[ad_1]
کراچی: ماہرین خوراک کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر پیدا ہونے والی ایک تہائی خوراک مختلف وجوہ کی بنا پر ہر سال ضائع ہو جاتی ہے۔ اس ضیاع کو بامعنی انداز میں کم کرنے سے بہت سے پسماندہ ممالک کو درپیش غذائی قلت کا بحران کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
ان خیالات کا اظہار عالمی یوم خوراک کے حوالے سے ہمدرد یونیورسٹی کے شعبہ ہیومن نیوٹریشن کے زیر اہتمام منگل کو منعقدہ ایک سیمینار میں تین غذائی ماہرین،ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کی ڈاکٹر سمیرا نسیم، کراچی یونیورسٹی کی ڈاکٹر زبالہ یاسر اور آغا خان یونیورسٹی کے مشیر ڈاکٹر نوید بھٹو نے کیا ۔
اپنی پریزنٹیشن میں ڈاکٹر سمیرا نسیم نے کہا کہ ایک ترقی پذیر ملک میں غذائی عدم تحفظ کئی وجہ سے ہوتا ہے، جن میں غربت، سیاسی عدم استحکام، صنفی عدم مساوات اور ناکارہ غذائی نظام کے عوامل شامل ہیں۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح گروسری خریدنے اور کھانا پکانے میں مہارت کی کمی بھی بحران کو مزید تقویت پہنچاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مغربی ممالک میں کچھ ڈپارٹمنٹل اسٹورز میں سبز شیلف ہوتے ہیں جن پر صحت مند کھانے کی چیزیں رکھی ہوتی ہیں جب کہ سرخ اور نارنجی شیلف میں بالترتیب غیر صحت بخش خوراک اور مشکوک کوالٹی کی اشیائے خوردونوش رکھی ہوتی ہیں۔ ہر ایک کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ 100 ڈالر میں صحت بخش کھانا خریدے یا اتنی ہی رقم کو قابل اعتراض معیار کے کھانے پر ضائع کرے۔
ڈاکٹر نسیم نے کہا کہ ذیابیطس کے حوالے سے پاکستان دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے اور موٹاپے کے حوالے سے نویں نمبر پر ہے اور اس کے باوجود لاکھوں پاکستانی غذائیت یا عدم غذائیت کا شکار ہیں۔ مذہبی رہنما لوگوں کو خوراک اور غذائیت سے متعلق اسلامی اصولوں پر عمل کرنے کی تلقین کرکے کم کر سکتے ہیں ۔ اسی طرح، مشہور شخصیات کو جنک اور غیر صحت بخش کھانوں کی تشہیر بند کرنی چاہیے، جیسے میٹھے مشروبات وغیرہ۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ مشہور اداکارہ ماہرہ خان نے اس وقت بہت پر اثر تاثر پیدا کیا جب انہوں نے ایسی مصنوعات کے اشتہارات میں آنے سے انکار کر دیا جو جلد کوخوبصورت بنانے کا دعوی کرتی ہیں۔ میڈیا ہاؤسز کو بھی اس حوالے سے مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ناروے نے میکڈونلڈز اور کے ایف سی کی مصنوعات کی فروخت پر اضافی ٹیکس عائد کیا ہے، اس طرح مقامی لوگوں کی طرف سے ان کی کھپت میں کمی آئی ہے۔ نتیجتاً ایسی مصنوعات یورپی ممالک میں پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے مقابلے کہیں زیادہ مہنگی ہیں۔ انہوں نے حکومت پاکستان سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ سگریٹ کی طرح فاسٹ اور جنک فوڈ کی مصنوعات پر بھاری ٹیکس عائد کرے۔
ڈاکٹر زبالہ یاسر نے اپنے خطاب میں کہا کہ موسمیاتی تبدیلیاں قدرتی آفات کو جنم دے کر غذائی عدم تحفظ کو ہوا دے رہی ہے کیونکہ ایسے واقعات ہر قسم کے معاشی اور سماجی مسائل کو جنم دیتے ہیں۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ پھل یا سبزی کا ہر ٹکڑا – بشمول اس کی جلد، بیج اور پتےکو فائدہ مند چیزوں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ ایک مثال دیتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ آم کی گھٹلی (بیج) سے نکالے جانے والے سفید نشاستہ دار مادے کو بائیو ڈی گریڈ ایبل تھیلوں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ ”اس طرح ہم خوراک کے ضیاع کو کم کر سکتے ہیں اور پائیدار زندگی کو بھی فروغ دے سکتے ہیں۔” انہوں نے مستقبل کے غذائی ماہرین پر زور دیا کہ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے پیشے کے اچھے طریقوں کے بارے میں آگاہی پھیلانے کے لیے ڈیجیٹل آلات کے استعمال میں اپنی مہارت کا استعمال کریں۔
اس موقع پر ڈاکٹر نوید بھٹو نے کہا کہ اگر غذائی قلت میں خاطر خواہ کمی لائی جائے تو 25 فیصد تک غذائیت کے شکار اور غذائی قلت کا شکار لوگوں کو مناسب طریقے سے کھانا کھلایا جا سکتا ہے۔
کھانے کے ضیاع کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ تقریبات میں لوگ اس طرح کھاتے گویا یہ ان کا آخری کھانا ہے۔ اس طرح بہت سا کھانا ضائع ہو جاتا ہے۔” یہ معمول روزمرہ کے کھانے کے لیے بھی ایسا ہی ہے۔ “ہم اکثر اپنے کھانے کے بڑے حصے کو بغیر کھائے چھوڑ دیتے ہیں، جو بالآخر کچرے کے ڈبے میں چلا جاتا ہے۔ ہمارے روزمرہ کے ضیاع کا حجم اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم نے معمول کے مطابق اچھا کھانا پھینکنے کی عادت ڈال لی ہے۔
خوراک کی تقسیم کے نظام کے بارے میں، انہوں نے کہا کہ یہ سلسلہ اتنا ناکارہ ہے کہ کم از کم 15 فیصد خوراک مارکیٹ تک پہنچنے سے پہلے ہی ضائع ہو جاتی ہے، ڈاکٹر بھٹو نے کہا۔ حالات کو سدھارنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور جدید ترین طریقے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی زور دے کر کہا کہ خوراک کے ضیاع کے معاملے پر کبھی کوئی قانون سازی کا کام نہیں کیا گیا کیونکہ یہ ترجیحی امور کے زمرے میں نہیں آتا ہے۔
اس موقع پر ڈاکٹر ایس کاظم عباس شاہ اور ڈاکٹر رضوان علی نے بھی خطاب کیا۔ دو مقامی فوڈز کمپنیز اور ہمدرد لیبارٹریز نے ان ایونٹس کو سپانسر کیاتھا۔
ہمدرد یونیورٹی کی سات فیکلٹیز کے طلباء نے خوراک کے عالمی دن کے حوالے سے مختلف صحت بخش کھانوں کے اسٹال لگائے۔ بعد ازاں وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹرسید شبیب الحسن اور رجسٹرار کلیم اے غیاث نے ان اسٹالز کا معائنہ کیا اور ہر طالب علم کی کاوشوں کو سراہا۔
[ad_2]
Source link