[ad_1]
پاکستان میں ایس سی او کانفرنس کا کامیاب انعقاد ہم سب کی کامیابی ہے۔ میں سمجھتا ہوں اس کامیاب کانفرنس کے انعقاد پر ہم سب کو حکومت پاکستان اور بالخصوص وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔ کامیاب سفارتکاری کی یہ ایک بہترین مثال ہے۔ اس سے عالمی دنیا میں پاکستان کا وقار بلند ہوا ہے۔ اور اقوام عالم میں پاکستان کی قدر اور اہمیت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ جو لوگ یہ پراپیگنڈا کر رہے تھے کہ پاکستان عالمی دنیا میں غیر اہم ہوگیا ان کے لیے ایس سی او کانفرنس ایک بہترین جواب ہے۔ پاکستان کی اہمیت اپنی جگہ برقرار ہے۔
ویسے تو بھارت کے وزیر خارجہ نے بھی ایس سی او کانفرنس میں شرکت کی ہے۔ اس موقع پر ان کے اور وزیر اعظم پاکستان کے مصافحہ کی تصاویر بھی ہم سب نے دیکھی ہیں۔ یہ بھی اچھی پیش رفت ہے۔ میں سمجھتا ہوںآج پھر پاکستان میں بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے حوالے سے ایک رائے عامہ موجود ہے۔ لوگ بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں۔ بھارتی وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان پر کوئی منفی رد عمل سامنے نہیں آیا۔ بلکہ سب نے انھیں خوشدلی سے خوش آمدید ہی کہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بھارت کی حکومت اس وقت پاکستان سے تعلقات کو بہتر کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔ اس لیے کسی بڑی پیش رفت کی توقع نہیں۔ تا ہم پھر بھی ماحول بہتر ہوا ہے۔
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سارک بھی ایک تنظیم تھی۔ لیکن یہ تنظیم اس لیے ختم ہوگئی کیونکہ اس کا اجلاس باری سے پاکستان میں ہونا تھا اور بھارت پاکستان میں اجلاس میں شرکت کے لیے تیار نہیں تھا۔ پاکستان اپنی باری کسی کو دینے کے لیے تیار نہیں تھا۔ ایسے میں اس کا سالانہ اجلاس ہی نہ ہو سکا اور ایک متحرک تنظیم ختم ہو گئی۔ اس لیے یہ کہنا کہ پاکستان کی باری تھی اس لیے ایس سی او کا اجلاس پاکستان ہونا ہی تھا درست نہیں۔ ایسے تو سارک کا اجلاس بھی باری پر پاکستان ہونا چاہیے تھا لیکن نہیں ہوا تھا۔ اس لیے ایس سی او کا اجلاس پاکستان میں ہونا یقیناً پاکستان کی ایک بڑی سفارتی کامیابی ہے۔
ورنہ اس اجلاس کو بھی یہاں سے شفٹ کرنے کی مہم چل سکتی تھی لیکن پاکستان کی اہمیت کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔ حالیہ چند ماہ میں پاکستان میں چینی باشندوں کو نشانہ بھی اسی لیے بنایا جا رہا تھا کہ پاکستان کے دشمن نہیں چاہتے تھے کہ ایک تو ایس سی او کا اجلاس پاکستان میں منعقد ہو دوسرا چینی وزیر اعظم پاکستان کے دورے پر آئیں۔ چینی باشندوں کا نشانہ بنانے کا مقصد ایس سی او اجلاس کو پاکستان سے شفٹ کروانا بھی تھا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں چین نے پاکستان کے ساتھ حقیقی دوستی کا حق ادا کیا ہے۔
چینی وزیر اعظم اس کانفرنس سے پہلے آئے اور بعد میں بھی ایک دن رہیں گے ۔ ان کے چار روزہ دورے نے تمام سازشوں کو ناکام بنا دیا ہے۔ دشمن نہ تو ایس سی او کانفرنس کو روک سکے اور نہ ہی چینی وزیر اعظم کے دورے کو روک سکے۔ بلکہ پاکستان اور چین کے درمیان نئے معاہدوں نے سب کو واضح جواب دیا ہے کہ چین اور پاکستان مل کر آگے چلنے کے لیے تیار ہیں۔ اس ایس سی او کانفرنس میں روس کے وزیر اعظم بھی شریک ہوئے۔ روس اور پاکستان کے درمیان تعلقات بتدریج بہتر ہو رہے ہیں۔ اس سے پہلے پاکستان کا ایک اعلیٰ سطح کا وفد بھی روس گیا ہوا تھا۔ ترکمانستان میں پاکستان کے صدر آصف زرداری او روسی صدر پوٹن کی بھی ملاقات ہوئی ہے۔
روسی وزیر اعظم کی پاکستان آمد بھی پاکستان کی سفارتکاری میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ پاکستان اور روس کے درمیان وسیع تعاون کے مواقع موجود ہیں۔ پاکستان اور روس میں بڑھتے تعاون سے خطہ میں طاقت کا توازن بھی بہتر ہوگا اور پاکستان کی سفارتکاری میں توازن بھی آئے گا۔ یہ حقیقت ہے کہ روس اور پاکستان کے تعلقات بہت عرصہ سرد مہری کا شکار رہے ہیں۔ لیکن اب ان میں دوریاں ختم ہوتی نظرآ رہی ہیں۔ تجارت بھی بڑھ رہی ہے۔ اس ایس سی او کانفرنس میں اقوام متحدہ کی دو سپر پاور اور دو ویٹو پاور کے وزیر اعظم بیک وقت پاکستان میں موجود نظر آئے۔ روس اور چین دونوں دنیا کی سپر پاور بھی ہیں اور دونوں کے پاس اقوام متحدہ میں ویٹو پاور بھی ہے۔
[ad_2]
Source link