[ad_1]
موجودہ حکومت جو فروری 2024کے انتخابات کے نتیجے میں معرض وجود میں آئی تھی، اس نے اپنے اِن سات آٹھ مہینوں میں بہت کچھ کر کے دکھایا ہے، اپنی استطاعت اور اپنی حیثیت سے بھی زیادہ کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ کسی کو بھی یہ اُمید نہ تھی کہ الیکشن سے پہلے ملک کی جو حالت تھی وہ اتنی جلدی سنبھل پائے گی۔ معاشی حالات انتہائی دگرگوں تھے اور وطن عزیز ڈیفالٹ کرجانے کی حدوں کو چھو رہا تھا۔
مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے ہمارے عوام بہت ہی مایوس ہوچکے تھے اور ایسا لگ رہا تھا کہ خدانخواستہ ہمارا یہ ملک اپنی سالمیت اور بقاء بھی قائم رکھ نہیں پائے گا۔ الیکشن میں کسی بھی جماعت کو واضح برتری نہ ملنے کی وجہ سے اور ملک کی اس حالت زار کے سبب کوئی سیاسی جماعت حکومت لینے کو تیار نہ تھی۔
ہر ایک کا خیال تھا کہ جس نے بھی یہ بارگراں اپنے سر پر اُٹھایا وہ بہت جلد عوام کی نظروں میں گر جائے گا اور سیاسی طور پر ناقابل تلافی نقصان اُٹھائے گا۔IMF کے نامناسب رویے کی وجہ سے قرض لینا بھی آسان نہیں تھا اور دیگر ممالک بھی اب کوئی مدد کرنے کو تیار نہ تھے ایسے حالات میں بھلا کون یہ بوجھ اپنے ذمے لے گا۔ مگر مسلم لیگ نون نے اِن مشکل ترین حالات میں نہ چاہتے ہوئے بھی ریاست کو بچانے کی خاطر یہ کٹھن ذمے داری اُٹھانے کا فیصلہ کیا اور پھر ثابت بھی کر کے دکھایا کہ وہی ایک جماعت ہے جو ملک و قوم کی خاطر اپنی سیاست کو قربان کرسکتی ہے۔ حالانکہ اُس کے بہت سے بہی خواہوں نے اسے مشورہ بھی دیا کہ وہ کیوں اپنا سر ایک بار پھر اس مشکل میں پھنسا رہی ہے جسے کوئی بھی لینے کو تیار نہیں۔ جنھوں نے اس ملک کی یہ درگت بنائی تھی یہ انھی کی ذمے داری ہے کہ وہ اب اسے اس مشکل سے باہر بھی نکالے۔
2017 میں جن قوتوں نے ایک اچھے بھلے ترقی کرتے پاکستان کو منظم سازش کر کے اس حال میں پہنچایا تھا وہی اس کا علاج بھی تلاش کریں۔ یہ کیا بات ہوئی کہ تباہی اور بربادی توکوئی اور مچائے لیکن اس کی درستگی کے لیے مسلم لیگ نون ہی کو یاد کیا جائے۔ ملک کو گزشتہ سات برسوں میں جتنا نقصان ہوا، اتنا پچھلے ستر سالوں میں بھی نہیں ہوا تھا۔ سوچا جائے کہ اگر 2017 میں یہ گھناؤنا کھیل نہ کھیلا جاتا تو اور مسلسل کام کرنے دیا جاتا تو آج ہمارا ملک کہاں پہنچ چکا ہوتا۔ نواز دشمنی میں ایک نااہل شخص کو مکمل منصوبہ بندی کے تحت الیکشن میںRTS بند کر کے زبردستی اقتدار میں لایا گیا، جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔
2013 کے الیکشن کے فوراً بعد میاں نواز شریف حکومت کے خلاف پس پردہ کام شروع کر دیا گیا۔ کینیڈا سے ایک شعلہ بیاں مقررکو خان کی مدد کے لیے بلایا گیا اور ڈی چوک پرکئی مہینوں تک پڑاؤ ڈالا گیا کہ حکومتی مشینری کسی کام کے قابل نہ رہے
اور خود ہی معزول ہو کر گھر چلی جائے۔ انتہائی نا مصائب حالات کے باوجود اس حکومت نے اس ملک میں تین چار سالوں میں بہت سے اہم کام کر ڈالے، ایک طرف ملکی معیشت کو سہارا دیا تو دوسری طرف ملک سے دہشت گردی اور آئے روز کے بم دھماکوں سے چھٹکارا دیا، بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا بحران بھی ختم کیا اور کراچی کے لوگوں کو بدامنی سے بھی نجات دی۔ ہماری خرابی یہ ہے کہ ہم بہت جلد بھول جاتے ہیں اور ہمیں یاد بھی نہیں رہتا کہ اس وقت کراچی کی کیا حالت تھی۔
روزانہ کی بنیاد پر دس بارہ افراد کی ٹارگٹ کلنگ معمول بن چکی تھی اور ہماری یہ حالت ہوچکی تھی کہ جس دن دس بارہ افراد کے قتل کی خبر نہ آئے تو ہمیں اپنی قوت سماعت کی درستگی پرشک اور شبہ ہونے لگتا تھا۔ اس ملک میں ایوب خان کے دور حکومت کے بعد اگر کسی سیاسی پارٹی نے بہت سے ترقیاتی کام کیے ہیں تو وہ بلاشبہ مسلم لیگ نون نے ہی کیے ہیں۔ کسی اور پارٹی کو یہ اعزاز حاصل نہیں ہے۔ سارے ملک میںانفرا اسٹرکچر کی تعمیر اور موٹر وے سمیت نئی اور خوبصورت شاہراہوں کا جال بچھانا، اسی سیاسی پارٹی کا کارنامہ ہے۔
سی پیک جیسے عالمی نوعیت کے منصوبے کو تیزی سے مکمل کرنے کی راہ پر ڈالنے کا سہرا بھی اسی جماعت کے سر جاتا ہے، مگر کیا کریں اس پروپیگنڈے کا جو اس کے مخالف لیڈروں نے بڑے زور شور کے ساتھ عوام کے ذہنوں پر مسلط کیا۔جس طرح کہا جاتا ہے۔ آج کے دور میں پروپیگنڈے سے طاقتور کوئی شے نہیں ہے ۔ کسی نے درست کہا تھا کہ جھوٹ اتنے شد و مد سے بولا جائے کہ سچ معلوم ہونے لگے۔ میاں نوازشریف کو جب اس کے کاموں کی وجہ سے شکست نہیں دی جا سکی تو ان کے خلاف کرپشن کا پروپیگنڈہ شروع کر دیا گیا اور وہ بھی اتنے فریب و جھوٹ کے ساتھ کہ نئی نسل جس نے ابھی ابھی سیاست کو دیکھنا شروع کیا تھا اور جسے ماضی کے سیاستدانوں کے بارے میں کچھ بھی پتا نہیں تھا اس پروپیگنڈے کا شکار ہوگئی۔
ایک جاذب نظر شخصیت کے سحر میں گرفتار نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس کے حامی اور ووٹر بن گئے۔ یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا، اس کے پیچھے کچھ غیبی قوتیں بھی کار فرما تھیں، ورنہ کیا وجہ ہے کہ یہی جاذب نظر شخصیت 1996سے 2011 تک میدانِ سیاست میں ٹھوکریں کھا رہی تھی اور کوئی قابل ذکر مجمع اس کے ساتھ چلنے کو تیار نہ تھا۔2011 میں اچانک ایسا کیا ہوگیا کہ وہی شخصیت نوجوان نسل کی آنکھوں کا تارا بن گئی۔شروع شروع میں خان صاحب نے جب سیاست کے میدان میں قدم رکھا تو وہ ایک صاف ستھری سیاست کے حامی اور داعی تھے اور انھوں نے اپنی پارٹی میں صرف انھیں لوگوں کو الیکشن میں لڑنے کے لیے ٹکٹس دیے جن کا دامن صاف اور شفاف تھا لیکن وہ ایک دو سیٹ سے زیادہ کبھی بھی کامیابی سے ہمکنار نہ ہوئے۔
یہ سب کرشمہ 2011 کے بعد سے شروع ہوتا ہے۔ جب اس ملک کی اس قوت نے جسے ہم غیبی قوت سمجھتے ہیں ان کا ہاتھ تھاما اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگے۔ ان کی خوبی یہ ہے کہ انھیں تقریرکرنے کا ہنر آتا ہے۔ اُن کے مقابلے کا اس میدان میں آج بھی کوئی دوسرا نہیں ہے۔ خود اُن کی پارٹی کے اندر بھی اور کوئی اس خوبی کا حامل نہیں ہے، وہ پروپیگنڈہ سیاست کے بہت بڑے ماہر ہیں ۔ 126دنوں تک انھوں نے ڈی چوک پر صرف یہی ایک کام کیا۔ مخالفوں کے خلاف اتنا پر اثر اور زبردست پروپیگنڈا کیا کہ آج بھی اس کے اثرات ختم نہیں کیے جاسکے۔
خود اپنے دور میں تو کوئی ایک بڑا کام نہیں کرسکے لیکن اس ملک میں کام کرنے والوں کو اتنا بدنام کیا کہ اچھے اور برے کی تمیز بھی جاتی رہی۔ عوام یہ سمجھتے رہے کہ اگر سو فیصد نہیں تو کم از کم پچاس فیصد یہ پروپیگنڈہ تو درست ہوگا۔ الیکشن میں دھاندلی کا اتنا شور ڈالا اور35 پنکچروں کی جھوٹی کہانی اختراع کی کہ لوگ اسے صحیح ماننے لگے۔ اسی طرح 2024 کے انتخابات میں بھی فارم 47 کی کہانی لے آئے ۔
جب ثبوت مانگے جاتے ہیں تو فراہم بھی نہیں کیے جاتے ہیں، اور بس ہدف تنقید بنانے کے لیے ہر بار یہ راگ الاپتے رہتے ہیں کہ ہم فارم 47 والی حکومت سے کوئی بات چیت نہیں کریں گے۔ جب برسر اقتدار تھے تب بھی اپوزیشن سے بات چیت سے انکار میں یہی کہا کرتے تھے کہ کرپٹ لوگوں سے میں بات چیت نہیں کرسکتا، اگر بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ اُن کے علاوہ سارے سیاست دان چور اور کرپٹ ہیں لیکن اس حقیقت سے کیسے انکار کیا جاسکتا ہے کہ ملک کو چلانے کے لیے اہل لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے نا اہلوں کی نہیں۔ ایمانداری اور امانت داری کی خوبی کے ساتھ ساتھ ملک چلانے کی اہلیت بھی ہونی چاہیے۔ صرف نیک اور صالح لوگوں سے ملک چلانا ہوتا تو پھر ہمارے لوگوں کے لیے عبدالستار ایدھی سے بہتر کوئی اورآپشن نہیںہوتا۔
[ad_2]
Source link