[ad_1]
کوئی بھی ملک دنیا کے دیگر ممالک بالخصوص اپنے ہم سائے ممالک سے الگ ہوکر آگے نہیں بڑھ سکتا، فی زمانہ خارجہ تعلقات اور دو طرفہ تعاون کی اہمیت بڑھتی چلی جا رہی ہے، اسی مقصد کے لیے مختلف ممالک ایک دوسرے سے تعاون کو آگے بڑھانے کے لیے جمع ہوتے رہتے ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم ایشیا کے مختلف ممالک کی ایک ایسی اہم تنظیم ہے، جس میں چین اور روس جیسی بڑی اور ابھرتی ہوئی طاقتیں بھی موجود ہیں تو پاکستان اور ہندوستان جیسے اہم ترین ہم سائے بھی حصے دار ہیں، چین، تاجکستان، قازقستان اور دیگر کی تزویراتی اور محل وقووع کی اہمیت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔
26 اپریل 1996ء کو پانچ ارکان روس، چین، تاجکستان، قازقستان اور کرغستان کے ہاتھوں قائم ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) دس ارکان پر مشتمل ہے۔ ازبکستان کے بعد 2017ء میں پاکستان اور ہندوستان بھی شامل ہوئے اور ایران اور بیلاروس بالترتیب 2023ء اور 2024ء میں شامل ہوئے۔
15 اکتوبر 2024ء کو شنگھائی تعاون تنظیم کا 23 واں اہم سہ روزہ اجلاس جناح کنونشن سینٹر اسلام آباد میں شروع ہوا، اجلاس میں شریک رکن ممالک کے بیشتر سربراہان حکومت اور وزرا وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پہنچے ہوئے ہیں، جب کہ چین کے وزیراعظم لی چیانگ پہلے ہی سرکاری دورے پر پاکستان میں موجود ہیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس میں شنگھائی تعاون تنظیم کے راہ نما ’ایس سی او‘ کے رکن ممالک کے درمیان معیشت، تجارت، ماحولیات اور سماجی وثقافتی روابط کے شعبوں میں جاری تعاون پر تبادلۂ خیال کر رہے ہیں اور باہمی تعلقات کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ دیگر امور پر بھی غور جاری ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں چینی وزیراعظم لی چیانگ، روسی وزیراعظم میخائل مشوستن، تاجکستان کے وزیراعظم خیر رسول زادہ، کرغزستان کے وزیراعظم زاپاروف اکیل بیگ، بیلا روس کے وزیراعظم رومان گولوف چینکو، قازقستان کے وزیراعظم اولجاس بینکتینوف، تاجکستان کے وزیراعظم کوہر رسول زادہ اور ازبکستان کے وزیراعظم عبد اللہ ارپیوف شریک ہیں۔ اس کے علاوہ ایران کے نائب صدر محمد عارف اور بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر بھی ’ایس سی او‘ کانفرنس میں شریک ہیں، جب کہ منگولیا مبصر ملک کے طور پر شریک ہے جس کی نمائندگی منگولین وزیراعظم کر رہے ہیں۔ اجلاس کے لیے کنونشن سینٹر میں مہمانوں کا وزیرِاعظم شہبازشریف اور نائب وزیرِاعظم اسحاق ڈار نے پرتپاک استقبال کیا۔
کونسل آف ہیڈز آف گورنمنٹ (سی ایچ جی) شنگھائی تعاون تنظیم کا دوسرا اعلیٰ ترین فورم جس کی سربراہی پاکستان کے پاس ہے اور وزیر اعظم محمد شہبازشریف اس وقت کونسل کے چیئر کے عہدے پر فائر ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے دو روزہ سربراہ اجلاس میں چین، روس، کرغزستان، بیلاروس، تاجکستان، ترکمانستان، قازقستان، منگولیا، بھارت، ایران اور دیگر ملکوں کے راہ نماؤں کے علاوہ مبصر ممالک اور ’ڈائیلاگ پارٹرنر‘ بھی شرکت کر رہے ہیں۔
پاکستان نے اکتوبر 2023 میں کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک میں ہونے والے اجلاس میں سال 2023-24ء کے لیے سربراہان حکومت کی کونسل کی مسند سنبھالی تھی۔ اب شنگھائی تعاون تنظیم کی سربراہی روس کو سونپ دی گئی، یعنی اب روس ’ایس سی او‘ کی سربراہی 2025ء تک سنبھالے رہے گا۔
اسلام آباد میں جاری اجلاس کی افتتاحی بیٹھک سے وزیراعظم پاکستان شہبازشریف نے خیر مقدمی خطاب کرتے ہوئے تمام ممالک کے سربراہان کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ ’ایس سی او‘ سربراہ اجلاس کا انعقاد ہمارے لیے اعزاز ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ’ایس سی او‘ ممالک دنیا کی آبادی کا 40 فی صد ہیں، پائے دار ترقی کے لیے علاقائی تعاون اور روابط کا فروغ بہت ضروری ہے۔ آج کا یہ اہم اجلاس علاقائی تعاون بڑھانے کا اہم موقع فراہم کر رہا ہے۔ ہم نے اپنے لوگوں کو بہتر معیار زندگی اور سہولتیں فراہم کرنی ہیں، جس کے لیے دست یاب مواقع سے استفادہ کرنا ہوگا۔ ہمیں معاشی ترقی، استحکام اور خوش حالی کے لیے مل کر آگے بڑھنا ہوگا۔ ہم عالمی منظرنامے میں تبدیلی اور ارتقا کا سامنا کر رہے ہیں۔ موجودہ صورت حال اجتماعی اقدامات کی متقاضی ہے اور ہم نے اجتماعی دانش کو بروئے کار لاتے ہوئے آگے بڑھنا ہے۔ آج سیاحتی روابط، گرین ڈویلپمنٹ کے شعبوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
وزیراعظم نے معاشی تعاون کے لیے ’ایس سی او‘ ممالک کی نئی حکمت عملی پر غور کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اس وقت پوری دنیا پر مرتب ہو رہے ہیں، جب کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ 2022ء کے سیلاب سے پاکستان بری طرح متاثر ہوا اور لاکھوں لوگ کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہوئے، جب کہ لاکھوں ایکڑ زمین تباہ ہوگئی، جس سے ہماری زراعت متاثر ہوئی۔ سیلاب سے تباہی کے باعث معیشت کو بھی نقصان پہنچا۔ ایس سی او ممالک کو اس حوالے سے بھی بہتر حکمت عملی اپنے کی ضرورت ہے۔
وزیراعظم شہبازشریف افغانستان کے حوالے سے کہا کہ افغانستان علاقائی ترقی اور استحکام کے لیے بہت اہم ملک ہے، لیکن افغان سرزمین کا دہشت گردی کے لیے استعمال روکنا ہوگا، عالمی برادری افغانستان میں انسانی بنیادوں پر امداد پر توجہ دے۔ خطے کے ممالک میں ٹرانسپورٹ اور توانائی کے شعبوں میں تعاون کے بہت مواقع ہیں۔ پاکستان اقتصادی راہ داری کے دوسرے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے، علاقائی ترقی کے لیے بیلٹ اینڈ روڈ انتہائی اہم منصوبہ ہے۔
خطے سے غربت کے خاتمے کے لیے وزیراعظم نے اقدامات کو ترجیح دینے پر زور دیتے ہوئے کہا۔ غربت معاشی ہی نہیں بلکہ اخلاقی مسئلہ بھی ہے، لہٰذا غربت کے خاتمے کے لیے بنیادی وجوہات کے حل پر توجہ دینا ہوگی۔ ماحولیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے اجتماعی اقدامات ضروری ہیں۔
شہبازشریف نے توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ ’ایس سی او‘ ممالک دنیا کی آبادی کا 40 فی صد ہیں، پائیدار ترقی کے لیے علاقائی تعاون اور روابط کا فروغ ضروری ہے۔ معاشی ترقی، استحکام اور خوش حالی کے لیے مل کر آگے بڑھنا ہے، ہمیں اپنے لوگوں کو بہتر معیار زندگی اور سہولتیں فراہم کرنی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اجلاس میں سیرحاصل گفتگو کے دور رس نتائج ملیں گے، عالمی منظرنامے میں تبدیلی اور ارتقاء کا سامنا کر رہے ہیں، موجودہ صورتِ حال اجتماعی اقدامات کی متقاضی ہے۔ اجلاس رکن ممالک کے ساتھ تعلقات کے فروغ کا موقع فراہم کرے گا، ہمیں اجتماعی دانش کو بروئے کار لاتے ہوئے آگے بڑھنا ہے، پاکستان خطے میں امن و استحکام چاہتا ہے، تجارتی روابط کے فروغ کے لیے کاوشیں ضروری ہیں۔
وزیرِاعظم نے کہا کہ سیاحت، روابط، گرین بیلٹ کے شعبوں پر توجہ کی ضرورت ہے، غربت معاشی نہیں بلکہ اخلاقی مسئلہ بھی ہے، موسمیاتی تبدیلیوں سے درپیش خطرات چیلینج ہیں، مشترکہ مستقبل کے لیے اقتصادی استحکام ہماری ضرورت ہے، قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا۔
وزیرِ اعظم شہبازشریف نے جب مہمانوں کو خوش آمدید کہا، تو اس دوران بھارتی وزیرخارجہ جے شنکر اور وزیرِاعظم شہبازشریف کے درمیان مصافحہ اور خوش گوار جملوں کا تبادلہ ہوا۔ شہبازشریف نے اجلاس میں شرکت پر ان کا خیر مقدم کیا اور شنگھائی تعاون تنظیم کے اصولوں اور مقاصد کو آگے بڑھانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ مہمانوں نے ’ایس سی او‘ سربراہی اجلاس کے کام یاب انعقاد پر وزیرِاعظم شہبازشریف کو مبارک باد دی۔
شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی آمد نہ ہونا مایوس کن پہلو رہا، تاہم اس کے باوجود ان نمائندگی کرنے والے بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کو امن کے خواہاں حلقوں نے اہمیت دی ہے، اور یہ چاہا ہے کہ اسلام آباد آمد کا کوئی رخ دونوں ممالک کے درمیان خراب تعلقات کی بحالی کا نکلے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ بھارتی وزریر خارجہ جے شنکر نے پاکستان کو ’ایس سی او‘ کی صدارت سنبھالنے پر مبارک باد پیش کی اور کہا کہ بھارت نے اس صدارت کو کام یاب بنانے کے لیے اپنی مکمل حمایت فراہم کی ہے۔ انھوں نے اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک ایسے وقت میں مل رہے ہیں جب دنیا بھر میں حالات پیچیدہ ہیں، دو بڑے تنازعات جاری ہیں، جن کے عالمی اثرات مختلف ہیں۔ ’کوویڈ‘ نے ترقی پذیر ممالک کو سخت نقصان پہنچایا ہے، شدید موسمی واقعات، سپلائی چین کی غیریقینی صورتِ حال اور مالیاتی عدم استحکام ترقی کی راہ میں حائل ہیں۔ قرض کا بوجھ ایک سنگین مسئلہ ہے، دنیا پائے دار ترقی کے اہداف حاصل کرنے میں پیچھے ہے۔ اب دنیا کثیر قطبی نظام کی طرف بڑھ رہی ہے، عالم گیریت اور توازن ایسی حقیقتیں ہیں جن سے فرار ممکن نہیں، ان تبدیلیوں نے تجارت، سرمایہ کاری، رابطہ کاری اور دیگر تعاون کے شعبوں میں مواقع پیدا کیے ہیں، اگر ہم ان مواقع سے فائدہ اٹھائیں تو ہمارا خطہ بہت زیادہ ترقی کر سکتا ہے، نہ صرف ہم، بلکہ دوسرے بھی ہماری کاوشوں سے تحریک لے سکتے ہیں۔ ہمارا تعاون باہمی احترام اور خودمختاری کی برابری پر مبنی ہونا چاہیے، ہمیں ایک دوسرے کی علاقائی سالمیت اور خود مختاری کا احترام کرنا چاہیے، یہ تعاون حقیقی شراکت داری پر مبنی ہو، نہ کہ یک طرفہ ایجنڈوں پر، ترقی اور استحکام کا دارومدار امن پر ہے، امن کا مطلب دہشت گردی، انتہاپسندی اور علاحدگی پسندی کے خلاف سخت رویہ اختیار کرنا ہے۔
ایک طرف ہندوستانی مندوب نے پاکستان کو مبارک باد دی تو دوسری طرف معنی خیز انداز میں سرحدپار دہشت گردی کی بات بھی کر ڈالی اور کہا کہ اگر انتہا پسندی، علاحدگی پسندی جیسی سرگرمیاں جاری رہیں گی، تو تجارت اور عوامی سطح پر رابطے کا فروغ مشکل ہوجائے گا، سوچنا چاہیے حالات مختلف ہوں تو ہم کتنے بڑے فائدے حاصل کرسکتے ہیں، آج اسلام آباد میں ہمارے ایجنڈے سے ہمیں ان امکانات کی ایک جھلک ملتی ہے۔
وزیرخارجہ جے شنکر نے کہا کہ ہمارے عالمی اور قومی اقدامات ایس سی او کے لیے بہت اہم ہیں، بین الاقوامی سولر الائنس قابل تجدید توانائی کو فروغ دیتا ہے، مشن لائف ایک پائے دار طرز زندگی کی وکالت کرتا ہے، گلوبل بائیو فیول الائنس توانائی کے شعبے میں منتقلی کی کوششوں کو تسلیم کرتا ہے۔ انٹرنیشنل بگ کیٹ الائنس ہماری حیاتیاتی تنوع کی حفاظت کرتا ہے، ہم نے ڈیجیٹل انفرا اسٹرکچر اور خواتین کی قیادت میں ترقی کے اثرات کو کام یابی سے پیش کیا ہے، ہم سب اپنی اپنی جگہ پر کام کر رہے ہیں، لیکن عالمی نظام اپنے اجزا سے زیادہ بڑا ہے، جیسے جیسے دنیا بدل رہی ہے، عالمی اداروں کو بھی اسی رفتار سے خود کو بدلنا ہوگا۔ ’ایس سی او‘ دنیا میں تبدیلی لانے والی قوتوں کی نمائندگی کرتا ہے، دنیا ہم سے بڑی توقعات وابستہ کیے ہوئے ہے، آئیے ہم اپنی اس ذمے داری کو پورا کریں، رابطے کا فروغ نئی کارکردگی کو جنم دے سکتا ہے۔
’شنگھائی تعاون تنظیم‘ کے مہمانوں نے کانفرنس کے موقع پر پاکستانی حکومت کے انتظامات کو سراہا، مہمانوں کے اعزاز میں وزیرِاعظم ہاؤس میں عشائیہ بھی دیا گیا، میں چین، روس، تاجکستان، کرغزستان، قازقستان، بیلا روس اور ترکمانستان کے قائدین سمیت مہمانوں نے شرکت کی تھی۔ داخلی اور خارجی ماحول پر مختلف سنگینیوں سے نبرد آزما اور معاشی مسائل سے جھوجھتے ہوئے اسلام آباد میں ’شنگھائی تعاون تنظیم‘ کا اجلاس ہونا ہوا کا ایک خوش گوار جھونکا ہے، جس سے خارجی اور سفارتی محاذ پر دور رَس اثرات مرتب ہونے کی توقع ہے۔
[ad_2]
Source link