[ad_1]
ہمیں غور کرنا چاہیے کہ زندگی میں جب کبھی مشکلات اور پریشانیوں نے آگھیرا اور ہم مایوس ہوگئے اور ہم نے سوچ لیا کہ اب تو ہماری ہلاکت ہی ہے، ہمیں اس مشکل اور پریشانی سے نجات کی کوئی صورت ممکن نظر نہ آئی… تو پھر کس نے ہمیں اس پریشانی سے نجات دی…؟ پھر کس کی رحمت سے ہم سے یہ مشکل وقت ختم ہُوا…؟
بلاشبہ! اﷲ ربّ العزت کے ہم پر اتنے احسانات ہیں کہ ان کا شمار قطعاً ممکن نہیں۔ اﷲ ربّ العزت کے ان احسانات کو یاد کرکے ہی ہم اﷲ ربّ العزت کے احسان مند اور شکر گزار بندے بن سکتے ہیں۔ افراتفری کے اس دور میں اطمینان بخش زندگی کے لیے ضروری ہے کہ بندے کا ربّ تعالیٰ سے محبت کا رشتہ قائم ہو۔ ربّ تعالیٰ تو اپنے بندوں سے بے پناہ محبت رکھتے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ بندے کے دل میں بھی خالق کائنات کی محبت سب سے زیادہ ہو، تبھی وہ احکامات خداوندی کو بہتر طور پر بجا لا کر کام یاب اور اطمینان بخش زندگی بسر کرسکتا ہے۔
بندے کی خالق سے محبت کے لیے ضروری ہے کہ وہ ربّ تعالیٰ کی توحید کا اقرار کرے۔ توحید اس بات کی گواہی ہے کہ اﷲ رب العزت اس ساری کائنات کا واحد خالق حقیقی ہے، اس کا کوئی شریک، ثانی و ہم سر نہیں، اور ساری کی ساری حمد و ثناء اسی وحدہ لاشریک، کل شئیٍ قدیر کے لیے ہے۔
توحید یعنی اﷲ رب العزت کی واحدانیت کی گواہی پورے اسلام کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے، جس کسی نے سچے دل اور پورے شعور سے اﷲ ربّ العزت کے وحدہ لا شریک ہونے کی شہادت دی اور شرک سے بچا رہا تو اس شخص کی زندگی مکمل طور پر دین اسلام کے مطابق ہوگی۔ کیوں کہ جب کسی شخص کی گواہی یہ ہو کہ ہر چیز کا خالق اﷲ تعالیٰ ہے، وہی عطا کرنے والا ، روکنے والا ہے، ہدایت دینے والا ہے، اﷲ کے سوا کوئی عطا کرنے والا نہیں، اور نہ اس کے سوا کوئی نفع دینے والا ہے، تو اس طرح ہر ضرورت کے وقت اس کے ذہن میں اﷲ تعالیٰ ہی کی یاد آئے گی اور اس کے تمام احکام بھی یاد آئیں گے۔
بے شک! اﷲ تعالیٰ واحد و یکتا ہے۔ نہ اس نے کسی کو جنا، نہ وہ جنا گیا، نہ اس کا نہ کوئی مقابل ہے نہ نظیر، نہ مثال، نہ تمثیل، نہ عکس، اﷲ ربّ العزت کی ذات اور صفات میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ ہر پل ہر جگہ اﷲ تعالیٰ موجود ہے، واحد ہے، قادر ہے، علیم ہے، خبیر ہے، غالب ہے، رحیم ہے۔ ارادہ کرنے والا ہے، سمیع ہے، بزرگ و برتر ہے۔ بلند و بالا ہے، دیکھنے والا ہے، زندہ و باقی رہنے والا ہے، بے نیاز ہے، علم کے ساتھ حلم رکھتا ہے، اپنی قدرت کے ساتھ قادر ہے۔ کوئی چیز اس کی قدرت سے باہر نہیں، کوئی پیداوارِ فطرت اس کے حکم سے باہر نہیں، اس کے علم سے کوئی چیز غائب نہیں، وہ جیسا چاہے کرے، اس کے فعل پر ملامت نہیں، اس کے سب اچھے نام اور بلند و بالا صفات ہیں۔ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ بندے اس کے حکم کے سامنے عاجزی کرتے ہیں۔ اس کی حکومت کے اندر وہی ہو سکتا ہے جو وہ چاہتا ہے۔
کائنات میں جو کچھ امور آتے رہتے ہیں، سب کا خالق وہی ہے۔ اسی نے قوموں کی طرف رسولوں کو بھیجا ہے، اسی نے ہمارے پیارے نبی سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کو آخری رسول ﷺ بنا کر ہماری راہ نمائی لے لیے بھیجا ہے۔ جب اﷲ تعالیٰ کی محبت ہمارے دلوں میں پیدا ہوگی تو ہمیں زندگی کی حقیقی راحتیں میسر آئیں گی، اور ہر چھوٹی سے چھوٹی خوشی بھی ہمارے لیے خوش گوار ثابت ہوگی۔ جب کسی بندے کے دل میں خالق کی حقیقی محبّت پیدا ہوجاتی ہے تو وہ مخلوق میں کسی کا سردار بننا بھی پسند نہیں کرتا کیوں کہ اس کی نظر میں بڑائی کا تصور صرف اﷲ تعالیٰ کے لیے موجود ہوتا ہے۔
ایک دفعہ ایک غزوہ میں ایک عورت گرفتار ہوکر آئی۔ اس کا بچہ گم ہوگیا تھا۔ مامتا کی محبت کے جوش کا یہ عالم تھا کہ جو کوئی بچہ اسے مل جاتا، اس کو سینے سے لگا لیتی۔ حضور رسول مقبول ﷺ نے دیکھا تو حاضرین سے مخاطب ہوکر فرمایا، مفہوم: ’’کیا یہ ہوسکتا ہے کہ یہ عورت خو د اپنے بچے کو آگ میں ڈال دے گی۔؟‘‘
لوگوں نے عرض کیا: ہرگز نہیں۔
حضور ﷺ نے فرمایا: ’’تو خدا کو اپنے بندوں سے اس سے زیادہ محبت ہے جتنی اس عورت کو اپنے بچے سے ہے۔‘‘ (بخاری)
حضور ﷺ ایک غزوہ سے واپس آرہے تھے۔ ایک عورت اپنے بچے کو گود میں لے کر آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ! ایک ماں کو اپنے بچے سے جتنی محبت ہوتی ہے، کیا خدا کو اپنے بندوں سے اس سے زیادہ نہیں؟‘‘
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ہاں! بے شک ہے!‘‘
یہ سن کر عورت نے کہا: ’’کوئی ماں تو اپنے بچے کو آگ میں ڈالنا گوارا نہیں کرتی۔‘‘
یہ سن کر شدت جذبات سے آپ ﷺ رو پڑے۔ پھر سر اٹھا کر فرمایا: ’’خدا صرف اس بندے کو عذاب دے گا جو سرکشی سے ایک کو دو کہتا ہے۔‘‘
ایک بار نبی ﷺ صحابہؓ کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ ایک صاحب ایک چادر میں ایک پرندہ اور اس کے بچوں کو لپیٹے ہوئے لائے اور عرض کیا: ’’یارسول اﷲ ﷺ! میں نے ایک جھاڑی میں ان بچوں کو اٹھا کر کپڑے میں لپیٹ لیا۔ ان کی ماں میرے سر پر منڈلانے لگی۔ میں نے ذرا سا کپڑا کھولا تو وہ بچوں پر گر پڑی۔‘‘
یہ سن کر حضور اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’اپنے بچوں کے ساتھ ماں کی اس محبت پر تمہیں تعجب ہے۔ قسم ہے اس ذات کی! جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا، جو محبّت اس ماں کو اپنے بچوں کے ساتھ ہے، خدا کواپنے بندوں کے ساتھ اس سے بہ درجہ ہا زیادہ محبّت ہے۔‘‘ (مشکوۃ بہ حوالہ ابی داؤد)
یہ واقعات اس حقیقت کی وضاحت کردیتے ہیں اگر انسان اپنے خالق و مالک سے محبت رکھے تو وہ خود مہربان اور رحیم خالق بھی انسان سے اسی درجہ محبت رکھتا ہے کہ انسانی رشتۂ پیوند میں کوئی انتہائی محبت رکھنے والا بھی محبت کے اس مقام کو نہیں پہنچ سکتا۔
اﷲ ربّ العزت سے دعا ہے کہ ہمیں خالق کائنات سے خالص محبت نصیب فرمائے، جو ہمارے دلوں کو نور ایمانی سے بھر دے، اﷲ تعالیٰ ہمارے ایمان کو تاحیات سلامت رکھے ، اور اپنے احکامات اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے نورانی طریقوں پر عمل کرنے والا بنائے۔ آمین
[ad_2]
Source link