[ad_1]
سینئر سیاستدان اور متعدد بار مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہونے والے مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ ہم آگے بڑھنے کے بجائے بدترین دور میں چلے گئے ہیں جو 1989-1988 بیسویں صدی جیسا بدترین دور تھا ویسے ہی دور سے ہم آج گزر رہے ہیں اور نظریہ ضرورت آج پھر وجود میں آگیا ہے اور ایسے فیصلے آئے ہیں جن کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
مشاہد حسین مسلم لیگ (ن) دور میں وزیر اطلاعات رہے ہیں ، وہ (ن) لیگی سینیٹر بھی رہے اور پی ٹی آئی حکومت کی آئینی برطرفی کا انھیں اندازہ ہوگیا تھا ۔ 2017 میں جب (ن) لیگ کے وزیر اعظم کو پاناما میں کوئی ثبوت نہ ملنے پر اقامہ میں اقتدار سے برطرف کیا گیا تھا اس وقت سب کو پتا تھا کہ عدالتی بینچ کن ججز پر مشتمل ہے اور چیف جسٹس کون ہے۔
1988 میں تو دور آمریت کے بعد بے نظیر بھٹو کی حکومت بھی انھیں اتحادی ملوا کر بنوائی گئی تھی جب کہ پنجاب میں میاں نواز شریف وزیر اعلیٰ تھے اور 1989 میں انھوں نے وفاقی حکومت کے خلاف سیاسی مخالفت شروع کی تھی جو 1990 میں بے نظیر بھٹو حکومت کی برطرفی پر ختم ہوئی تھی اور 1990 میں نئے انتخابات کے بعد میاں نواز شریف وزیر اعظم بنائے گئے تھے تو اس وقت مشاہد حسین سید مسلم لیگ (ن) کے حامی اہم رہنما تھے۔ مشاہد حسین سید 1988-89 کو اب بدترین دور قرار دے رہے ہیں جب کہ آج اس وقت جیسے حالات اتنے بدترین نہیں ہیں اور نہ ہی 1988-89 میں تھے۔
1988 میں جنرل ضیا کی شہادت کے بعد جو الیکشن ہوئے تھے انھی کی وجہ سے بے نظیر بھٹو وزیر اعظم منتخب ہوئی تھیں اس وقت جنرل ضیا کے ہاتھوں معزول کیے گئے وزیر اعظم محمد خان جونیجو جیل میں نہیں تھے اور مسلم لیگ جونیجو سیاست میں سرگرم تھی اور محمد خان جونیجو پر بے نظیر بھٹو سمیت کسی نے بھی کرپشن کا الزام نہیں لگایا تھا کیونکہ جونیجو کے سیاسی مخالف بھی ان کی ایمانداری کے معترف تھے اور ملک کے سیاسی حالات آج سے بہت بہتر تھے۔
ملک کی معاشی حالت بھی بہتر تھی کیونکہ وزیر اعظم جونیجو کی برطرفی کی وجہ صرف ان کا جنرل ضیا الحق سے اختلاف تھا کیونکہ جونیجو صاحب نے ملک کو مارشل لا سے نجات دلائی تھی مگر افغانستان کے مسئلے پر ان کی بااختیار صدر سے نہیں بنی تھی۔ اس لیے اس دور کا آج کے دور سے موازنہ کسی طرح نہیں کیا جاسکتا اور اس وقت ملک میں سیاسی کشیدگی بھی اس انتہا پر نہیں تھی۔ سیاسی پارٹیوں میں باہمی سیاسی اختلافات ضرور تھے مگر پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ نے ملک میں کوئی سیاسی انتشار اس انتہا پر نہیں پہنچایا تھا جتنا پی ٹی آئی نے اپنی آئینی برطرفی کے بعد پہنچا رکھا ہے۔
(ن) لیگی رہنماؤں کو پتا تھا کہ ان کے وزیر اعظم نواز شریف کو کس نے نااہل کرایا تھا جس کے بعد شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم بنے تھے ، ن لیگی رہنماؤں کو اپنی حکومت میں وہ خامیاں نظر نہیں آئی تھیں جو انھیں بعد میں نظر آئیں مگر انھوں نے خاموشی اختیار کر لی تھی۔
آج ملک کے حالات کو 1988-89 جیسا بدترین دور قرار دینے والوں کو جیل میں قید سابق وزیر اعظم سے ہمدردی ہوگئی ہے جب کہ آج کے حالات کی ذمے دار صرف خود پی ٹی آئی ہے جس کے وزیر اعظم نے اپنی حکومت جاتی دیکھ کر امریکی سائفر لہرایا تھا کہ امریکا ان کی حکومت برطرف کرا رہا ہے۔
حکومت کی آئینی برطرفی ملک میں پہلی بار ہوئی تھی اسے اگر خوش دلی سے قبول کر لیا جاتا تو ملک میں آج بے حد سیاسی انتشار نہ ہوتا اور پی ڈی ایم کی حکومت کو 16 ماہ اسی طرح کام کرنے دیا جاتا جس طرح مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے 2018 میں شدید تحفظات کے باوجود پی ٹی آئی حکومت کو نہ صرف کام کرنے دیا بلکہ حکومت کو معیشت کی بہتری کے لیے میثاق معیشت کرنے کی بھی پیشکش کی تھی جو اس وقت کے غیر جمہوری ذہن کے منتقم مزاج وزیر اعظم نے یہ کہہ کر ٹھکرا دی تھی کہ یہ مجھ سے این آر او مانگ رہے ہیں۔
پی ٹی آئی حکومت میں وزیر اعظم نے (ن) لیگ اور پی پی سے تعلق رکھنے والے تمام سیاسی مخالفین جن میں سابق صدر آصف زرداری، تین بار کے وزیر اعظم نواز شریف موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف، مریم نواز اور فریال تالپور سمیت (ن) لیگ کے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی شامل تھے مگر سب نے عدالتوں میں اپنے اپنے مقدمات کا سامنا کیا اور اپنی رہائی کے لیے جلسے جلوس ہڑتالوں اور دھرنوں کی کال نہیں دی تھی جس طرح آج جیل میں قید سابق وزیر اعظم اپنی رہائی کے لیے دے رہے ہیں۔ انھوں نے اپنی پارٹی کو ہر چند روز بعد احتجاجی مظاہروں اور اسلام آباد پر چڑھائی کی ہدایت کردی ہے۔ ماضی میں کسی قومی رہنما نے اپنی رہائی کے لیے کبھی ایسا نہیں کیا جو اب کیا جا رہا ہے۔
پہلا موقعہ ہے کہ دہائیوں بعد اسلام آباد میں شنگھائی تنظیم تعاون کانفرنس ہو رہی ہے جس میں 12 ممالک کے سربراہ وزرا اور وفود شرکت کے لیے آ رہے ہیں اور ایسے موقعہ پر ملک سے مخلص کوئی سیاسی رہنما نہیں چاہے گا کہ اسلام آباد پر چڑھائی یا دھرنا ہو مگر اس تاریخی موقع کو سابق وزیر اعظم بلیک میلنگ کے لیے استعمال کر کے اپنے خلاف مقدمات کا خاتمہ اور اپنی رہائی چاہتا ہے۔ یہ وہی شخص ہے جس نے 2014 میں اسلام آباد میں اپنے دھرنے کے ذریعے چینی صدرکا دورہ پاکستان منسوخ کرایا تھا جو سی پیک کے لیے نہایت اہم تھا۔
اپریل 2022 میں جب بانی پی ٹی آئی کی حکومت آئینی طور ختم ہوئی تھی تب سے اس سابق وزیر اعظم نے دوبارہ اقتدار کے حصول کے لیے ملک کو بدترین حالات سے دوچار اور ملک کو سیاسی عدم استحکام سے دوچار کر رکھا ہے تاکہ حکومت حالات بہتر بنانے کے لیے انھیں رہا کرنے پر مجبور ہو جائے۔ پی ٹی آئی اپنے وزیر اعلیٰ کے پی کے ذریعے اسلام آباد پر لشکر کشی اپنے بانی کی رہائی کے لیے کر رہی ہے۔ اس سے قبل کسی سیاسی پارٹی نے ایسا نہیں کیا جو پی ٹی آئی نے کیا اور ناکام رہی ہے۔ موجودہ بدتر دور جو صرف پی ٹی آئی کو لگ رہا ہے حقیقت میں ایسا ہے نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ ملکی صورت حال اور سیاسی عدم استحکام کے واحد اصل ذمے دار خود بانی پی ٹی آئی ہی ہیں۔
[ad_2]
Source link