37

سندھ میں انتہاپسندی – ایکسپریس اردو

[ad_1]

تاریخ ایک پہیہ ہے جو حرکت میں رہتا ہے اور اس حرکت میں زماں حال ، زماں ماضی بن جاتا ہے جو آج ہے وہ کل بن جاتا ہے اور جو کل ہوگا وہ بھی ایک دن ماضی کا حصہ بن جاتا ہے۔ایسے ہی گزرنا ہے سو گزرے،بس ایک عکس باقی رہ جاتا ہے۔تاریخ ایک فرد کی بھی ہوتی ہے اور اقوام کی بھی۔ اس دھرتی پر انسان نے جو دنیا بنائی ہے وہ بھی تاریخ ہے۔انسانوں کی تاریخ ان کے وجود سے بنتی ہے۔ارتقاء کی مسافتیںاسی تاریخ کی سخن ہیں۔فیض کی ان سطروں کی مانند۔

یہ سخن جو ہم نے رقم کیے سب ورق ہیں تیری یاد کے

کوئی لمحہ صبح فراق کا،کوئی شام ہجر کی مدتیں

یہ دنیا بڑی تیزی سے بدل رہی ہے اور اسی تیزی سے تاریخ بھی۔پہلے جو حقائق صدیوں میں تبدیل ہوتے تھے،وہ اب سالوں میں ہونے لگے ہیں۔ دور حاضر میں فلسفے کے حوالے سے یوول ہراری اپنا مقام رکھتے ہیں۔وہ یہ کہتے ہیں کہ اس وقت دنیا میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی پہلی ترتیب یا پہلی جنریشن موجود ہے جس کو ہم دیکھ اور سمجھ رہے ہیں۔اس سائنس و ٹیکنالوجی میں بڑی تیزی سے بدلاؤ آرہے ہیں اور اس بدلاؤ میں دنیا کی کایا تبدیل ہو نی ہے۔انسانوں کے حکمرانی جو اس دنیا پر آج سے دس ہزار سال پہلے قائم ہوئی تھی اب اس انسانی حکمرانی کا خاتمہ ہونا ہے،پھر حاکمیت قائم ہو نی ہے اس مصنوعی ذہانت کی۔

مجھے اس بات کا بڑا افسوس ہے کہ اس بدلتی دنیا اور اس کی تیزی کو اردو زبان میں کوئی رقم نہیں کر پا رہا ہے۔کیا ہماری ترجیحات اور ہمارے موضوع مختلف ہیں یا پھر ہم آج بھی اسی بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں،اگر ہم اردو زبان کو عہد حاضر کی ترجیحات کے پیرائے میں نہیں ڈھالیں گے تو نقصان سراسر ہمارا ہی ہوگا۔ جس طرح سے ہم اردو زبان میں انگریزی اصطلاحات کی غلط تشریح کرتے ہیں جیسا کہ انگریزی زبان کے لفظ ’’سیکولر‘‘ کی تشریح جو ہم نے اردو میں کی وہ ہے ’لادینیت ‘ یا پھر ATHEISM جب کہ اس کے حقیقی معانی انگریزی لغت میں یہ ہے کہ’’ ریاست اور مذہب الگ الگ ہے‘‘اور خصوصاً یہ اصطلاح قانونی اور آئینی زاویے کی ہے اور اس کی بھرپور تشریح یہ ہے کہ ریاست کسی خاص مذہب ، نسل یا پھر زبان کی نہیں ہے بلکہ ریاست تمام مذاہب، تمام رنگ ونسل اور زبانوں کے درمیان بھائی چارے کو یقینی بناتی ہے۔

ایک ریاست کا مقصد ہی یہی ہے جیساکہ ہمارے آئین کا آرٹیکل بیس کہتا ہے۔تاریخ اپنے ابواب میں بڑی بے رحم ہے،جو اقوام یا ریاستیں بدلتے حقائق کو تسلیم نہیں کرتیں، بدلتے وقت کے ساتھ تبدیلی نہیں لاتیں، تاریخ انکو کہیںبلیک ہول میں پھینک دیتی ہے۔

ہمارے سندھ کی تاریخ ایک جداگانہ حیثیت رکھتی ہے۔ سندھ میں ہر رنگ و نسل ، ہر مذہب و فرقے کو اپنی عبادت گاہوں میں جانے اور عبادت کرنے کی مکمل آزادی ہے اور پھر وہ جانیں اور ان کا خدا جانے۔کہیں ایسا نہیں جیسا کہ ہمارے سندھ کا محور ہمارا بھٹائی ہے۔شاہ کی شاعری اور ان کے افکار سندھ کا بیانیہ ہیں۔سندھ کے نوجوان چھوٹی چھوٹی محفلوں اور چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھٹائی کے اشعار سنا کر اپنا مؤقف سمجھائیں گے۔مگر یہ ہماری بد نصیبی ہے اتنی امیر ثقافت کا مالک یہ صوبہ معاشی طور پر مضبوط نہ ہوسکا، معاشی طور پر کوئی تبدیلی نہ لا سکا۔

سندھ کے تمام بڑے شہر کراچی، حیدرآباد، سکھر اور شکار پور یہ تمام متوسط طبقے سے تھے اورہندو خاندانوں کو آزادی کے بعد یہاں سے کوچ کرنا پڑا۔ ان کے جانے بعد سندھ کی اشرافیہ صرف زرعی وڈیروں ، گزی نشینوں اور جاگیرداروں تک ہی محدود رہی۔سوچ کے اعتبار سے یہ وڈیرے صوفی اقدار کے حامی تو ہیں مگر دہقانوں کے معاملے اور ترقی کے منحرف ہیں۔ان فرسودہ روایات کے حامی ہیں جہاں کسان اور غریب کا استحصال ہو۔

قصہ مختصر ایک ماہ پہلے پولیس کی کسٹڈی میں رہنے والا ڈاکٹر شاہنواز بلآخر قتل کردیا گیا۔اس جرم کی سزا اور ٹرائل دونوں کا طریقہ ہمارے آئین و قانون میں موجود ہے۔ اب مذہب انتہا پسندوں کے لیے ایک ایسا ہتھیار بن گیا ہے جس کو انھوں نے اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا۔ڈاکٹر شاہنواز کے جرم کی آزادانہ تحقیقات کرائی جاتی ،کم از کم تحقیق ضرور ہونی چاہیے تھی۔اس کا یہ حق کسی اور نے نہیں بلکہ قانون کے رکھوالوں نے ہی چھینا۔

ڈاکٹر عمر کوٹ، تھرپارکر کی اکثریت اقلیتوں سے تعلق رکھتی ہے اور زیادہ تر وہ بھیل، کولہی، مینگھواڑ قبائل سے ہیں۔اس قتل سے ان لوگوں پر ایک دہشت طاری کردی گئی ہے کہ وہ یہاں غیر محفوظ ہیں ۔سوال یہ ہے پولیس نے اپنی کسٹڈی میں مبینہ ملزم کوکیوں مارا؟اس سوال کو لے کر سندھ حکومت نے پولیس افسران پر مبنی ایک کمیشن بنایا کہ اس واقعے کی آزادانہ تحقیقات کی جائے۔ سندھ حکومت نے ڈی آئی جی، ایس ایس پی اور ایس ایچ او کو بر طرف کرکے ، ان پر اور مذہبی شخص پر ایف آئی آر کاٹنے کا حکم دے دیا ہے لیکن ابھی تک گرفتاریاں عمل میں نہیں آئیں۔

ڈی آئی جی پر ایف آئی کٹی ہے ، اسے ہار پہنانے والا اسی علاقے کا پیپلز پارٹی کا ایم این اے تھا جن کے خلاف اب تک کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔گھوٹکی ضلع کے ایک پیر صاحب نے اس ہتھیار کو دو کروڑ کی قیمت میں وہ خریدنے کا اعلان کررکھا ہے جس کے ذریعے پولیس کسٹڈی میں ملزم کو قتل کیا گیا تھا، اس کے خلاف اب تک کوئی ایف آئی آر نہیں کٹی ہے اور نہ ہی سندھ حکومت نے اس بات کا نوٹس لیا ہے۔قانون کی تشریح کرنا عدالتوں کا کام ہے نہ کہ کسی فرد واحد یا پھر کسی تنظیم کا۔ایسے عمل سے خود ریاست کی ساخت کو نقصان پہنچتا ہے۔

مخدوم بلاول ہمارے سندھ کا بہت بڑا نام ہے۔چودہویں صدی میں جب سندھ پر ارغونوں اور ترخانوں نے حملہ کیا تو مخدوم بلاول کو سنگین الزامات کے تحت تیل کی کڑاہی میں پھینک دیا گیا کہ لوگوں میں دہشت پھیلے۔تاریخ ایسی غاصبوں کا حساب خود کرتی ہے ، آج مخدوم بلاول کا کیا مقام ہے اور غاصبوں کا کیا انجام ہے۔

ہمارے صوفیا کی تحریک ہزار سال کی روایت رکھتی ہیں۔تاریخ ایسے ہی رواں رہے گی۔یہ وقت بھی گزر جائے گا جیسے ترخانوں اور ارغونوں کا گزر گیا۔جس نے حق اور سچ کا ساتھ نہیں دیا، وہ تاریخ کے کوڑے دانوں میں گرا۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں