[ad_1]
شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہ اجلاس پندرہ اور سولہ اکتوبرکو اسلام آباد میں ہونے جارہا ہے ، وزیراعظم میاں شہباز شریف نے اس اہم ترین اجلاس کے انتظامات کا جائزہ لینے کے لیے گزشتہ روز جناح کنونشن سینٹر اسلام آباد کا دورہ کیا، وزیراعظم کو تیاریوں کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔ ادھر ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق اس اجلاس میں معیشت، تجارت، سماجی و ثقافتی تعلقات اور ماحولیات کے شعبوں میں تعاون پر بات ہوگی، تعاون کے فروغ کے حوالے سے اہم فیصلے ہوں گے۔
شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کا سربراہی اجلاس، جو 15 اکتوبر سے پاکستان میں شروع ہو رہا ہے، ہمارے لیے بین الاقوامی سفارت کاری کی تاریخ میں ایک نہایت اہم موقع ہے۔ میزبان ملک کے طور پر، پاکستان علاقائی تعاون کو فروغ دینے اور عالمی سطح پر درپیش مسائل کے حل کے لیے ایک اہم کردار ادا کرے گا۔ سربراہی اجلاس کئی اہم مسائل پر روشنی ڈالے گا، جن میں رکن ممالک کے متنوع مفادات اور ترجیحات کی عکاسی ہوگی۔ بنیادی توجہ دہشت گردی، انتہا پسندی اور علیحدگی پسندی سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششوں کو بڑھانے پر مرکوز ہوگی۔
اقتصادی تعاون ایک مرکزی موضوع ہوگا، جس میں تجارتی سہولت، سرمایہ کاری کے مواقع، اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی پر زور دیا جائے گا۔ رابطے کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات، جیسے کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) اور ڈیجیٹل سلک روڈ، پر روشنی ڈالی جائے گی۔ ماحولیاتی چیلنجوں کا مقابلہ کرنا پائیدار ترقی کے لیے نہایت اہم ہے۔ رکن ممالک موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے، قابل تجدید توانائی کو فروغ دینے اور ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے مشترکہ کوششوں پر تبادلہ خیال کریں گے۔
ایس سی او کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ممبران کے مشترکہ مفادات کے تحفظ کے نصب العین کے لیے مل کر اقدامات کیے جائیں تاکہ ان ممبر ممالک کو تزویراتی خود مختاری حاصل ہو۔ چین گلوبل سیکیورٹی انیشیٹو کو ایک رہنما اقدام کے طور پر پیش کررہا ہے اور اس مقصد کے لیے ایس سی او کے ممبر ممالک کے باہمی اختلافات کو مل بیٹھ کر حل کرنا چاہیے۔
یہ نکتہ پاکستان کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ اس تنظیم میں پاکستان اور بھارت دونوں شامل ہیں، اگر بھارت اس کے مقاصد کے حصول میں مخلص ہے تو اس کو پاکستان سے اپنے تمام معاملات طے کرنے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو اس پرگہرے تدبرکا مظاہرہ کرنا چاہیے کہ پاکستان کو اپنے مفادات کے حصول کے لیے کس سے کیسے تعلقات رکھنے چاہئیں، کیوں کہ ایس سی او سے وابستگی کا مطلب کسی سے دوری کی صورت میں نہیں آنا چاہیے، یہ ہدف مشکل ضرور ہے نا ممکن نہیں۔
پاکستان کی وجہ علاقائی سطح پر انفرا اسٹرکچر اور معاشی روابط کو مضبوط کرنے پر ہوگی، خصوصاً سی پیک، امن و امان اور دہشت گردی، انتہا پسندی اور علیحدگی پسندی جیسے سیکیورٹی چیلنجز کا حل تلاش کرنے کے لیے مل کرکام کرنے پر زور دیا جائے گا، تاکہ ایک مستحکم اور پرامن ماحول کو یقینی بنایا جا سکے۔
تجارت اور سرمایہ کاری کے مواقع کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ رکن ممالک کے درمیان معاشی ترقی کی رفتار بڑھانے کی کوشش کی جائے گی تاکہ باہمی افہام و تفہیم اور تعاون کو فروغ دیا جا سکے۔ یہ سربراہی اجلاس پاکستان کو ایک پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے جس کے ذریعے وہ عالمی سطح پر اپنی حیثیت کو مضبوط کر سکتا ہے اور علاقائی تعاون میں اپنی قیادت کا کردار نمایاں کر سکتا ہے۔ مضبوط معاشی روابط اور سرمایہ کاری کے بڑھتے مواقع پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے محرک ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس اجلاس کی میزبانی خطے میں ثقافتی ہم آہنگی کو فروغ دے گی اور سماجی روابط کو مضبوط کرے گی۔
ادھر پاکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس کے دوران اسلام آباد میں سیاسی جماعت کی طرف سے احتجاج کا اعلان بھی سامنے آیا ہے۔ ایس سی او اجلاس پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
اس اجلاس میں چین ، روس اور بھارت جیسے بڑے ملک شرکت کررہے ہیں، ایسے میں کسی سیاسی جماعت کو ایسی سرگرمی نہیں کرنی چاہیے، جس سے شرپسند عناصرفائدہ اٹھا کر ملک میں امن و امان کا مسئلہ پیدا کردیں۔ یہ سربراہی اجلاس پاکستان اور پورے یورپ اور ایشیائی خطے کے لیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہو گا۔ 2017میں مکمل رکن بننے کے بعد سے، پاکستان نے بتدریج اس اہم علاقائی گروپ میں اپنی شمولیت اختیارکی، جو رکن ممالک کے درمیان سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی روابط کو بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہے جب کہ یورپ اور ایشیاء میں استحکام اور سلامتی کی ضمانت دیتا ہے۔
کثیرالجہتی تعاون کو مضبوط بنانے اور زیادہ جمہوری اور منصفانہ عالمی نظام کو فروغ دینے میں شنگھائی تعاون تنظیم کا مقصد پاکستان کے اسٹرٹیجک اہداف پر منحصر ہے۔ یہ سربراہی اجلاس پاکستان کو اقتصادی تعاون اور سیاسی صف بندی کے وسیع امکانات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خطے میں اپنی مطابقت کا مظاہرہ کرنے کا ایک اہم موقع فراہم کرتا ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے ارکان، جن میں چین، روس، بھارت، اور ایران جیسی بڑی طاقتیں شامل ہیں، نیز قازقستان اور ازبکستان جیسی اہم وسطی ایشیائی جمہوریہ، سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی شعبوں میں قریبی تعاون کو فروغ دینے کے لیے وقف ہیں۔ تنظیم کا مقصد تجارت اور رابطے کے لیے کثیرالجہتی نقطہ نظر کو فروغ دے کر علاقائی سلامتی اور استحکام کو بہتر بنانا ہے۔ اس میں پاکستان کی بھرپور شرکت نے اسے اپنے قومی مقاصد کو SCO کے وسیع وژن کے ساتھ مربوط کرنے، خاص طور پر علاقائی تجارت، توانائی کی سلامتی اور انسداد دہشت گردی کی سرگرمیوں کے حوالے سے قابل بنایا ہے۔ پاکستان کے لیے شنگھائی تعاون تنظیم علاقائی سلامتی اور اقتصادی انضمام کو فروغ دینے کے لیے ایک اہم فورم ہے۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) جیسے اقدامات کا علاقائی روابط اور اقتصادی تعاون کے مقاصد سے گہرا تعلق ہے۔ CPEC کے ذریعے، پاکستان نے اپنے آپ کو وسطی ایشیا اور باقی دنیا کے درمیان ایک اہم کنکشن کے طور پر قائم کیا ہے۔ یہ کردار شنگھائی تعاون تنظیم کے فریم ورک میں پاکستان کی حیثیت کو بلند کرتا ہے اور اسے چین اور روس جیسے اہم ممالک کے ساتھ تجارتی روابط مضبوط کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
ایک مکمل رکن کے طور پر، پاکستان کو اب SCO کے وسیع امکانات تک رسائی حاصل ہے، بشمول تجارت، سلامتی اور توانائی میں تعاون میں اضافہ۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے علاقائی انسداد دہشت گردی کے ڈھانچے (RATS) نے انٹیلی جنس شیئرنگ اور فوجی مشقوں کی اجازت دی ہے، جو علاقائی سلامتی کے خدشات کو دور کرنے میں پاکستان کے لیے انتہائی فائدہ مند ثابت ہوئی ہیں۔ مزید برآں، مکمل رکنیت نے پاکستان کو توانائی کے منصوبوں جیسے کہ TAPI (ترکمانستان، افغانستان، پاکستان، بھارت) گیس پائپ لائن اور CASA-1000 بجلی کی ترسیل کے منصوبے کو آگے بڑھانے کی اجازت دی ہے۔
چین، اگرچہ شنگھائی تعاون تنظیم کے ذریعے یورپ اور ایشیائی اتحاد کو آگے بڑھا رہا ہے، لیکن اس نے اپنی توجہ دیگر علاقائی فورمز، جیسے چین، وسطی ایشیا میکانزم کی طرف مبذول کرائی ہے۔ یہ اندرونی تبدیلیاں شنگھائی تعاون تنظیم کے اندر کثیر الجہتی شمولیت کی پیچیدگی پر زور دیتے ہیں کیونکہ مسابقتی ملک کے مفادات اتفاق رائے کی تعمیر میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ ان رکاوٹوں کے باوجود، ترقی کے لیے اب بھی کافی گنجائش موجود ہے۔
افغانستان اور منگولیا جیسی کئی قومیں مبصر کا درجہ رکھتی ہیں، جب کہ سعودی عرب اور مصر جیسی اہم عرب حکومتوں سمیت 14 دیگر، شراکت دار کے طور پر شامل ہوئے ہیں۔ پاکستان کے لیے، یہ رکن ممالک کے ساتھ اپنے تجارتی روابط کو مضبوط کرنے کی زبردست صلاحیت کی نمایندگی کرتا ہے، خاص طور پر جب وہ CPEC کو وسطی ایشیا کی عالمی منڈیوں سے ملانے والے ایک اہم تجارتی راستے کے طور پر تعمیر کر رہا ہے۔ اسلام آباد میں ہونے والا اگلا ایس سی او سربراہی اجلاس خاص طور پر پاکستان کے لیے اہم ہے، کیونکہ یہ اپنی سفارتی حیثیت کو بہتر بنانے اور علاقائی روابط کو گہرا کرنے کا ایک اہم موقع فراہم کرتا ہے۔
پاکستان دنیا کا ایک اہم ملک ہے، گو کہ ایس سی او اجلاس ہر سال ایک رکن ملک میں ہوتا ہے لیکن اس اجلاس کے پاکستان میں منعقد ہونے سے پاکستان کی اہمیت بڑھے گی، یہ اجلاس سربراہان حکومت کا اجلاس ہے جس میں معیشت پر بات چیت ہو گی لیکن پاکستان کو دہشت گردی کے جس چیلنج کا سامنا ہے اس کو اس فورم پر اٹھایا جاسکتا ہے۔موجودہ صورتحال کے تناظر میں شنگھائی اسپرٹ کا مطلب یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ دنیا کا نظام جس میں شنگھائی تعاون تنظیم کی نمایندہ حیثیت ہوگی ، باالفاظ دیگرکمزور ممالک کے حقوق کو طاقت کے زور پر سلب اور ان کو مغلوب نہیں کیا جائے گا۔
باہمی اعتماد اس کا بنیادی ستون ہے اور اس باہمی اعتماد کی بدولت یہ ممالک ملکر اس نوعیت کی پالیسیاں تشکیل دیں گے کہ جس سے باہمی فائدے کے دروازے سب کے لیے وا ہو جائیں۔ ایک دوسرے کی باہمی مشاورت سے اور ایک دوسرے کی ہر قسم کی ثقافت کا احترام کرتے ہوئے مساوات اور مشترکہ ترقی کو مل کر تلاش کیا جائے۔
[ad_2]
Source link