[ad_1]
اگر کسی ملک کے باسی خود اپنے ہی ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے،نقصان پہنچانے،بدنام کرنے اور اس کی تباہی و بربادی کے لیے کام کرنے لگیں تو اس ملک کی بقا تو خطرے میں پڑہی جاتی ہے لیکن وہ باسی بھی عبرت کی مثال بن جاتے ہیں۔ہمارے ہاں یہی کچھ ہو رہا ہے۔یہ صحیح ہے کہ ہر ملک میں مٹھی بھر لوگ ضرور ایسے ہوتے ہیں جو اپنے ہی آشیانے کو جلانے کے درپے رہتے ہیں لیکن جب ایسے عناصر کی تعداد بڑھ جائے تو کیا ہوتا ہے، اسے بتانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جو ہاتھ آگ لگاتے ہیں، وہ بھی زندہ نہیں رہتے۔پاکستان میں تقریباً ایک دہائی سے اندرونی خلفشار اور سیاسی بے چینی ہے۔2018کے انتخابات اورفروری 2024کے انتخابات ایک ہی ڈگر کے عکاس ہیں۔
ایسے حالات میں شر پسند عناصر کے حوصلے بڑھ جاتے ہیں اور انھیں سہولت کار آسانی سے مل جاتے ہیں۔اب ہر روز فوج،پولیس یا سیکیورٹی اداروں کا کوئی نہ کوئی اہلکار اپنے ملک پر جان نچھاور کر رہا ہے۔ہر جان بہت قیمتی ہوتی ہے لیکن ہم وہ اقدامات اٹھانے سے مسلسل گریزاں ہیں جس سے ملک کے اندر قانوں کی عملداری قائم ہو اور عوام امن و تحفظ کی فضا میں اپنے کاروبارِ زندگی کو آگے بڑھا سکیں۔
چار دن پہلے کراچی کے بین اقوامی ہوئی اڈے کے قریب شاہراہِ فیصل کے سگنل پر ایک خودکش بمبار نے 70سے 80کلوگرام دھماکا خیز مواد سے بھری گاڑی چینی قافلے کی گاڑی سے ٹکرا دی۔خودکش بمبار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بلوچستان کا رہائشی تھا اور یہ 4اکتوبر کو کراچی پہنچا اور کسی ہوٹل میں قیام کیا۔اتوار کے روز دوپہر کو ہوٹل سے چیک آؤٹ کیا، اور اپنے ہدف تک پہنچا ۔دھماکے میں ڈبل کیبن گاڑی استعمال کی گئی ہے۔
ہماری حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا روایتی ردِ عمل سامنے آیا ہے۔صدر جناب آصف علی زرداری ،وزیرِ اعظم شہباز شریف، ،چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو،سینیٹ کے چیئرمین اور اسپیکر قومی اسمبلی نے واقعے پر گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کیا ہے۔وزیرِ داخلہ نقوی نے ایسے افسوس ناک واقعات کو روکنے کا روڈ میپ دینے کے بجائے صرف ہمدردی اور مذمت کرنے پر اکتفا کیا۔
پاکستان کے ہر محبِ وطن شہری کو دہشت گردی کے ایسے واقعات پر شدید صدمہ ہوا ہے۔ہر شہری مضطرب ہے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔ چین نے دہشت گردی کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے مجرموں کو سخت ترین سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔چینی باشندوں پر یہ افسوس ناک حملہ چین اور پاکستان کے مضبوط اور قریبی تعلقات پر ایک حملہ ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔پاکستان میں مختلف پروجیکٹس پر کام کرنے والے چینی ماہرین اور چین پاکستان بہترین تعلقات پر یہ کوئی پہلا حملہ نہیں ہے۔بیلٹ اینڈ روڈ اننی شیٹو اور خاص کر سی پیک پر جب سے کام شروع ہوا ہے چینی ماہرین نشانے پر ہیں۔
پاکستان اور چین آپسی تعلقات کو بہت اہمیت دیتے اور بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔یوں تو پاکستان کے اندر چین کے لیے خیر سگالی کے جذبات ہر سطح پر پائے جاتے ہیں لیکن یہ بہترین تعلقات اور خیر سگالی کچھ عناصر کو ہضم نہیں ہوتی۔یہ عناصر مختلف پروجیکٹس پر کام بند کروانے اور گوادر پورٹ پر چینی موجودگی ختم کروانے کے لیے کوشاں ہیں۔ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ انے اپنی 8اکتوبر کی اشاعت میں کہا ہے کہ2013میں بیلٹ اینڈ روڈ اننی شیٹو لانچ ہونے کے بعد دنیا کے 150ممالک میں روڈ اور ریلوے نیٹ ورک مضبوط ہو رہا ہے۔چین پاکستان کی ترقی میں خصوصی دلچسپی رکھتا ہے لیکن پاکستان میں کام کرنا چین کے لیے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔کچھ عرصہ پہلے گوادر میں اشتعال انگیز مظاہرے ہوئے۔قراقرم ہائی وے پر چینیوں کو نشانہ بنایا گیا اور بھاشا ڈیم پر کام کرنے والے چینی ماہرین کو لے جانے والی بس پر حملہ ہوا۔اسی طرح کراچی یونیورسٹی میں چینی باشندوں کو نشانہ بنایا گیا۔یہ سب کچھ بلوچستان کے حقوق کے نام پر ہو رہا ہے جو افسوس ناک ہے۔
کراچی واقعہ کے تناظر میں ایک اہم سرکاری افسر کو فوری طور پر ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔علاقے میں لگے سیکیورٹی کیمروں سے مدد لی جارہی ہے۔خود کش بمبار کے دو سہولت کاروں کو بھی گرفتار کر کے پوچھ گچھ شروع کر دی گئی ہے۔اگر دیکھا جائے تو یہ سب روایتی اقدامات ہیں اور کچھ عرصے بعد رات گئی بات گئی۔ہمیں جو سنجیدہ اقدامات اٹھانے چاہیئیں ان سے ہم گریز کرنے کے عادی ہیں۔ خود کش بمبار ایک خاصے وقت تک 70سے80کلوگرام ہائی ایکسپلوسو بارود سے بھری گاڑی لے کر،شہر کے مختلف حصوں سے گزرتا ہوا اور کئی چیک پوائنٹس سے گزر کر جائے وقوعہ پر پہنچا۔اس نے جائے وقوعہ پر انتظار کیا اور ہدفکو نشانہ بنایا۔ اس سارے وقت کے دوران کسی کو کوئی خبر نہیں ہوئی۔
اگر نہیں ہوئی تو یہ بہت بڑی ناکامی ہے اور اگر خبر ہو گئی تھی تو حملے کو بروقت کیوں نہ ناکام بنایا گیا۔شاہراہِ فیصل پر ایئر پورٹ سے ملحقہ سگنل پر بارود سے بھری گاڑی کا موجود رہنا بہت افسوس ناک ہے جس کو کسی صورت معاف نہیں کیا جانا چاہیے۔یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ بلوچستان لبریشن آرمی کو چینی ماہرین کی نقل و حرکت کی اطلاع کون دے رہا تھا۔اسی اطلاع پر خودکش حملہ آور پلاننگ کر کے موقع پر پہنچا۔ محض ایک افسر کا ہٹایا جانا بہت ناکافی ہے۔بی ایل اے سے جڑے ایجنٹوں کا سراغ لگانا اور ان کو عبرت ناک سزا دینا بہت ضروری ہے۔بھاشا ڈیم پر کام کرنے والے انجینئروںکی ہلاکت سے ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔یہ یقینی بنانا ہو گا کہ آیندہ ایسی اطلاعات پاکستان مخالف قوتوں تک پہنچنے نہ پائیں۔ روایتی اقدامات اور بیانات سے آگے بڑھنا ہو گاورنہ یہ ملک دشمن قوتوں کے رحم و کرم پر رہے گا۔
[ad_2]
Source link