[ad_1]
کراچی: آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آئی) اور ڈیجیٹل سائنس کی صدی میں کراچی کے سرکاری اسکولوں کے طلبہ کمپیوٹر سائنس کی تعلیم کے لیے صرف درسی کتابوں پر اکتفا کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ محکمہ اسکول ایجوکیشن سندھ کے ماتحت کراچی کے 81 فیصد سے زائد سرکاری سیکنڈری اسکولز انفارمیشن ٹیکنالوجی یا کمپیوٹر کی لیبس کے بغیر کام کررہے ہیں اور گورنمنٹ سیکٹر میں کراچی کے 499 سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری اسکولوں میں سے 406 تعلیمی اداروں میں کمپیوٹر لیبس موجود ہی نہیں ہیں صرف 93 سرکاری اسکول ایسے ہیں۔
جن کے بارے میں محکمہ اسکول ایجوکیشن کا دعوی ہے کہ وہاں نویں اور دسویں کے طلبہ کے لیے کمپیوٹر سائنس کی تعلیم کے سلسلے میں لیبس موجود ہیں تاہم ان لیبس کی صورتحال بھی کوئی بہت اچھی نہیں ہے،جن سرکاری سیکنڈری اسکولوں میں لیبس موجود نہیں ہیں۔
ان میں سے بیشتر تعلیمی اداروں کے طلبہ کمپیوٹر کی پریکٹیکل ایجوکیشن حاصل نہیں کرپاتے اور اس کے بغیر ہی بورڈ کے تھیوری اور پریکٹیکل امتحانات میں چلے جاتے ہیں یہ انکشافات ’’ایکسپریس‘‘ کی جانب سے کراچی کے بعض سرکاری اسکولوں کے سروے اور ڈائریکٹوریٹ آف اسکول ایجوکیشن سیکنڈری اینڈ ہائر سیکنڈری سے حاصل کیے گئے ڈیٹا سے ہوئے ہیں اس موقع پر یہ بھی انکشاف ہوا یے کہ بیشتر سرکاری اسکولوں میں کمپیوٹر سائنس کا کور سبجیکٹ پڑھانے کے لیے اساتذہ نہیں ہیں کیونکہ محکمہ کے پاس کمپیوٹر سائنس کے اساتذہ کی تعداد ہی انتہائی محدود ہے ’’ایکسپریس ‘‘ نے اس سلسلے میں جب سہراب گوٹھ پر واقع علامہ اقبال اسکول کیمپس میں قائم گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول کا اچانک دورہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس اسکول میں کمپیوٹر لیب موجود ہے اور نہ ہی کمپیوٹر سائنس کا کوئی ٹیچر اسکول میں تعینات ہے جو طلبہ کو کمپیوٹر کی تعلیم دے سکے اسکول میں موجود وائس پرنسپل اور فزکس کے استاد محمد امان نے “ایکسپریس” کے سوال پر بتایا کہ “اسکول پرنسپل کی جانب سے کئی بار ڈائریکٹوریٹ کو تحریری طور پر بتایا جاچکا یے کہ ہمارے اسکول میں کمپیوٹر سائنس پڑھانے کے لیے کوئی استاد ہے اور نہ لیب موجود ہے۔
تاہم کوئی شنوائی نہیں ہوپائی ایک سوال کے جواب میں مذکورہ استاد اور وہاں موجود ایک اور استاد صفدر کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی اساتذہ نے اپنے گھر سے لیپ ٹاپ لاکر طلبہ کو پریکٹیکل کرائے تھے اور اس سال بھی یہی کریں گے، واضح رہے کہ مذکورہ اسکول میں کمپیوٹر سائنس کے ڈیڑھ سو سے زائد طلبہ نویں اور دسویں جماعت میں انرولڈ ہیں جو درسی کتابوں سے ہی کمپیوٹر سائنس پڑھتے ہیں، واضح رہے کہ ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی سے حاصل شدہ شماریات کے مطابق گزشتہ برس 2023 میں نویں کے امتحانات میں کمپیوٹر سائنس فیکلٹی میں 55462 طلبہ جبکہ اس سال 2024 میں اسی فیکلٹی میں 53334 طلبہ میٹرک کے امتحانات میں شریک ہوئے تھے۔
تاہم ان میں نجی و سرکاری دونوں سیکٹر کے طلبہ شامل ہیں میٹرک بورڈ سے صرف سرکاری اسکولوں سے کمپیوٹر سائنس فیکلٹی میں انرولڈ ہونے والے طلبہ کی تعداد حاصل نہیں ہوسکی، واضح رہے کہ اس صورتحال پر جب ’’ ایکسپریس‘‘ نے ڈائریکٹر اسکول ایجوکیشن سیکنڈری اینڈ ہائر سیکنڈری ارشد بیگ سے رابطہ کیا تو انھوں نے اس ساری صورتحال کی تصدیق کی ارش بیگ کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس پورے کراچی میں کمپیوٹر سائنس کے 10 سے 12 اساتذہ ہیں جبکہ اسکولوں میں لیبس کی عدم موجودگی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ محکمہ اس صورتحال سے آگاہ ہے لیبس کی شدید قلت ہے جبکہ لیبس موجود ہیں ان میں بھی اکثر مشینیں پرانی ہیں۔
واضح رہے کہ محکمہ اسکول ایجوکیشن سندھ کے ماتحت ڈائریکٹوریٹ آف سیکنڈری ایجوکیشن کراچی کے پاس کل 518 سرکاری اسکولز ہیں جن میں 19ایلیمنٹری اسکولوں کے علاوہ 499 سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری اسکولز ہیں ان میں 429 سیکنڈری اور 70 ہائر سیکنڈری اسکولز ہیں محکمہ سے حاصل شدہ ڈیٹا کے مطابق صرف 19 فیصد اسکولوں میں کمپیوٹر لیبس ہیں کراچی کے 7 اضلاع میں سے ضلع وسطی میں کل 123 سرکاری سیکنڈری اسکولوں میں سے 93 میں کمپیوٹر لیبس نہیں ہیں اس طرح ضلع شرقی کے 92 سیکنڈری اسکولوں میں سے 81، ضلع غربی کے 42 سیکنڈری اسکولوں میں سے 35 میں ، ضلع جنوبی کے 83 میں سے 65،ضلع کیماڑی کے 54 میں سے 42 میں،ضلع کورنگی کے 96 میں سے 83 اور ضلع ملیر کے 9 سیکنڈری اسکولوں میں سے 7 میں کمپیوٹر لیبس نہیں ہیں۔
’’ایکسپریس ‘‘ جب پوزیشن حاصل کرنے والے سرکاری تعلیمی ادارے دہلی گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول کے صدر معلم مسعود سلطان سے وہاں کمپیوٹر لیب کی صورتحال جاننے کے لیے رابطہ کیا تو ایک نیا انکشاف ہوا مذکورہ صدر معلم کا کہنا تھا کہ “ان کے اسکول میں نویں اور دسویں جماعت کی سطح پر صرف کمپیوٹر سائنس ہی پڑھائی جاتی ہے اور بیالوجی کا مضمون آفر ہی نہیں ہوتا تاہم جب اس کی وجہ جاننے کی کوشش کی گئی تو انھوں نے انکشاف کیا کہ گزشتہ تقریبا 5 سال سے اس اسکول میں بیالوجی کا ٹیچر موجود نہیں ہیں ماضی میں دو خواتین ٹیچرز تھیں تاہم دونوں ریٹائر ہوچکی ہیں ہم اس سلسلے میں متعلقہ ڈائریکٹوریٹ کو آگاہ بھی کرچکے ہیں ۔
[ad_2]
Source link