[ad_1]
امریکا کے صدر کو دنیا کا طاقتور ترین عہدیدار کہا جاتا ہے لیکن یہ بھی اس طلسم ہوشربا کااسیر ہوتا ہے ۔ اسے آپ اس دیواستبداد یاماسٹر مائنڈ کا جنرل منیجر کہہ سکتے ہیں ۔ امریکا کا فیڈرل بینک مکمل طور پر ایک سرمایہ دار ’’ٹولے‘‘ کے ہاتھ میں ہے۔ امریکا کے وزرا خاص طورپر وزیرخزانہ اورمالیاتی مشیر بھی یہ ٹولہ چنتا ہے یہاں تک کہ کرنسی بھی اس کی مرضی سے چھپتی ہے۔
حکومت کے اہم ترین عہدے سرمایہ داروں، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ڈائریکٹروں، چیرمینوں اورنمایندوں کو دیے جاتے ہیں ۔ یہ ڈبلیو ٹی او یعنی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی برکت سے عالمی معیشت پر مسلط ہوچکے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ امریکا سمیت ساری دنیا میں انصاف پسند سربراہوں اور سیاسی لیڈروں کے قتل میں بھی یہی عالمی ٹولہ ملوث ہو، جیسے ابراہیم لنکن ، جان ایف کینیڈی وغیرہ۔ دنیا میں جرائم اور دہشت گردی کو فروغ دینا بھی اسی ’’دیواستبداد ‘‘کی کارستانی ہے ۔مطلب یہ کہ ساری دنیا کی حکومتوں اورسیاسی وانتظامی واقتصادی ڈھانچے اس کے قبضے میں ہیں۔
اس ٹولے کا سب سے بڑا اور موثر ہتھیار عالمی سرمائے پر کنٹرول ہے اور سودی قرضے ہیں چنانچہ اس وقت سارے ممالک کی طرح امریکا بھی اتنا مقروض ہے ، جتنے اس کے سر، داڑھی اورمونچھوں کے بال ہوتے ہیں۔ اب ایک مرتبہ پھر اس سوال پر غور کیجیے کہ اس پردہ زنگاری کے پیچھے وہ گرینڈ ماسٹر،وہ مداری اور وہ دیواستبداد کون ہے جو امریکا سمیت ساری دنیا کو اپنی انگلیوں پر نچارہا ہے ۔
چلیے آپ کو ایک کلیو یالائف لائن بھی دیتے ہیں کہ یہ کوئی فرد نہیں بلکہ ٹولہ یا گینگ ہے ، دوسرا کلیو یہ ہے کہ جب جنگ عظیم میں عالمی قوت برٹش ایمپائر کی سانسیں ختم ہونے لگیں اور اس نے اپنے بھانجے امریکا کو مدد کے لیے پکارا تو امریکا نے کیا شرطیں رکھیں ، یہ دو شرائط تھیں ، ایک جسے اعلان بالفور کہتے ہیں ، اعلان بالفور یہ تھا کہ جنگ کے اختتام پر ہی یہودیوں کے لیے ارض فلسطین پر اسرائیل کے نام سے ایک آزاد اورخودمختار ریاست بنائی جائے گی، دوسری غیر تحریری شرط یہ تھی کہ برطانیہ عالمی گرینڈ ماسٹر کا منصب چھوڑ کرکے امریکا کو دے دے گا۔ قدرت کے مستقل اصول کے تحت برطانیہ عروج کی چوٹی پر پہنچ کر زوال کے سفر پر روانہ ہونے والا تھا لہٰذا یہ منصب تازہ دم امریکا کے حوالے کردیا گیا ۔
یوں اصل اعلان بالفور ہی ہے ۔ غور کریں! امریکا، برطانیہ، تو یہودیوں کے مالک نہ تھے نہ ہی یہ دونوں رومن کیتھولک تھے ۔ پھر یہی یہودیوں کے لیے الگ اورخود مختار ریاست کا مطالبہ کرتا ہے بلکہ اس کے لیے جنگ کی آگ میں کودتا ہے، کیوں؟ اس لیے کہ امریکا اور برطانیہ مغربی یورپ کے سرمایہ دار یہودیوں کے احسان مند تھے کیونکہ جنگ عظیم دوم میں یہودی سرمایہ داروں نے انھیں بے پناہ سرمایہ فراہم کیا تھا۔ آپ کی حیرت یہ سن کر دور ہوجائے گی کہ اس وقت ساری دنیا کے کل سرمائے کا اٹھاسٹھ فی صد یہودی سرمایہ داروں کے کنٹرول میں ہے اوریہ یہودی زیادہ امریکا میں رہ رہے ہیں ۔اس بڑے دیواستبداد یا عالمی جادوگرکی سب سے بڑی انڈسٹری اسلحہ سازی ہے ۔
مشہور ناول اور فلم ’’گارڈفادر‘‘ کے مصنف ماریوپوزو نے اپنے انتقال سے پہلے جو آخری ناول لکھا ہے ’’دی فورتھ کے ‘‘ اس میں اس نے خود ہی ایک سوال اٹھایا ہے کہ ہرجنگ کے بعد کچھ لوگ بہت زیادہ مالدار کیوں ہوجاتے ہیں اورپھر خود ہی جواب بھی دیا ہے کہ اسلحے کی صنعت اورتجارت سے ۔ اوریہ تو سب جانتے ہیں کہ دونوں عظیم جنگوں کے بعد اسلحہ سازی کی عالمی صنعت اربوں ڈالر سے ٹریلینز آف ٹریلینز ڈالرز سالانہ تک پہنچی ہے۔ دورجانے کی ضرورت نہیں صرف اپنے ریجن جنوبی ایشیا میں ہندوستان، پاکستان، سری لنکا اور بنگلہ دیش اربوں ڈالر سالانہ اسلحہ کی خریداری پر خرچ کرتے ہیں۔
افغانستان میں طالبان کے پاس جو جدید ترین اسلحہ ہے، وہ ہتھیاروں کی عالمی بلیک مارکیٹ سے خریدا جاتا ہے، یہ بھی اربوں ڈالر کی تجارت ہے۔ ویت نام اورکوریا سے لے کر کشمیر، فلسطین، عراق، شام، لبنان ، یمن ، صومالیہ اور افریقہ میں برپا خانہ جنگی میں کتنا اسلحہ خرچ ہوا ہوگا ؟ یہ اسلحہ آتا کہاں سے ہے اوربیچا کیسے جاتا ہے۔ یہ بھی بڑے کمال اورہنرمندی سے ترتیب دیا ہوا نیٹ ورک ہے ۔یہاں یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ یہ اسلحہ جات امریکی حکومت تیار نہیں کرتی بلکہ نجی اسلحہ سازکمپنیاں بناتی ہیں اور وہی فروخت کرتی ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ موٹر وہیکلز انڈسٹری، الیکٹرک و الیکٹرونکس انڈسٹری، کیمیکلز انڈسٹری سمیت دیگر روزہ مرہ استعمال کی اشیاء تیار کرنے والی ملٹی نیشنلز نے اسلحہ سازی کی صنعت میں بھی سرمایہ کاری کررکھی ہے۔ لیکن اسلحہ کی بھی دو قسمیں ہیں، ایک قسم کااسلحہ تو سامنے ہے اوردکھائی دیتا ہے جب کہ دوسری قسم جو دماغوں کو نشانہ بناتی ہے، میڈیا اور ابلاغیہ کہلاتی ہے ، اب تھوڑا سا اس نادیدہ ہتھیاروں کی انڈسٹری کاجائزہ لیتے ہیں۔ اس وقت ساری دنیاکے ذرایع ابلاغ کاچھیانوے فی صد یہودی سرمایہ داروںکے قبضے میں ہے جو اخباروں، رسالوں کتابوں فلموں ٹی وی ، ریڈیو اسٹیشنوں اوراب سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کے ’’ ذہن ‘‘ پر سوار ہے ۔
ابلاغیہ بھی اسلحہ سازی کی طرح ایک اہم ترین انڈسٹری ہے بلکہ یوں کہیے کہ اگر ہتھیاروں کانشانہ جسم بنتے ہیں تو ابلاغیہ کانشانہ ذہنوں پر ہوتا ہے ، ان دونوں کی اثر پذیری کااندازہ اس سے لگائیں کہ ابلاغیہ کے جن ذرایع ریڈیو ، ٹی وی اخبارات ورسائل اشاعتی اداروں کو بھی آکسیجن انھیں کمپنیوں اوراداروں سے ملتی ہے جو اس عالمی دیو استبداد کے تاروں میں پروئے ہوتے ہیں ، اس ہتھیار کا نام اشتہارات ہے جس سے میڈیا کو نکیل ڈالی جاتی ہے بلکہ ڈال دی گئی ہے۔
[ad_2]
Source link