ہے۔ بعد میں جب ذرا زیادہ شعور آیا تو پتا چلا کہ سب سے اونچی پادھان پر اکثر شمشاد بیگم کے گیت ہوتے تھے۔ لتا، آشا اور دوسرے گلوکار بہت بعد میں آئے ہیں۔ مردوں میں کے ایل سہگل اور خواتین میں شمشاد بیگم کی آواز مجھے آج بھی بہت پسند ہے۔ میری والدہ کو شمشاد بیگم کے سبھی گیت پسند تھے لیکن بہ طور خاص انھیں یہ گیت بہت پسند تھے:

چمن میں رہ کے ویرانہ میرا دل ہوتا جاتا ہے

خوشی میں آج کل کچھ غم بھی شامل ہوتا جاتا ہے

٭…٭

جانو جانو رے کہاں پہ گرا ہے تورا جھمکا

میں بھی جانوں رے چھپ کے کون آیا تورے انگنا

یہ گیت آشا اور شمشاد بیگم نے گایا تھا، فلم جاگ اٹھا انسان کے لیے۔

شمشاد بیگم کا جنم 14 اپریل 1919 میں اس وقت کے غیر منقسم ہندوستان میں لاہور میں ہوا۔ والد میاں حسین بخش نہیں چاہتے تھے کہ ان کی بیٹی فلموں میں گانے گائے گی، لیکن کسے پتا تھا کہ وہ دس سال کی بچی جو اسکول کی اسمبلی میں پرارتھنا کی دعا گاتی تھی، ایک دن اتنی منفرد اور بڑی گلوکارہ بنے گی کہ اس کا ثانی نہیں ہوگا۔ آپ دیکھیے کہ لتا جیسی آواز والی کئی گلوکارائیں آئیں، جیسے بھیم لتا، سدھا ملہوترہ اور ایک اور جس کا مجھے اس وقت نام یاد نہیں، ان کے گائے ہوئے گیتوں کو لتا کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا تھا، خود لتا بھی نہیں چاہتی تھی کہ ان گلوکاراؤں کو نام ملے۔ لیکن آپ دیکھیے کہ شمشاد بیگم کی آواز کا نعم البدل آج تک نہیں مل پایا، نہ ہندوستان میں اور نہ پاکستان میں۔

شمشاد بیگم کے والد نے اس شرط پہ انھیں گانے کی اجازت دی کہ وہ کبھی تصویر نہیں اتروائیں گی۔ پردے میں رہ کر گائیں گی اور کوئی انٹرویو نہیں دیں گی۔ شمشاد نے اپنے ابا کی تینوں باتیں مان لیں، 1933 کے آتے آتے شمشاد نے لاہور ریڈیو اسٹیشن سے کئی پروگرام کیے اور مختلف جگہ پبلک پرفارمنس بھی دی۔

ان کے ماموں ایک دن چپکے سے ایک گراموفون ریکارڈنگ کمپنی میں لے گئے۔ شمشاد کے والد کو بتائے بغیر۔ گراموفون کمپنی والوں کو چھوٹی سی شمشاد کی آواز اتنی پسند آئی کہ فوراً ایک کانٹریکٹ سائن کروا لیا اور شمشاد کے ماموں نے ان کے والد کو منا لیا۔ یہ وہ دور تھا جب سہگل سپر اسٹار تھے۔ خود شمشاد کو بھی سہگل کی آواز بہت پسند تھی۔ نوجوان پیڑھی سہگل کی دیوانی تھی اور انھی کی طرح مشہور ہونا چاہتی تھی، انھی میں ایک شمشاد بھی تھی۔ انھیں فلموں میں کام کرنے کی پیشکش بھی ہوئی لیکن وہ اپنے والد سے وعدہ کر چکی تھیں کہ کیمرے کے سامنے کبھی نہیں آئیں گی۔ انھی دنوں لاہور کے علاوہ پشاور ریڈیو سے بھی ان کی آواز گونجا کرتی تھی۔ پھر 1930 سے 1940 تک آل انڈیا ریڈیو سے بھی گانے گاتی تھیں۔

لاہور ریڈیو نے شمشاد کی بہت مدد کی، ان کے گیت بار بار بجائے جس سے عام آدمی تک ان کی آواز پہنچی کہ تفریح کا ذریعہ صرف ریڈیو اور فلمیں ہی تھیں، فلمیں بھی ایسی بنتی تھیں جنھیں خاندان کے ساتھ بیٹھ کر دیکھا جاسکتا تھا۔ لاہور ریڈیو کی مقبولیت سے انھیں پلے بیک سنگر کی آفرز آنے لگیں۔

میرے پیا گئے رنگون،کیا ہے وہاں سے ٹیلی فون

یہ گانا جب نشر ہوا تو مقبولیت کے سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ فلم میں یہ گیت نگار سلطانہ پر فلمایا گیا جو درپن کی پہلی بیوی تھیں، نگار کے ساتھ فلم میں گوپ تھے اور یہ گانا سنگیت کے پریمیوں کو آج بھی بڑا پسند ہے۔ حالانکہ اس کے بول فلم کی ڈیمانڈ کے مطابق واجبی سے تھے، لیکن سنگیت اور دھن کمال کے ہیں۔

اس دوران شمشاد کے گانے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر محبوب خان نے سنے تو انھیں ان کی آواز بہت پسند آئی، اس عرصے میں شمشاد تقدیر، شمع، خزانچی اور زمیندار میں گیت گا چکی تھیں اور تمام فلموں کے گانے سپرہٹ ہوئے۔ محبوب خان نے شمشاد کے شوہر گنپت لال وٹو سے کہا کہ وہ شمشاد بیگم کو بمبئی لے آئیں۔ شمشاد کو وہ بمبئی میں فلیٹ اور گاڑی دیں گے، لہٰذا وہ اپنے شوہر کے ساتھ بمبئی آگئیں۔

ماسٹر غلام حیدر برصغیر کی فلمی تاریخ کا ایک بڑا نام ہے۔ وہ بھی 1944 میں بمبئی آگئے، ماسٹر غلام حیدر وہ عظیم موسیقار ہیں جنھوں نے نور جہاں، لتامنگیشکر اور شمشاد کو روشناس کرایا۔ جن دنوں وہ جیتو فون کمپنی میں کام کرتے تھے تو وہاں انھوں نے ایک نوعمر لڑکی کا گانا سنا، وہ پنجابی گانا ریکارڈ کروا رہی تھی۔ یہ بارہ سالہ لڑکی شمشاد تھیں،کمپنی کے مالک کو یہ گانا اتنا پسند آیا کہ ایک سال میں اس نے شمشاد کے دو سو گانے ریکارڈ کرا ڈالے۔

شمشاد بیگم کی ہم عصر گلوکاراؤں میں، ثریا، مبارک بیگم، نور جہاں، گیتادت اور سدھا ملہوترہ کے نام شامل ہیں۔ او۔پی نیئر نے کہا ’’شمشاد کی آواز ایسی ہے جیسے مندر میں گھنٹیاں بج رہی ہوں، جو دل کو سکون دیتی ہیں۔ شمشاد بیگم نے اردو کے علاوہ بنگالی، پنجابی، گجراتی اور دیگر زبانوں میں بھی گیت گائے۔ جیساکہ یہ مشہور گیت:

یہ دنیا کی روپ کی چور

بچا لے مجھے بابو بچا لے مجھے بابو رے

(فلم شبنم)

(جاری ہے)



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں