[ad_1]
’’سندھ میں اتنی فنڈنگ ہورہی ہے پھر بھی کوئی کام ہوتا نظر نہیں آتا۔ ‘‘سندھ ہائی کورٹ کے معزز جج جسٹس صلاح الدین پنہور کی سربراہی میں ڈویژن بنچ کے سامنے جب سندھ کے اسکولوں میں طلبہ کو کتابیں فراہم نہ کرنے کے معاملہ میں عرضداشت سامنے آئی تو معزز ججوں کے لیے یہ بات حیرت کا باعث تھی کہ تعلیمی سال شروع ہوئے کئی ماہ گزر گئے مگر ابھی تک درسی کتابیں شایع نہیں ہوئیں۔ عدالت نے متعلقہ حکام سے استفسار کیا کہ کتابوں کی اشاعت کی ذمے داری سندھ ٹیکسٹ بورڈ کے سپرد ہے مگر عدالت کے نوٹس پر بورڈ کے سربراہ پیش نہ ہوئے۔
عدالت کو سیکریٹری تعلیم نے بتایا کہ عالمی بینک نے اسکولوں کے لیے 154 بلین ڈالر دیے ہیں۔ یورپی یونین، ایشین ڈیولپمنٹ بینک اور وفاقی حکومت نے بھی گرانٹ دی ہے۔ سیکریٹری تعلیم نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ جاپان کا ادارہ جائیکا بھی سندھ میں اسکولوں کی ترقی کے لیے کام کررہا ہے اور جائیکا نے اسکولوں کی تعمیر کے پروجیکٹ کے لیے 2.2 بلین روپے رکھے ہیں۔ ججوں نے اس موقع پر ریمارکس دیے کہ اگر جاپان والے اسکولوں کی عمارتیں تعمیر کررہے ہیں تو یہ اسکول اعلیٰ معیار کے ہونگے اور ججوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ ان اسکولوں کی عمارتوں کو ضرور دیکھنا چاہئیں گے۔ درخواست گزار کے وکیل اشفاق علی پنہور کا مدعا ہے کہ سندھ میں تعلیم کا بجٹ دگنا کردیا گیا ۔ اس مالیاتی سال میں سندھ میں تعلیم کا بجٹ 454 بلین روپے کیا گیا ہے مگر طالب علموں کو کتابیں ابھی تک نہیں مل رہیں۔
روزنامہ ایکسپریس میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 21 فیصد سرکاری اسکولوں میں کمپیوٹر لیب ہی نہیں ہے، یہ رپورٹ صرف کراچی ضلع تک محدود ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق گورنمنٹ سیکٹر کے 490 سیکنڈری اسکولوں اور ہائر سیکنڈری اسکولوں میں سے 406 میں کمپیوٹر لیب موجود نہیں ہے۔ اسی طرح صرف 90 سرکاری اسکول ایسے ہیں جن کے بارے میں محکمہ تعلیم کا دعویٰ ہے کہ وہاں طالب علموں کے لیے کمپیوٹر لیب موجود ہے۔ کمپیوٹر کا مضمون نویں اور دسویں جماعتوں میں لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے مگر رپورٹر کے سروے کے مطابق بیشتر اسکولوں میں کمپیوٹر سائنس کے اساتذہ موجود ہی نہیں ہیں۔ سب سے زیادہ مضحکہ خیز صورتحال یہ ہے کہ ان اسکولوں میں طلبہ ہر سال کمپیوٹر سائنس کے امتحان دیتے ہیں ۔ رپورٹر کی تحقیق کے مطابق بعض اسکولوں میں اس مضمون کے اساتذہ ہیں مگر ان کی تعداد کم ہے۔
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اسکولوں کے پرنسپل محکمہ تعلیم کو اس صورتحال سے آگاہ کرتے ہیں۔ اس افسر کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ ایجوکیشن ڈائریکٹریٹ کے اعلیٰ افسر اس صورتحال سے واقف نہیں ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس وقت 10 سے 12 اساتذہ کمپیوٹر کی تعلیم کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ انھوں نے اس بات کو بھی تسلیم کیا کہ اسکولوں کو فراہم کیے جانے والے بیشتر کمپیوٹر ناکارہ ہوچکے ہیں۔ اس سروے کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ اسکولوں میں سائنس کے مضامین پڑھانے والے اساتذہ کی کمی ہے۔ کئی اسکولوں میں بائیولوجی کے اساتذہ نہیں تھے، یوں ان اسکولوں میں داخلہ لینے والے طلبہ کا خواب ڈاکٹر بننا ہو تو یہ خواب اس اسکول میں داخلہ کے ساتھ چکناچورہوجاتا ہے۔
جب کراچی ضلع میں سرکاری اسکولوں کی یہ صورتحال ہوگی تو اندرونِ سند ھ کیا صورتحال ہوگی ؟ اس سال بھی اندرونِ سندھ اسکولوں کی حالت کی خرابی کی خبریں ذرایع ابلاغ کی زینت بنیں۔ یہ بتایا جاتا ہے کہ سرکاری پرائمری اسکولوں میں سے 45 فیصد اسکولوں میں طلبہ کے لیے صاف پانی مہیا نہیں ہے۔ اسی طرح 51 فیصد اسکولوں کی چار دیواری ہی کبھی تعمیر نہیں ہوئی۔ اسی طرح جب سرکاری اسکولوں کے بارے میں مزید تحقیق کی گئی تو سندھ ایجوکیشن سیکٹر Sindh Education Sector Plan کی رپورٹ کے مطالعے سے اندازہ ہوا کہ سندھ کے 34 فیصد اسکولوں میں بجلی لگائی ہی نہیں گئی۔ اسی طرح 44 فیصد پرائمری اسکولوں میں کبھی بجلی نہیں آئی۔
پاکستان ایجوکیشن انڈیکس کی دو سال پرانی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سندھ بھر میں 27 فیصد ہائی اسکولوں میں بجلی کی سہولت موجود ہی نہیں ہے ۔ سرکاری اسکولوں میں داخلہ لینے اور تعلیم کے دوران اسکول چھوڑ کر جانے والے طالب علموں کی شرح خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ محکمہ تعلیم کا دعویٰ ہے کہ اسکولوں میں تعلیم مکمل کرنے والے بچوں کی شرح گزشتہ سال 21 فیصد تھی۔ اسکول چھوڑنے والوں کی طالبات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ سندھ کے پسماندہ ترین ضلع تھرپارکر میں اسکول چھوڑنے والے طلبہ کی شرح 60 فیصد سے زیادہ ہے جن میں بیشتر لڑکیاں ہوتی ہیں۔ تعلیمی امور کی رپورٹنگ کرنے والے رپورٹروں کا کہنا ہے کہ سندھ کا محکمہ تعلیم صحیح اعداد و شمار جاری نہیں کرتا، یہ تعداد خاصی زیادہ ہے۔
تعلیمی ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ پرائیوٹ اسکولوں کی ترقی کی ایک بڑی وجہ سرکاری اسکولوں کی ناگفتہ بہ حالت ہے، مگر المیہ یہ ہے کہ جب والدین اس حیثیت میں ہوتے ہیں تو وہ بچوں کو پرائیوٹ اسکولوں میں داخل کراتے ہیں مگر جن کی اتنی استطاعت نہیں ہوتی وہ بچوں کو کام پر لگا دیتے ہیں۔ تھرپارکر جیسے پسماندہ ضلع میں تو پرائیوٹ اسکولوں کی تعداد بھی کم ہے۔ سول انجینئر پروفیسر سعید عثمانی نے اپنی زندگی کا ایک عرصہ سندھ ایجوکیشن ورکس ڈپارٹمنٹ کے ساتھ کنٹریکٹر کی حیثیت سے گزارا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اسکولوں میں بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی کا معاملہ پروجیکٹ سے منسلک ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ جب اسکولوں کے قیام کا فیصلہ کرتی ہے تو پھر بجٹ میں رقم مختص کی جاتی ہے مگر کبھی بھی مکمل پروجیکٹ تیار نہیں کیے جاتے۔ پہلا پروجیکٹ عمارتوں کی تعمیر کا ہوتا ہے۔ عمارتیں تعمیر ہوجاتی ہیں تو فرنیچر کی فراہمی کا پروجیکٹ شروع ہوتا ہے۔ تیسرے مرحلہ میں اسکولوں کی چار دیواری، بیت الخلاء اور بجلی کی فراہمی کا مرحلہ ہوتا ہے۔
عموماً جب پروجیکٹ کا پہلا مرحلہ مکمل ہوتا ہے تو دیگر مراحل کے لیے فنڈ دستیاب نہیں ہوتے، یوں پھر اگلے بجٹ تک یہ معاملہ التواء کا شکار ہوتا ہے، ان مراحل میں کئی سال گزرتے ہیں۔ جب عوامی دباؤ پر اسکولوں کی عمارتوں کو فنکشنل کیا جاتا ہے تو ان عمارتوں میں بنیادی سہولتیں موجود نہیں ہوتیں۔ یہ بھی وجہ ہے کہ بعض اسکولوں میں بچے زمین پر بیٹھ کر کلاس لیتے نظر آتے ہیں۔ سعید عثمانی کا مدعا ہے کہ اگر تمام مراحل کی تعمیل کے لیے جامع پروجیکٹ تیار ہو تو یہ مسئلہ کبھی پیدا نہیں ہوگا۔ سندھ کے محکموں کی رپورٹنگ کرنے والے تمام صحافیوں کی یہ متفقہ رائے ہے کہ اگر حکومت کسی منصوبہ کے لیے 1000 روپے مختص کرتی ہے تو ٹھیکیدار کو کام کرنے کے لیے 300 سے 400 روپے تک کی رقم میسر آتی ہے، باقی رقم ’’ایمانداری کے ساتھ ‘‘تقسیم ہوتی ہے۔ کون کون لوگ اس رقم سے مستفید ہوتے ہیں وہ بات تو اب بچے بچے کے علم میں ہے۔
سندھ میں دو برس قبل شدید سیلاب آیا تھا،اس سیلاب نے وسیع پیمانے پر تباہی مچائی۔ سیلاب کے پانی نے گھروں ، اسکولوں، اسپتالوں اور دیگر عمارتوں کو زمین بوس کردیا۔ اس سیلاب سے پورے ملک میں 26 ہزار سے زیادہ اسکولوں کی عمارتیں تباہ ہوگئیں جن میں سے 25 ہزار اسکول سندھ میں تباہ ہوئے۔ ان اسکولوں کی تباہی سے 230,000 طالب علم اپنے اسکولوں سے محروم ہوگئے تھے۔
پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے عالمی رائے عامہ کو ہموار کر کے عطیہ کے طور پر خاصی رقم حاصل کی تھی۔ پھر بلاول بھٹو کی دھمکی پر وفاقی حکومت نے بھی گرانٹ دی تھی۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ عالمی بینک نے بھی گھروں اور اسکولوں کی تعمیر کے لیے امداد دی تھی جس سے کچھ اضلاع میں اسکولوں کی نئی عمارتیں تعمیر ہوئی تھیں۔ مگر مبارک ولیج سے تعلق رکھنے والے صحافی عزیز سنگھور کا کہنا ہے کہ جن علاقوں میں سیلاب نہیں آیا تھا وہاں کے بھی اسکولوں کی عمارتوں کی صورتحال خراب ہے، اگر کراچی شہر کے ساحلی علاقہ کا جائزہ لیا جائے تو یہ ساحلی پٹی ہاکس بے مبارک ولیج سے شروع ہوتی ہے اور ریڑھی تک پھیلی ہوئی ہے۔
اس ساحلی پٹی کے ساتھ ہزاروں گوٹھ آباد ہیں جہاں کی اکثریت پیپلز پارٹی کے ساتھ ہے مگر اس علاقے میں اسکولوں اور کالجوں کی عمارتیں زبوں حالی کا شکار ہیں اور تمام جدید سہولتوں سے محروم ہیں۔ وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے عہد کیا تھا کہ اسکول نہ جانے والے دو کروڑ سے زائد بچے اگلے سال اسکولوں میں زیرِ تعلیم ہونگے مگر سندھ ملک کا دوسرا بڑا صوبہ ہے۔ صوبہ کے سرکاری اسکولوں کے حالات اگر بہتر نہ ہوئے تو کم از کم سندھ میں ایک کروڑ سے زیادہ بچے اگلے سال بھی اسکولوں میں داخلہ نہیں لے سکیں گے۔
[ad_2]
Source link