44

انمول رتن – ایکسپریس اردو

[ad_1]

رتن کے معنی ہیں قیمتی پتھر، زیور، نگینہ۔ رتن ٹاٹا حقیقت میں اسم با مسمی تھے، ان کا دل سونے کا تھا، وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ انسانیت ہر چیز سے بالاتر ہے۔ وہ انسان کے روپ میں دیوتا تھے۔ ان کی موت سے ہندوستان غریب ہوگیا، وہ 1937 میں بمبئی میں پیدا ہوئے۔

ان کے دادا، جمشید جی ٹاٹا، نے ٹاٹا گروپ کی بنیاد رکھی تھی اور رتن ٹاٹا نے اسی وراثت کو آگے بڑھایا۔ ان کی ابتدائی تعلیم بھارت اور پھر امریکا میں ہوئی، جہاں انھوں نے کورنیل یونیورسٹی سے آرکیٹیکچر کی ڈگری حاصل کی۔ بعد میں انھوں نے ہارورڈ بزنس اسکول سے بھی تعلیم حاصل کی۔

رتن ٹاٹا کی قیادت میں، ٹاٹا گروپ نے بے شمار نئے پروجیکٹس کا آغاز کیا اور کئی کمپنیوں کو عالمی سطح پر متعارف کرایا۔ ان کی سب سے مشہور کامیابیوں میں ٹاٹا موٹرز کے تحت’’ٹاٹا نینو‘‘کار کی تخلیق شامل ہے، جسے دنیا کی سب سے سستی کار کہا جاتا ہے۔ اس منصوبے کے پیچھے ان کا مقصد یہ تھا کہ عام آدمی کے لیے کار خریدنا ممکن ہو جائے اور بھارت جیسے ترقی پذیر ملک میں نقل و حمل کے مسائل کو حل کیا جا سکے۔

اس کے علاوہ، رتن ٹاٹا نے ٹاٹا اسٹیل، ٹاٹا پاور اور ٹاٹا کنسلٹنسی سروسز جیسے شعبوں میں بھی نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔ ان کی قیادت میں، ٹاٹا گروپ نے نہ صرف بھارت بلکہ برطانیہ، امریکا اور یورپ میں بھی بڑے کاروباری سودے کیے۔ ان میں سے ایک بڑی کامیابی برطانوی آٹو موبائل کمپنی’’جیگوار لینڈ روور‘‘کی خریداری تھی۔ اس سودے نے ثابت کیا کہ ٹاٹا گروپ عالمی سطح پر اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو چکا ہے۔

رتن ٹاٹا کی شخصیت میں ایک خاص بات یہ تھی کہ وہ ہمیشہ اپنی کمپنی کے ملازمین اور صارفین کی فلاح و بہبود کو ترجیح دیتے تھے، انھوں نے ہمیشہ سماجی ذمے داریوں کو نبھانے پر زور دیا۔ ان کے دور میں، ٹاٹا گروپ نے تعلیم، صحت اور سماجی ترقی کے مختلف منصوبوں میں بے تحاشا سرمایہ کاری کی۔ ان کا ماننا تھا کہ ایک کمپنی کی کامیابی صرف منافع کمانے میں نہیں بلکہ سماج کو بہتر بنانے میں بھی ہے۔

ان کا ایک اور اہم کارنامہ ان کا کاروباری اخلاقیات پر زور دینا تھا۔ انھوں نے ہمیشہ اپنی کمپنی کو اصولوں اور اخلاقیات پر مبنی کاروبار کرنے کی تلقین کی۔ ان کا ماننا تھا کہ کاروبار میں حقیقی کامیابی اسی وقت ہوتی ہے جب اسے شفافیت، دیانتداری اور عوامی فلاح کے اصولوں پر چلایا جائے۔ ان کی اسی سوچ نے ٹاٹا گروپ کو دنیا بھر میں ایک قابلِ اعتماد برانڈ بنایا۔

رتن ٹاٹا کا دل ہمیشہ فلاحی کاموں کی طرف مائل رہا۔ وہ ایک انسان دوست آدمی تھے اور اپنی کمائی کا ایک بڑا حصہ فلاحی منصوبوں میں خرچ کرتے تھے۔ انھوں نے تعلیم کے شعبے میں کئی اداروں کی مدد کی ہے اور صحت کے میدان میں بھی نمایاں کام کیا ہے۔ خاص طور پر بھارت میں غریب طبقے کی مدد کے لیے انھوں نے کئی منصوبے شروع کیے۔

رتن ٹاٹا کی قیادت میں، ٹاٹا گروپ نے صرف کاروباری ترقی نہیں کی بلکہ فلاحی اور سماجی ترقی میں بھی اپنا کردار ادا کیا۔ ان کی کمپنی نے ہمیشہ سماج کی خدمت کو اولین ترجیح دی اور مختلف فلاحی منصوبوں کے ذریعے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ ٹاٹا گروپ کو بھارت میں نہ صرف ایک بڑے کاروباری ادارے کے طور پر بلکہ ایک فلاحی اور انسان دوست ادارے کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔

رتن ٹاٹا کی زندگی سے ہمیں کئی سبق ملتے ہیں۔ ان کی محنت، لگن اور عوامی خدمت کا جذبہ انھیں ایک عظیم انسان بناتا ہے۔ انھوں نے ہمیشہ اپنے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے کاروبار کیا اور کبھی بھی صرف منافع کمانے کی دوڑ میں نہیں لگے۔ ان کی زندگی اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر آپ ایمانداری اور اصولوں پر مبنی زندگی گزاریں تو کامیابی خود بخود آپ کے قدم چومتی ہے۔ان کا نام نہ صرف بھارت کی تاریخ میں بلکہ عالمی سطح پر بھی سنہرے الفاظ میں لکھا جائے گا۔

وہ ایک ایسے انسان تھے جنھوں نے نہ صرف اپنے ملک کی خدمت کی بلکہ دنیا بھر میں اپنے اصولوں، اخلاقیات اور فلاحی کاموں کے ذریعے ایک مثال قائم کی۔ ان کی قیادت میں، ٹاٹا گروپ نے دنیا بھر میں اپنی شناخت بنائی اور سماجی خدمت کے میدان میں بھی نمایاں کارنامے انجام دیے۔ان کی شخصیت کو صرف ان کے تجارتی کارناموں تک محدود کرنا ان کی عظمت کے ساتھ ناانصافی ہوگی، وہ ایک ایسے انسان ہیں جو اپنی زندگی اور کام کے ذریعے معاشرے کی فلاح و بہبود اور انسانی وقار کو ہمیشہ اولیت دیتے رہے ہیں۔ ان کی زندگی کے مختلف پہلو اس بات کا ثبوت ہیں کہ ان کے دل میں اپنی قوم اور دنیا کے پسے ہوئے طبقات کے لیے ایک خاص درد تھا۔

رتن ٹاٹا کے لیے کاروبار محض دولت کا حصول نہیں تھا، بلکہ اس کا مقصد معاشرے کی خدمت اور عوام کو بہتر زندگی فراہم کرنا تھا۔ ان کا خاندان شروع سے ہی اس فلسفے کا پیروکار رہا ہے کہ کاروبار ایک سماجی ذمیداری ہے، اور رتن ٹاٹا نے اسی روایت کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اسے مزید وسعت دی۔ ان کا ماننا تھا کہ ایک کامیاب صنعتکار کا کام صرف دولت کمانا نہیں، بلکہ اپنی قوم کو آگے بڑھانے میں کردار ادا کرنا بھی ہے۔

ان کا طرز زندگی بھی انتہائی سادہ تھا، جو ان کی عظمت کا ایک اور پہلو ہے۔ وہ ہمیشہ سادگی اور عاجزی کے ساتھ جیتے رہے، حالانکہ وہ بھارت کے امیر ترین افراد میں سے ایک تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ دولت انسان کو بہتر نہیں بناتی، بلکہ اس کا کردار اور اخلاق اسے عظیم بناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں کبھی دولت کی نمائش نہیں کی، بلکہ ہمیشہ ایک عام انسان کی طرح زندگی گزاری۔

رتن ٹاٹا کی شخصیت میں جہاں ایک کامیاب صنعتکار کی خصوصیات تھیں، وہیں ان میں ایک فلاحی انسان دوست کا دل بھی دھڑکتا تھا۔ ان کی فلاحی سرگرمیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ اپنے کاروبار کو ایک وسیلہ سمجھتے تھے جس کے ذریعے وہ سماجی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ ان کی قیادت میں ٹاٹا گروپ نے مختلف تعلیمی ادارے، اسپتال، اور تحقیقاتی مراکز قائم کیے جن کا مقصد عوام کو جدید سہولیات فراہم کرنا تھا۔ان کی زندگی ایک ایسی داستان ہے جس میں محنت، دیانتداری اور انسان دوستی کے عناصر ایک ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ان کی قیادت میں بھارت نے مختلف شعبوں میں ترقی کی، اور ان کی انسان دوست پالیسیوں نے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنایا۔

آج جب وہ اس دنیا سے دخصت ہو گئے ہیں ان کی موت پہ نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں اس خبر کو لے کر سب اداس ہیں۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ انسان کا مزہب، زبان اور روپیہ پیسہ اس کی پہچان نہیں ہے بلکہ وہ انسانیت کے کتنا کام آتا ہے اور دوسروں کی زندگی بہتر کرنے میں اس کا کیا کردار ہے یہی سب کچھ ہے۔ ان جیسا دوسرا رتن پیدا ہونا بہت مشکل ہے، ان کے جانے سے ہزاروں لوگ یتیم ہوگئے۔ وہ اپنے پیچھے بہت بڑا خلا چھوڑ گئے ہیں جس کو پر کرنا ناممکن ہے۔ ان پہ شاد عظیم آبادی کا یہ شعر صادق آتا ہے۔

ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں