40

چینی وزیراعظم کی آمد، معیشت پرمثبت اثرات

[ad_1]

 پاک چین تعلقات میں بہتری کے باوجود چند رکاوٹیں اور چیلنجز بھی موجود ہیں جو ان تعلقات کو متاثر کر سکتے ہیں۔

پاک چین تعلقات میں بہتری کے باوجود چند رکاوٹیں اور چیلنجز بھی موجود ہیں جو ان تعلقات کو متاثر کر سکتے ہیں۔

عوامی جمہوریہ چین کے وزیراعظم لی چیانگ کی 11سال بعد تاریخی دورے پر پاکستان آمدپر انتہائی پرتباک استقبال کیا گیا، بعدازاں دونوں ممالک کے مابین سیکیورٹی، تعلیم، زراعت، مواصلات، صنعت وتجارت، انسانی وسائل کی ترقی، سائنس و ٹیکنالوجی کرنسی کے تبادلے سمیت متعدد شعبوں میں13 مفاہمت کی یاد داشتوں اور معاہدوں پر دستخط ہوئے گوادر ایئرپورٹ کا ورچوئل افتتاح بھی کیا گیا۔

دونوں رہنماؤں نے بنیادی نوعیت کے تمام امور پر ایک دوسرے کی حمایت کا اعادہ کیا اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) فیز 2 کی اعلیٰ معیار پر ترقی کے لیے عزم کا اظہار کیا۔دوسری جانب شنگھائی تعاون تنظیم کی حکومتی سربراہان کی کونسل کے اجلاس کا آغاز بھی ہوگیا ہے۔عالمی سطح پر دیکھا جائے توایس سی او کا اجلاس ایسے وقت میں ہورہا ہے جب دنیا کو مشرق وسطی میں غزہ سے لبنان میں پھیلتی جنگ اور روس اور یوکرین میں جاری تنازعہ کے مضمرات کا سامنا ہے۔

توقع کی جا رہی ہے کہ دنیا کے تین براعظموں پر پھیلی ہوئی شنگھائی تعاون تنظیم دنیا کی سلامتی، امن اور ترقی پر گہرے اور دور رس اثرات مرتب کرے گی۔ ایس سی او کے چارٹر کے آرٹیکل ایک کے مطابق اس تنظیم کے قیام کا مقصد رکن ممالک کے درمیان مضبوط رشتے قائم کرنا ہے، جس میں باہمی اعتماد، دوستی اور اچھے تعلقات کو مضبوط کرنا شامل ہیں۔چارٹر کے مطابق اچھے تعلقات ایک طرف دہشت گردی کے خاتمے پر مبنی ہیں تو دوسری طرف اس کا ایک مقصد تجارت اور معیشت کے ذریعے موثر علاقائی تعاون کو فروغ دینا ہے۔ اس ضمن میں پاکستان اوربھارت کے تعلقات میں بہتری لائے بغیر تجارت اور معیشت جیسے اہم معاملات میں علاقائی پیش رفت مشکل دکھائی دیتی ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی اپنے محل وقوع کی وجہ سے اہم اسٹرٹیجک اہمیت ہے اور تجارت اور اقتصادی سرگرمیوں کا مرکز بن سکتا ہے ، پاکستان وسط ایشیا کے لینڈ لاکڈ ممالک کو گوادرکی بندرگاہ تک رسائی دے کر بحرہند کے ذریعے پوری دنیا تک پہنچا سکتا ہے اور ایس سی او کے فورم کو خطے میں تجارت، سیاحت، تعاون اور کئی دیگر شعبوں کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔

چینی وزیراعظم کے دورہ پاکستان میں مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط اور شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے انعقاد سے ملکی معیشت میں استحکام آئے گا، بلاشبہ اس کا کریڈٹ وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی معاشی ٹیم کو جاتا ہے جن کی محنت کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت گروتھ کے راستے پر اپنے سفر کا آغاز کر چکی ہے ۔ یہ عوامل پاکستان کے معاشی روشن مستقبل کی نوید سنا رہے ہیں۔

پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات تاریخی اہمیت کے حامل ہیں اور دونوں ممالک کی دوستی کو دنیا بھر میں ایک مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ تعلقات 1950 کی دہائی میں شروع ہوئے، پچاس کی دہائی سے آج تک دونوں ممالک نے سیاسی، اقتصادی اور دفاعی شعبوں میں ایک دوسرے کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان دوستی کی جڑیں تاریخی اور جغرافیائی حقائق میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ساٹھ کی دہائی میں جب پاکستان نے چین کے ساتھ زمینی سرحدوں کے معاہدے پر دستخط کیے، یہ دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔

اس کے بعد سے دونوں ممالک نے مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ دیا، جن میں دفاعی تعاون، انفرا اسٹرکچر اور تجارت شامل ہیں۔ پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی تعلقات کی بنیاد چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) پر ہے، جو ہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہ منصوبہ پاکستان میں انفرا اسٹرکچر، توانائی اور مواصلاتی شعبوں میں بہتری لانے کے لیے بنایا گیا ہے ۔

سی پیک کے ذریعے پاکستان میں بڑے پیمانے پر سڑکیں، بجلی کے منصوبے اور صنعتی زونز تعمیر کیے گئے ہیں۔ یہ منصوبہ نہ صرف پاکستان کی اقتصادی ترقی کے لیے اہم ہے بلکہ چین کو بھی اپنی مصنوعات کی ترسیل کے لیے ایک مختصر راستہ فراہم کرتا ہے۔ دفاعی شعبے میں بھی پاکستان اور چین کے تعلقات انتہائی گہرے ہیں۔ دونوں ممالک نے مشترکہ فوجی مشقیں کی ہیں اور چین نے پاکستان کو جدید ہتھیاروں کی فراہمی کی ہے۔ چین نے پاکستان کو جدید ترین جنگی طیارے اور آبدوزیں فراہم کی ہیں۔

پاک چین تعلقات میں بہتری کے باوجود چند رکاوٹیں اور چیلنجز بھی موجود ہیں جو ان تعلقات کو متاثر کر سکتے ہیں۔پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدہ تعلقات کبھی کبھار چین کے ساتھ تعلقات پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں، کیونکہ چین اور بھارت کے درمیان بھی سرحدی تنازعات موجود ہیں۔ پاکستان کی معاشی مشکلات اور قرضوں کا بوجھ بھی دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک چیلنج ہے۔ چین پاکستان کی اقتصادی مدد کر رہا ہے، سی پیک منصوبے کے تحت بلوچستان اور دیگر علاقوں میں جاری سیکیورٹی خطرات بھی ایک اہم چیلنج ہیں۔ دہشت گردی اور علیحدگی پسند تحریکوں کی وجہ سے ان علاقوں میں منصوبوں کی تکمیل میں تاخیر ہو رہی ہے۔ مگر دونوں ممالک کی قیادت اور عوام کے درمیان دوستی اور تعاون کا عزم بہت مضبوط ہے۔

ان تعلقات کی اہمیت نہ صرف پاکستان اور چین کے لیے بلکہ پورے خطے کے استحکام اور ترقی کے لیے ضروری ہے۔ شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن اور برکس تنظیمیں چین، بھارت اور روس سمیت دنیا کی چالیس فیصد سے زیادہ آبادی اور متعدد بڑی معیشتوں پر مشتمل ہیں جو رکن ملکوں کے مطابق ممکنہ طور پر امن اور سلامتی کے حصول اور تجارت کے فروغ کی جانب اہم پلیٹ فارمز کا کردار ادا کر سکتی ہیں۔

ان فورمز پر فعال کردار ادار کرنے اور ان کے ذریعے تعاون سے مستفید ہونے کے لیے پاکستان کو امریکی تعاون کے ذریعے آئی ایم ایف کے سات ارب ڈالر کے قرض پروگرام کے حصول کے بعد نہ صرف سیاسی استحکام، حکومتی عمل داری اور جاندار معاشی فیصلے کرنے کی ضرورت ہے بلکہ اسے اپنی خارجہ پالیسی کے امور کو بھی کہیں بہتر انداز میں چلانا ہوگا۔

حالیہ برسوں کے دوران پاکستان نے ملک میں کاروباری ماحول کی بہتری اور صنعتی ترقی کے فروغ کے ساتھ ساتھ تجارتی سہولتوں کی فراہمی کے لیے اہم اصلاحات متعارف کرائی ہیں۔ اس وقت ہم اپنے بنیادی ڈھانچے کو جدید خطوط پر استوار کرنے، ریگولیٹری فریم ورکس کی بہتری اور کاروبار دوست ماحول کی فراہمی کے لیے جامع حکمت عملی کے تحت اقدامات اٹھارہے ہیں۔ اس وقت عالمی سطح پر مختلف اقتصادی مسائل اور غیر یقینی صورت حال کاسامنا ہے۔ ایس سی اوکے رکن ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے باہمی یکجہتی کو فروغ دیں۔

پاکستان ایس سی او کے وزرائے اعظم کی کونسل کا موجودہ چیئرمین ہونے کی حیثیت سے ان اجلاسوں کی میزبانی کر رہا ہے، جو ایس سی او کا دوسرا سب سے بڑا فورم ہے اور تنظیم کے تمام اقتصادی، تجارتی، سماجی، ثقافتی اور انسانی امور کے ساتھ ساتھ بجٹ سے متعلق معاملات کو دیکھتا ہے۔ اسی تناظر میں پاکستان کے لیے ایس سی او کا پلیٹ فارم بہت اہم ہے۔ چند اہم پہلو ہیں جہاں پاکستان ایس سی او کی مدد سے اپنے مفادات کا تحفظ کر سکتا ہے۔ جیسے کہ ایس سی او کے رْکن ممالک ایک بڑا اقتصادی بلاک ہیں جن کے ساتھ تجارت پاکستان کی معیشت کے لیے ایک اہم موقع ہو سکتا ہے۔

سی پیک اور بی آرآئی کے پلیٹ فارم کے ذریعے دیگر ممالک کے ساتھ تجارتی رابطے ہو سکتے ہیں۔ ایس سی او کے رکن ممالک توانائی کی دولت سے مالامال ہیں اور پاکستان توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اَن ممالک سے آ سان شرائط پر معاہدے کر سکتا ہے۔ ایس سی او کے ذریعے پاکستان کو رْکن ممالک کے ساتھ ثقافتی، تعلیمی، اور سائنسی تعاون کے مواقع حاصل ہیں۔ پاکستان کو عالمی سطح پر اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنے اور خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا سکتا ہے۔

سر براہی اجلاس ایس سی او کے مستقبل کے اقدامات اور رْکن ممالک کے درمیان علاقائی تعاون کے فروغ کی تجاویز پر مشتمل ہے۔ پاکستان اِس سے قبل ایس سی او کے فورم پر فوڈ سیکیورٹی، موسمیاتی تبدیلی اور انسداد دہشت گردی کے شعبوں میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ اِسکے علاوہ پاکستان ایس سی او کے اندر تعاون کے دائرہ کار کو وسعت دینے، مشترکہ سرحدی آپریشنز، سائبر تعاون میں اضافہ، ڈیجیٹل رابطے، غربت کے خاتمے اور نوجوانوں کو بااختیار بنانے جیسے اْمورپر زور دیتا رہا ہے۔

شنگھائی تعاون کی تنظیم کا فورم پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ پاکستان دہشت گردی، انتہا پسندی اور اقتصادی بدحالی کا شکار ہیتاہم عسکریت پسندی کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے علاقائی نقطہ نظر پاکستان کے لیے کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔اس کے علاوہ پاکستان خطے میں رابطوں اور ماحولیاتی تبدیلی کے میدان میں کردار ادا کر کے ایس سی او میں اپنی اہمیت ثابت کر سکتا ہے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں