41

غیر یقینی صورتحال – ایکسپریس اردو

[ad_1]

ایک ایسا وقت جس میں غیر یقینی صورتحال قائم ہو، جہاں حالات کے اثرات لوگوں کے روز مرہ امور پر پڑ رہے ہوںووہاں لوگوں میں بے چینی کا پیدا ہونا فطری امر ہوتا ہے ۔آپ کسی بھی علمی و فکری مجالس کا حصہ ہوں جہاں قومی سطح کے مسائل پر گفتگو ہورہی ہو تو لوگ نہ صرف سوالات اٹھاتے ہیں بلکہ سسٹم کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ۔ یہ نقطہ بنیادی طور پر اتفاق رائے کی صورت میں سامنے آتا ہے کہ جس انداز سے اس ملک کے طاقت ور طبقات جن میں ریاستی وحکمرانی سے جڑے افراد ہیں نظام کو چلانے کی کوشش کررہے ہیں ، یہ نہیں چل سکے گا۔

مسائل کی سنگینی ایک ایسی نہج پر پہنچی ہے جہاں ان غیر معمولی حالات میں غیر معمولی یا سخت گیر اقدامات کے بغیر اصلاح کی گاڑی آگے نہیں بڑھ سکے گی ۔کیونکہ اس وقت تمام طبقات کی جانب سے جو من مانی ہورہی ہے یا جس انداز سے ریاستی امور کو چلایا جارہا ہے، وہ عوامی مفادات کی سیاست، معیشت کے برعکس ہے ۔لوگوں میں جو بے چینی ، غیر یقینی، مایوسی یا لاتعلقی کی سوچ و فکر قومی سطح پر پروان چڑھ رہی ہے، وہ بھی ریاست ، حکومت اور شہریوں میں جو باہمی تعلق ہے اسے کمزور کرکے ایک بڑی خلیج کی سیاست کو پیدا کررہی ہے ۔

سیاسی تقسیم نے لوگوں کو ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑا کردیا ہے اور ریاست ، حکومت اور شہریوں کے درمیان موجود باہمی تعلق میں جو ہمیں خلیج نظر آرہی ہے وہ ریاست کے مفاد میں نہیں ۔ایسے لگتا ہے کہ ہمارا مجموعی ریاستی و حکمرانی کا نظام ایک بڑے طاقت ور گروپ او راس کے مفادات کے گرد گھوم رہا ہے ۔عام یا کمزور طبقات میں بڑی تیزی سے پھیلتی ہوئی مایوسی یا اپنی اہمیت کی کمزوری کی جو سوچ پروان چڑھ رہی ہے وہ زیاد ہ خطرناک رجحانات کی نشاندہی کرتی ہے۔

اسلام آباد میں جاری طاقت کی لڑائی جسے ہم ایک بڑی سیاسی جدوجہدیا جمہوریت کی لڑائی کی بنیاد پر پیش کررہے ہیں اس میں سوائے طاقت کی حکمرانی اور طاقت ور طبقات کے مفادات کے سوا اور کچھ غالب نہیں ۔ایک طبقاتی نظام جہاں تمام افراد کے مقابلے میں طاقت ور یا خواص کی اہمیت ہو تو اس نظام یا ریاست کی مجموعی ساکھ پر لوگ سوالات نہ اٹھائیں یا تنقید نہ کریں تو پھر کیا کریں ۔حکمران یا طاقت ور طبقات شیشے کے گھروں میں بیٹھ کر عام یا کمزور عوام کی مشکلات یا درد کو سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے ۔ اس حکمران اور طاقت ور طبقات کے پاس جذباتیت پر مبنی نعرے یا خوش نما باتیں یا مستقبل کی تسلیاں یا جھوٹ پر مبنی بیانیہ ہے جو لوگوں میں عدم قبولی سے دوچار ہے۔

لوگ اس نظام پر مجموعی طور پر سوالات اٹھارہے ہیں ۔ ان سوالوں میں محض سوالات ہی نہیں بلکہ غصہ یا اونچی آواز بھی سننے کو ملتی ہے ۔ غصہ کے اس بیانیہ میں سوالات میں جہاں تنقید ہوتی ہے وہیں طاقت ور حکمران طبقات کی سیاسی تضحیک کا پہلو بھی نمایاں نظر آتا ہے یا تنقید کرنے والے تنقید کرتے وقت ریڈ لائن کو بھی کراس کرجاتے ہیں ۔ کوئی اس بات کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں کہ لوگ سوالات کیوں اٹھارہے ہیں اور غصہ کا پہلو کیوں نمایاں ہے ۔اصولی طور پر حکمران اور طاقت ور طبقات نے اپنی آنکھیں اور کان بند کرلیے ہیں اور لوگوں کے درد ، دکھ اور مشکلات کو سمجھنے کے بجائے من مانی کررہے ہیں۔ ایک مسئلہ حکمران یا طاقت ور طبقات کا سوال کرنے یا تنقید کرنے والوں کی آوازوں کو دبانا ، حوصلہ افزائی نہ کرنا ، متبادل سوچ اور فکر کا احترام نہ کرنا یا ا ن کے بنیادی حقوق کی پاسداری کو ہی تسلیم نہ کرنے سے جڑا ہوا ہے ۔یہ عمل عام آدمی کی جہاں مشکلات کو بڑھا رہا ہے وہیں ان میں سخت ردعمل کی سیاست کو بھی پیدا کررہا ہے جو ریاستی نظام میں زیادہ تلخیوں او رکشیدگی کے پہلووں کو پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے ۔

اس ملک کا طاقت ور طبقات اور ان سے جڑھ مضبوط افراد یا اداروں کے باہمی گٹھ جوڑ نے قومی سیاست میں متبادل آوازوں ، سوچ ،فکراور سوالوں کو قبو ل کرنے سے انکار کیا ہوا ہے ۔کیونکہ کوئی بھی کسی بھی انفرادی یا اجتماعی شکل میں پہلے سے موجود نظام یا روائتی یا فرسودہ سیاست کو چیلنج کرتا ہے تو اسے اس کے سوالوں کا جواب دینے کے بجائے ان متبادل آوازوں کو فرسودہ قرار دے دیا جاتا ہے ۔یہ سوچ معاشرے میں سیاسی او رمعاشی سمیت علمی و فکری گھٹن کو پیدا کرتی ہے یا لوگوں کو ریاستی وحکومتی نظام سے لاتعلق کردیتی ہے ۔مسئلہ یہ نہیں کہ متبادل آواز یا سوالات کی سچائی کیا ہے ممکن ہے کہ یہ سوچ غلط ہو مگر ان آوازوں کو سنا ضرور جانا چاہیے ۔

ریاستی یا حکومتی نظام میں مسائل کا پیدا ہونا فطری امر ہے مگر جب تک ان مسائل کے حل کے لیے ہم متبادل آوازوں کو موقع ہی نہیں دیں گے تو مسائل کا حل کیسے ممکن ہوگا۔جمہوریت او رآمریت یا کنٹرولڈ یا ہائبرڈ نظام میں بنیادی فرق ہی شہریوں کے حقوق کی پاسداری یا ان کی رائے کو اہمیت دے کر آگے بڑھنے سے جڑا ہوتا ہے ۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم جمہوریت سے دور اور آمرانہ نظام کے زیادہ نزدیک ہوتے جارہے ہیں جو ہمارے سیاسی اور جمہوری مقدمہ کو داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر ناکام بنارہا ہے ۔ اس لیے حکمران طبقات کو زیادہ سنجیدگی کے ساتھ اپنے داخلی نظا م کا احتساب کرنا ہوگا اور سیاسی اصلاح کا عمل ممکن بنانا ہوگا۔

یہ نظام فرسودہ بھی ہے او رکھوکھلا بھی ہوچکا ہے ۔ اس نظام کی سیاسی ،سماجی ، آئینی ، قانونی اور معاشی ساخھ پر سوالات ہی سوالات ہیں مگر ان کا کوئی جواب دینے کے لیے اول تو تیار نہیں اور اگر کوئی دینا چاہتا ہے تو سچائی سے زیادہ اس میں ان کی خواہشات کا پہلو زیادہ غالب ہے جو ٹکراو کے ماحول کو پیدا کرتا ہے۔ ایک متبادل سیاست اور حکمرانی کا نظام کیا ہونا چاہیے اور کیسے ہم اس فرسودہ اور طبقاتی طبقہ پر مبنی اس نظام سے ہم بہتر نظام کی طرف بڑھ سکیں گے۔

جو بھی ریاست یا حکمرانی کا نظام آئین وقانون اور سیاسی و جمہوری اصولوں کو نظرانداز کرکے یا وہ عام آدمی کے مفادات کو پس پشت رکھ کر چلے گا اس سے ہماری مشکلات کم نہیں بلکہ اور زیادہ بڑھیں گی ۔متبادل نظام سے مراد ہمیں قومی سطح پر مختلف شعبہ جات کے تناظر میں سخت گیر اور غیر معمولی اصلاحات کی طرف بڑھنا ہوگا او رداخلی نظام کی خامیوں و مشکلات کو سمجھ کر آگے کی طرف بڑھنے کو اپنی قومی ترجیحات کا حصہ بنانا ہوگا۔

یہ کام محض ریاست یا حکمران طبقات نہیں کریں گے بلکہ اس کے لیے معاشرے کے اندر سے مضبوط آوازو ں کو بیدارکرنا ہوگا اور متبادل نظام کی خواہش رکھنے والوں کو ایک بڑی طاقت کے طور پر خو دکو پیش کرکے بڑے دباو کی عملی سیاست کو فروغ دینا ہوگا۔کیونکہ ریاستی و حکومتی نظام کی درستگی کا عمل سخت گیر نگرانی ، شفاف جوابدہی و احتساب یا حکمرانی کے نظام میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کی نظام میں شمولیت سے جڑا ہوا ہے ۔رائے عامہ بنانے والے افراد یا اداروں کو شخصی حکمرانی اور اپنے مفادات کی سیاست سے باہر نکل کر ایک بڑی سوچ کے ساتھ لوگوں کی راہنمائی کرنا ہوگی ۔

۔کیونکہ دنیا میں جتنی تیزی سے تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں یا حکمرانی کے نظام میں عام لوگو ں کے مفاد کو بنیاد بنا کر جو جدیدیت اختیار کی جارہی ہے اس خود کو لاتعلق رکھنے کی سوچ حکمرانی کے نظام میں بہتری نہیں بلکہ اور زیادہ بگاڑ کو پیدا کرے گا۔عام یاکمزور طبقات کے مسائل کو سنا جائے اسے نظرانداز کرنے کے بجائے یہ سمجھا جائہ کہ ان مسائل کیونکر پیدا ہوئے ہی اور مسائل کے حل کیا رکاوٹیں ہیں ۔ بنیادی طور پر ہمارا نظام پورے نظام میں ایک بڑے اسٹرکچرل اصلاحات چاہتا ہے مگر جو بھی طاقت ور لوگ ہیں وہ ان بڑی اصلاحات کے مخالف ہیں ۔کیونکہ ان کو لگتا ہے کہ بڑی اور سخت گیر اصلاحات سے اداروں کی بالادستی کو فوقیت ہوگی اور طاقت ور طبقات کو اداروں کے ہاتھوں جوابدہ ہونا پڑے گا ،جو ان کو قبول نہیں ۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں