33

شنگھائی تعاون تنظیم کاعالمی برداری میں منفرد مقام

[ad_1]

دنیا بھر کے ممالک اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مختلف قسم کے گروپ، بلاک اور تنظیموں میں شامل ہوتے ہیں۔ دنیا کے امیر ترین، معاشی طور پر مستحکم اور عسکری قوت رکھنے والے بڑے ممالک اپنے علاقائی مفادات کے تحفظ کے لیے جو تنظیمیں بناتے ہیں، ان میں نسبتاً چھوٹے، پسماندہ، ترقی پذیر اور اپنے معاشی، سیاسی، تجارتی، عسکری اور دیگر مختلف شعبوں میں باہمی تعاون کے طالب ممالک شامل ہوتے ہیں جس کا مقصد داخلی و خارجہ محاذ پر دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینا اور عالمی برادری میں ایک باوقار مقام بنانا ہوتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم بھی اسی پس منظر میں قائم کی گئی ہے۔

ابتدا میں چین نے اپنی عسکری اعتماد سازی کے لیے اپنے معروف شہر شنگھائی کے نام پر شنگھائی فائیو نامی تنظیم کی بنیاد 26 اپریل 1996 کو رکھی تھی جس کے رکن ممالک میں روس، قزاقستان، کرغزستان، تاجکستان شامل تھے بعدازاں جون 2001 میں شنگھائی تعاون تنظیم کا باقاعدہ قیام عمل میں آیا اور ازبکستان بھی اس کا حصہ بن گیا۔

پاکستان 2005 سے شنگھائی تعاون تنظیم کا مبصر ملک چلا آ رہا تھا اور اس کے سالانہ اجلاسوں میں باقاعدہ رکن مبصر ملک شرکت کرتا رہا۔ تاہم 2010 میں پاکستان نے شنگھائی تعاون تنظیم کا رکن بننے کی باقاعدہ درخواست دی تھی۔ 2015 میں تنظیم کے سربراہی اجلاس میں پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم کے باقاعدہ مستقل رکن کی حیثیت سے شامل کر لیا گیا۔ بھارت نے بھی شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت لے لی تھی اور آج اس تنظیم کے رکن ممالک میں چین، روس، بھارت، پاکستان، ایران، قزاقستان، تاجکستان، کرغزستان، ازبکستان اور بیلاروس مستقل حیثیت سے شامل ہیں۔

شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ہر سال رکن ممالک کے دارالحکومت میں منعقد ہوتا ہے۔ اب شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس پاکستان میں منعقد ہو رہی ہے ۔ معزز مہمانوں کی سیکیورٹی کو فول پروف بنایا گیا ہے۔ حکومت نے پاک فوج کو یہ ذمے داری سونپ کر ایک مستحسن فیصلہ کیا ہے۔اس شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس سے دوسرے ممالک میں ایک اچھا اور پائیدار امن کا پیغام جائے گا۔ وطن عزیز میں ہونے والے اس اہم ترین اجلاس کے حوالے سے ملکی و غیر ملکی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں تبصرے اور تجزیے کیے جا رہے ہیں۔

آجکل شنگھائی تعاون تنظیم کے دو رکن ممالک پاکستان اور بھارت کے درمیان مثالی دوستانہ تعلقات نہیں ہیں۔ دونوں پڑوسی ممالک سارک نامی تنظیم کے بھی رکن ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کی بنیادی وجہ مسئلہ کشمیر کا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل نہ ہونا ہے ۔ موجودہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک قدم اور آگے بڑھ کر 5 اگست 2019 کو مقبوضہ کشمیر کی خودمختار آئینی حیثیت کو منسوخ کرکے صورت حال کو دوآتشہ کر دیا ہے جس کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر پر مذاکرات طویل تعطل کا شکار ہو چکے ہیں۔

شنگھائی کانفرنس میں بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کی ممکنہ شرکت سے مبصرین و تجزیہ نگار یہ اندازے لگا رہے ہیں کہ کیا ’’سائیڈ لائن‘‘ پر پاک بھارت وزارت خارجہ کے درمیان کوئی ایسی ملاقات ممکن ہو سکتی ہے جس سے پاک بھارت مذاکرات کی راہ ہموار ہو سکے۔ انڈیا میں ہونے والی گزشتہ شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس میں جب پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری بھارت گئے تو اس وقت بھی مبصرین و تجزیہ نگار ’’برف پگھلنے‘‘ کی امیدوں کے تانے بانے بن رہے تھے، تاہم ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ اس مرتبہ بھی بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کی اسلام آباد آمد پر دو طرفہ ’’سردمہری‘‘ کے خاتمے اور دو طرفہ مذاکرات کی بحالی کے کوئی امکانات بظاہر نظر نہیں آتے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں