[ad_1]
یہ بات تو اب پرانی ہوچکی ہے کہ اس دنیا میں جو کچھ نظر آتا ہے، وہ ہوتا نہیں اورجو ہوتا ہے وہ نظر نہیں آتا، لہٰذا نئی بات یہ ہے کہ جوکہا جاتا ہے ،وہ جھوٹ ہوتا ہے اورجو کہا نہیں جاتا ،وہ سچ ہوتا ہے ۔ مطلب یہ کہ جو دیکھا جاتا ہے، وہ بھی جھوٹ اور جولکھا اورپڑھاجاتا ہے وہ تو جھوٹ کے سوا اورکچھ بھی نہیں ہوتا ۔ دنوں عظیم جنگوں کے بعد جو دنیا میں جوکچھ بھی ہورہا ہے ، مثلاً ویت نام اورکوریا سے ہوتا ہوا فلسطین ، عراق ، افغانستان، شام ، یمن ، لبنان وغیرہ میں، جسے کو ئی جہادکہتا ہے کوئی دہشت گردی اورکوئی پتہ نہیں کیا کیا کہتا ہے، ان پر اب تک ہزاروں کتابیں ، لاکھوں مضامین ، مقالے اور کالم لکھے گئے ہیں۔ کروڑوں بیانات دیے جاچکے ہیں اور لاکھوں ماہرین، تجزیہ نگاراورمفکرین طرح طرح کے ڈھو ل بجاچکے ہیں، نام کماچکے ہیں اور دام وصول کرچکے ہیں۔ یہ سب کچھ جھوٹ اور’’مایا ہی‘‘تھا اورہے ۔
سنسکرت لفظ’’مایا‘‘ ایک بہت ہی وسیع المعنی لفظ ہے لیکن مختصر طوروہ سب کچھ ’’مایا ہی ‘‘ہوتا ہے جوہوتا نہیں صرف دکھائی دیتا ہے، اس کے لیے اردو،فارسی لفظ طلسم اورطلسماتی بھی صحیح ہے لیکن جس چیزکی طرف میں نے اشارہ کیاہے یعنی سوکالڈ دہشت گردی یاجہاد یاوغیرہ وغیرہ ، یہ مایا اورطلسم سے کچھ بڑھ کر ہے، کیونکہ مایا اورطلسم جاں لیوا نہیں ہوتے، صرف نظر کادھوکا ہوتے ہیں، جب کہ ذکر شدہ ’’چیز‘‘ بہت ہی خونریزبھی ہے اوراس سے بھی زیادہ افسوس ناک ، اس لیے کہ اس سارے ہنگامے یا طلسم ہوشربا یامایا جال کے پیچھے جوہاتھ ہے اس کا ابھی تک کسی کو علم نہیں ہے کیوں کہ یہ معاملہ ۔
میں خیال ہوں کسی اورکا مجھے سوچتا کوئی اورہے
سرآئینہ کوئی اورہے پس آئینہ کوئی اورہے
کی طرح ہے۔دراصل یہ کام کسی اورکا ہے لیکن اسے کرتا کوئی اورہے اورستم بالائے ستم یہ ، جو لوگ یہ کام کررہے ہیں، ان کو بھی پتہ نہیں کہ ہم کسی اورکا کام کررہے ہیں۔ وہ اسے اپنا کام ہی سمجھ کرکررہے ہیں جب کہ اصل میں ان سے کرایا جارہاہے لیکن اتنی ذہانت ،اتنے کمال اوراتنی ہنرمندی کے ساتھ کہ ان کو احساس تک نہیں ہے کہ ہم کٹھ پتلیاں ہیں کیونکہ ’’ماسٹر‘‘ جس ڈور سے ان کو نچا رہا ہے، وہ ’’ان وزیبل‘‘ ہے، اتنا شفاف، اتنا ملائم اوراتنا غیر محسوس، جیسے ریموٹ کنٹرول کی ’’ریز‘‘ ہوتی ہیں ،کسی کو بھی معلوم نہیں کہ سامنے جو ہورہا ہے، وہ ایک ہاتھ میں چھپے ہوئے ریمورٹ سے ہورہا ہے کیوں کہ اس کی ریزز دکھائی نہیں دیتیں بلکہ اب تونہ دکھائی دینے والی ریزز نے وہ وہ کارنامے دکھانا شروع کردیے ہیں جوپرانے زمانوں میں جنات سے منسوب کیے جاتے تھے۔
بڑی بڑی گاڑیاں، کارخانے ،جہازریموٹ سے چلائے جاتے ہیں۔ دہشت گردیوں وغیرہ ہی کی برکت سے ایک اورنام یااصطلاح بھی خاصی معروف ہوچکی ہے ، ’’ماسٹر مائنڈ‘‘ اورہمیں اس ماسٹر مائنڈ یاجادوگر کی بات کرنی ہے جوجنگ عظیم کے بعد اب فلسطین ،کشمیر، پاکستان، افغانستان، عراق، شام اور یمن بلکہ پوری اسلامی دنیا میں ’’پائے کوب ‘‘ ہے۔ زیادہ تفصیلات میں توہم نہیںجاسکتے لیکن اگرکسی کو تفصیل جاننا ہو، تو میری کتاب ’’دیواستبداد یانیلم پری‘‘ میںدیکھ سکتا ہے ۔ علامہ اقبال کایہ شعرکافی مشہور ہے کہ
دیواستبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے کہ آزادی کی ہے نیلم پری
اس ’’دیو‘‘ اور’’پری‘‘ کاذکر اس سے پہلے حافظ شیرازی نے بھی کررکھا ہے ۔
پری نہفتہ رج دیو درکرشمہ حسن
بسوزعقل زحیرت کہ ایں چہ بوالعجبی ست
یہ ’’دیو‘‘صرف جمہوری قبا اورآزادی کا لباس ہی استعمال نہیں کرتا بلکہ موقع ومقام کی نسبت سے مذہب، قانون ، امن، وطن یا قوم ونسل کا لباس اورچہرے بھی استعمال کرتا ہے لیکن بصارت اوربصیرت دونوں صحیح ہوں تو پہچانناکچھ اتنا مشکل کام بھی نہیں ہے ۔
بہررنگے کہ خواہی جامہ می پوش
من انداز قدت رامی شناسم
(تم چاہے کتنے رنگ برنگے لباس پہن لو، میں تمہارے قدوقامت سے تجھے پہچان لیتا ہوں)
آگے بڑھنے اوراس دیو کے چہرے سے نقاب ہٹانے سے پہلے ، یہ بھی بتادوں کہ مخصوص ’’میڈ میڈ میڈیا‘‘ نے اس دیو کو اتنے پردوں میں چھپایا ہوا ہے کہ اس کی حقیقت جاننے کے لیے ہمیں دوردورتک کھدائی کرنا پڑے گی اوربہت سارے ایسے پردے چاک کرنا پڑیں گے جو بظاہر بہت ہی مقدس ، بہت ہی مبارک اوربہت ہی محترم لگتے ہیں، یہی تواس مکاردیوکا طریقہ واردات ہے کہ ایسے ایسے پردوں میں چھپ جاتا ہے جوہرشک وشبے سے بالاتر دکھائی دیتے ہیں اوران کی طرف انگلی اٹھاناخطرے سے خالی نہیں ہوتا۔
کہہ سکے کون کہ یہ جلوہ گری کس کی ہے
پردہ چھوڑا ہے وہ اس نے کہ اٹھائے نہ بنے
جیساکہ میں نے پہلے کہا ہے کہ آزادی، جمہوریت، مذاہب ،وطن، قوم، امن عدل اورانصاف بھی اس کے پردے ہیں اوران پردوں کی مضبوطی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ ان کا نام لینا بھی اپنی جان سے گزرنا ہے مثلاً بہت ساری مقدس تحریکیں نہایت ہی شفاف بلکہ مقدس نظر آنے والی ہستیاں ، مبارک اصطلاحات وغیرہ لیکن یہ بھی بتادوں کہ کسی کو بھی پتہ نہیں ہوتا بلکہ خود ان کو بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ہمیں استعمال کیا جا رہا ہے ، دیو استبداد ہزارہا سال کی عیاری ، مکاری اورچالاکی سے اتنا باکمال ہوگیا ہے کہ جسے استعمال کررہا ہوتا ہے، اسے گمان ہوتا ہے کہ میں دیو استبداد کے خلاف آواز حق بلند کررہاہوں جب کہ یہ باکمال دیو ، اس آواز ہی کو اپنا ہتھیار بنا چکا ہوتا ہے بلکہ یوں سمجھے کہ وہ جسے دشمن سمجھ کر مار رہا ہوتا وہ خود وہی ہوتا ہے یعنی خود کو ہی مار مار کر سمجھتا ہے کہ میں دشمن کو مار رہا ہوں ۔ جیسے طوطا یا بٹیر آئینے میں اپنا عکس دیکھ کر اس سے لڑتا ہے اورآج کل تو اس جادوگر دیوکا جادو اتنا مکمل ہے کہ
ازمہرتا بہ ذرہ دل ودل ہے آئینہ
طوطی کوشش جہت سے مقابل ہے آئینہ
اس طلسم ہوشربا کی ایک اوربات بڑی دلچسپ ہے ، آپ نے دیکھا ہوگا، سنا ہوگا یاپڑھا ہوگا، کہ ہر ملک خصوصاً اسلامی ممالک میں امریکا کو برا بھلا کہا جاتا ہے، اسے شیطان بزرگ کہا جاتا ہے اوربظاہر لگتا بھی ایسا ہی ہے لیکن یہ جان کر آپ حیران ہوں گے کہ امریکا بھی اس طلسم ہوشربا کااسیر ہے۔ اندازہ اس سے لگائیں کہ کھربوں ڈالر کا مقروض ہوکر بھی ، وہ دنیا بھر میں جگہ جگہ اس بات پر مجبور ہے کہ فوجیں بھیجے ، ڈالر بھیجے اوراپنے فوجیوں کو جنگوں کاایندھن بناتا رہے جہاں اتنے بڑے دانشور تھنک ٹینک اورہرفن مولے موجود ہیں لیکن اس کے باوجود وہ نہ ویت نام میں نہ جاپان میں نہ کوریا میں نہ عراق میں نہ فلسطین اورافغانستان میں اپنی ناکامیوں سے سبق سیکھتا ہے ،نہ اپنے فوجیوں کی خود کشیوں اورذہنی عوارض پر چونکتا ہے اورمزید مقروض ہوکر بھی خود کو اس دلدل میں پھنسائے جارہا ہے ۔
[ad_2]
Source link