[ad_1]
پانچ اکتوبر 2024 کو، میں نے اپنی 78ویں سالگرہ منائی۔میں خوش نصیب ہوں کہ میرے بچے اور میرے بچوں کے بچے میری سالگرہ پر میرے پاس تھے۔ میری بہو سعدیہ نے 4 اکتوبر کو میرے لیے پھول اور کیک بھجوایا، اگلے دن فینی اور کامران آئے اور سب سے خوشی کی بات یہ تھی کہ پرما بی بھی ان کے ساتھ تھیں وہ بہت خوبصورت گلدستہ میرے لیے لائی تھیں۔ میں نے ان سب کے ساتھ ان کا لایا ہوا کافی کیک کاٹا۔ کامران نے وڈیو کال پر فرجاد سے بات کروائی وہاں امریکا میں اس وقت رات کے تین بجے تھے، وہ میری صحت کی طرف سے بہت فکر مند تھا۔
شام میں زریون، سعدیہ اور سبل، آبان آئے۔ آبان اور سبل کے ساتھ کیک کاٹا۔ سحینا کا پنڈی سے فون آیا، مبارک باد کے ساتھ وہ یہ بھی سمجھا رہی تھیں کہ میں زیادہ میٹھا نہ کھاؤں اور احتیاط کروں۔ غرض سالگرہ کا دن اپنے پیاروں کے ساتھ بہت اچھا گزرا۔زندگی کا یہ سفر میرے لیے طویل، پیچیدہ مگر حوصلہ افزا رہا ہے۔ جب پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں، تو یہ فخر سے کہہ سکتی ہوں کہ میں نے ہمیشہ ان لوگوں کے لیے لکھا جو سماجی ظلم اور ناانصافی کے شکار ہیں۔ میرے قلم نے کبھی خاموشی اختیار نہیں کی، اور میں نے ہمیشہ سچ کے ساتھ کھڑے ہونے کا عہد کیا۔
یہ زندگی ایک مستقل جدوجہد ہے، اور میری زندگی کا مقصد ہمیشہ یہ رہا ہے کہ میں ان لوگوں کی آواز بنوں جو خود اپنی آواز نہیں اٹھا سکتے۔ میں نے ہمیشہ حقیقی جمہوریت کے حق میں لکھا، ایک ایسی جمہوریت جو صرف طاقتوروں کے لیے نہ ہو بلکہ ہر طبقے، ہر جنس، ہر فرد کے لیے یکساں مواقع فراہم کرے۔پاکستان میں جمہوریت کا سفر ہمیشہ ناہموار رہا ہے۔ کبھی فوجی حکمرانوں نے اسے کچلا، کبھی سیاست دانوں کی نااہلی اور خود غرضی نے اسے کمزور کیا۔ مگر میں نے کبھی ہار نہیں مانی۔ میں نے ہمیشہ یہ یقین رکھا کہ جمہوریت کا مطلب عوام کی حکمرانی ہے، نہ کہ چند لوگوں کی طاقتور گرفت۔ یہ وہی جمہوریت ہے جس کا خواب میں نے دیکھا تھا، جہاں ہر انسان کو اپنی رائے دینے کا حق ہو، اور ہر شخص اپنے حقوق کا دفاع کر سکے۔
میری تحریریں ہمیشہ سچ کی تلاش میں رہی ہیں۔ سچ ایک کڑوی گولی ہے، جو اکثر لوگوں کو قبول نہیں ہوتی، خاص طور پر وہ لوگ جو اقتدار میں ہوتے ہیں۔ مگر میں نے کبھی اس سچ کو چھپانے کی کوشش نہیں کی۔ میری تحریروں نے ہمیشہ ان ظالموں کو بے نقاب کیا جو اپنے مفادات کے لیے عوام کا استحصال کرتے ہیں۔ میری تحریریں ان لوگوں کے لیے ہیں جو غربت، جہالت، اور بے بسی کا شکار ہیں۔
جہاں تک خواتین کے حقوق کا تعلق ہے، میں نے ہمیشہ یہ مانا کہ کسی بھی سماج کی ترقی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک خواتین کو برابر کے حقوق نہیں دیے جاتے۔ میں نے زندگی میں ہمیشہ خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی اور ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف لکھا ایک ایسا سماج جہاں عورتوں کو برابر کے مواقع ملیں، وہی ایک حقیقی جمہوری سماج ہو سکتا ہے۔ اس لیے میں نے ہمیشہ یہ مطالبہ کیا کہ تعلیم، صحت، روزگار اور سیاسی عمل میں عورتوں کو وہی حقوق ملنے چاہئیں جو مردوں کو حاصل ہیں۔
میری تحریریں کبھی صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں تھیں، بلکہ ان میں وہ درد اور احساس موجود تھا جو میں نے اپنے اردگرد کے ماحول میں محسوس کیا۔ میں نے دیکھا کہ کیسے عورتوں کو ایک دوسرے درجے کے شہری کے طور پر برتا گیا، کیسے ان کے حقوق کو پامال کیا گیا اور کیسے انھیں زندگی کے اہم فیصلوں میں شامل نہیں کیا گیا۔ میرے نزدیک یہ سب کچھ ناقابل قبول تھا، اور میں نے اپنی تحریروں میں ہمیشہ اس کے خلاف آواز اٹھائی۔
زندگی کا یہ سفر کبھی بھی آسان نہیں رہا۔ کئی دفعہ مجھ پر دباؤ ڈالا گیا، مجھے خاموش کرانے کی کوشش کی گئی، مگر میں نے کبھی اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ مجھے معلوم تھا کہ میری خاموشی ان مظلوموں کی شکست ہو گی جن کے لیے میں لکھ رہی ہوں۔ اس لیے میں نے ہمیشہ اپنے قلم کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا، جو سچ کو بے نقاب کرتا اور انصاف کے لیے جنگ لڑتا۔
جب تک میری سانسیں باقی ہیں، میں مظلوموں کی آواز بنی رہوں گی۔ میں انصاف کے لیے لکھتی رہوں گی، اور اپنی آخری سانس تک اس جدوجہد کو جاری رکھوں گی۔
میں نے ہمیشہ سچ کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا۔ اس لیے میں نے ہمیشہ وہ لکھا جو دل کی گہرائیوں سے محسوس کیا، وہ لکھا جو حقیقت تھی، اور وہ لکھا جو انصاف کا تقاضا تھا۔
مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں نے ایک ایسے مقصد کے لیے اپنی زندگی وقف کی جو انسانیت کی بہتری کے لیے تھا۔ میں نے ہمیشہ وہ لکھا جو میرے ضمیر نے کہا، اور میں نے ہمیشہ اپنے قلم کو سچائی اور انصاف کے راستے پر چلایا۔
میرے لیے یہ زندگی کا سب سے بڑا انعام ہے کہ میں نے ان لوگوں کے لیے لکھا جو خاموش تھے، ان کے لیے آواز اٹھائی جو دبائے گئے، اور ان کے لیے جنگ لڑی جو بے سہارا تھے اور جب تک میں زندہ ہوں، میں اسی مشن کو جاری رکھوں گی، کیونکہ میرے نزدیک زندگی کا مقصد یہی ہے۔
ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ ہم نے بے شک بہت سی کامیابیاں حاصل کی ہیں لیکن ہمارے اردگرد ابھی بھی جبرو استحصال ہو رہا ہے اور اس کے لیے ہمیں کام کرنا ہے۔
زندگی کے تجربے نے مجھے سکھایا ہے کہ چاہے زمانہ کتنا بھی بدل جائے عورت کی آواز کو کبھی بھی دبایا نہیں جاسکتا یہ آواز ہمیشہ اپنی شناخت کے لیے لڑتی رہے گی اور قلم اس کا سب سے بڑا ہتھیار رہے گا۔ میں چاہتی ہوں کہ آج لڑکیاں اس یقین کے ساتھ آگے بڑھیں کہ سفر مشکل سہی مگر منزل پانا ناممکن نہیں ہے۔
زندگی کا یہ سفر جو 78 سال پر محیط ہے یہ ابھی جاری ہے۔ میں آج بھی وہی جذبہ اور عزم محسوس کرتی ہوں جو میں نے پہلی بار قلم اٹھانے پہ محسوس کیا تھا۔ قلم کی طاقت ہمیشہ ظلم کے خلاف اٹھتی رہے گی۔ ہماری جدوجہد ظلم اور نا انصافی کے خلاف ہے اور قلم کا سفر رکے گا نہیں۔
[ad_2]
Source link