54

علمِ نجوم کی تاریخ – ایکسپریس اردو

[ad_1]

دنیا کی آبادی لگ بھگ ساڑھے 7ارب نفوس پر مشتمل ہے۔اس آبادی کا ایک بڑا حصہ علم نجوم کی صداقت کا قائل ہے۔یہ لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اجرامِ فلکی انسانی زندگیوں پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ یہ اجرامِ فلکی انسانی صحت،کیریئر وغیرہ بناتے اور بگاڑتے ہیں اور یہ کہ آسمان پر ستاروں کی پوزیشن زمین اور زمین پر رہنے والوں کے لیے بہت اہم ہے۔ہم میں سے ہر ایک کی نظر سے اخبار و جرائد میں زائچہ یا ہاروسکوپHoroscopeگزرا ہو گا۔اس زائچے کو آسمان پر ستاروں اور سیاروں کی چال دیکھ کر،اور فرد کی پیدائش کے وقت جنم کنڈلی کو سامنے رکھ کر بنایا جاتا ہے۔آسمان کی وسعتوں کو بہت پرانے زمانے سے کئی حصوں میں تقسیم کر لیا گیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اس علم کی شروعات بہت قدیم زمانے میں بابل و نینوا کی تہذیب سے ہوئی۔وہ لوگ اپنے زمانے کے ماہر ریاضی دان و فلکیات تھے۔یہ قدیمی زمانے کے لوگ خیال کرتے تھے کہ ستارے، سیارے اور تمام اجرامِ فلکی انسانی تقدیر کے حامل ہوتے ہیں۔انھوں نے آسمان کو جن حصوں میں تقسیم کیا،ان کو اردو،فارسی اور عربی میں برج کہا جاتا ہے جب کہ مغربی دنیا ان کو زوڈیکZodiacکے نام سے جانتی ہے۔زوڈیک کا لفظ Zooیعنی چڑیا گھر سے لیا گیا ہے کیونکہ ان برجوں کو جانوروں اور حشرات الارض کی شکل میں دکھایا جاتا ہے۔

علمِ نجوم کی تاریخ جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے،بہت پرانی ہے اور اسے دنیا کے قدیم ترین علوم میں شمار کیا جاتا ہے۔علم ِ نجوم کا مطلب ستاروں اور ان کی چال کا علم ہے۔یہ علم اسی حوالے سے ان ستاروں اور سیاروں کی گردش کے زمین کے رہنے والوں پر اثرات کو بتاتاہے۔علمِ نجوم کی تاریخ کی شروعات قدیم بابل و نینوا کی تہذیبوں میں سے بابل Babylonسے ہوئی جو موجودہ عراق کے علاقے میں واقع تھا۔آج سے تقریباً 5ہزار سال پہلے یعنی تین ہزار سال قبل مسیح میں بابل کے ماہرینِ فلکیات و ریاضی دانوں نے آسمان میں روشن ستاروں کی حرکات کا مشاہدہ کرنا شروع کیا اور اس مشاہدے کی بنیاد پر پیشین گوئیاں کرنی شروع کیں۔انسان ہمیشہ سے غیب اور مستقبل کو جاننے میں دلچسپی رکھتا رہا ہے۔

ستاروں کے مشاہدے کی بنیاد پر پیشین گوئیوں نے علمِ نجوم کو بہت اہم بنادیا۔بابلیوں نے ابتدا میں آسمان کو 18حصوں میں بانٹا لیکن جلد ہی انھیں احساس ہوا کہ آسمان کو 12حصوں میں تقسیم کرنا زیادہ مناسب رہے گا۔ ہر حصے کو برج،زائچہ کہا جانے لگا۔یہ تقسیم سورج کے path Ecliptic کو سامنے رکھ کر کی گئی۔سورج آسمان پر اپنے سفر کے دوران جو راستہ اختیار کرتا ہے اس کو ایک خیالی لائن مان کر Eclipticکہا جاتا ہے۔یہ ایک خیالی راستہ ہے ورنہ سورج زمین کے گرد نہیں بلکہ زمین سورج کے گرد اپنے مدار میں تیرتے ہوئے 365دن اور کچھ گھنٹوں میں ایک چکر مکمل کرتی ہے لیکن عمومی طور پر انسانی آنکھ سورج کو زمین کے گرد طلوع و غروب ہوتا اور زمین کو ساکن دیکھتی ہے۔

بابل کے لوگوں نے آسمان کو حصوں میں تقسیم کر کے ہر حصے کو کسی جانور یا حشرات الارض کا نام دیا۔دراصل رات کوستاروں کے جھرمٹ پر نگاہ ڈالی جائے تو ہر جھرمٹ کسی نہ کسی جانور کی شکل بناتا دکھائی دیتا ہے۔بابل والوں کو جھرمٹ جس شکل میں نظر آئے،اسی جانور کے نام پر برج منسوب کر دیا۔آسمان کے بارہ حصے اس لیے بنائے کیونکہ ایک مکمل گول دائرہ 360ڈگری ہوتا ہے اور اس کو 30ڈگری کے بارہ برجوں میں تقسیم کرنا زیادہ سہل تھا۔بابل کے لوگوں کا یہ فلکیاتی علم 3ہزار قبل مسیح سے500عیسوی تک یعنی ساڑھے تین ہزارسال نشوونما پاتا رہا۔

بابل تہذیب جب زوال پذیر ہوئی تو یہ علم بابل سے مصر منتقل ہو گیا جہاں قدیم مصری تہذیب میں اس علم کا مختلف شعبوں میں اہم کردار تھا۔ مصری نجومیوں نے سیاروں اور سورج کی حرکت کا مطالعہ کیا اور اپنے مشاہدات کی بنیاد پر زراعت یعنی فصلوں کی کاشت و کٹائی ،مذہبی رسومات اور تہواروں کا تعین کیا۔بابل سے مصر اور مصر سے علمِ نجوم 500قبل مسیح میں یونان منتقل ہوا۔یونانیوں نے جو علم انھیں ملا،اس کو جوں کا توں نہیں اپنایا بلکہ اس کو اپنی دیو مالا یعنی مائی تھالوجی،علمَ ریاضی اور علمِ فلکیات سے مرصع کر کے آگے بڑھایا۔اس سلسلے میں مشہور و معروف شخصیت ٹولمیPtolmyنے گراں قدر کام کیا۔

وہ اپنے زمانے کا ایک بہترین دماغ اور صاحبِ علم تھا۔ٹولمی نے دوسری صدی قبل مسیح میں اپنی کتاب ٹٹراببلوس tetrabiblos میں اپنی علمی کاوش کو مرتب کر کے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ ٹولمی کے کام نے ماڈرن مغربی علمِ فلکیات کی بنیاد رکھ دی۔زائچہ یا برجوں کی تقسیم ،ان سے منسوب جانوروں اور حشرات الارض کو آج جس شکل میں ہم جانتے ہیں،اس کی بنیاد یونان میں ٹولمی نے ہی رکھی۔یونانیوں نے ہر برج کو اپنی دیو مالائی دنیا کے کسی جانور کی شکل میں پیش کیا۔یونانیوں نے ہر برج کی جو خصوصیات متعین کیں وہ کم و بیش آج تک ویسے ہی چلی آ رہی ہیں۔ان میں کوئی بڑی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔200قبل مسیح سے 200 عیسوی تک یونانی علمِ نجوم نے موجودہ مصر کے ساحلی شہر سکندریہ میں نشوو نما پائی۔اس میں بابلی، مصری اور یونانی مشاہدات کی روشنی میں اس علم کو ایک جگہ مربوط کر دیا گیا۔

سکندریہ میں ہی اس کو Refineکر کے 12برجوں میں سے ہر برج کے مختلف گھر بنا دئے گئے۔یہی صورت آج بھی رائج ہے۔یونانی علمِ نجوم نے انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ زائچے یا ہاروسکوپ کو متعارف کروایا جس میں فرد کی جنم کنڈلی اور ستاروں کی حالیہ پوزیشن کی بنیاد پر اس فرد کی قسمت کے بارے میں پیشینگوئی کی جاتی ہے۔یونانی تہذیب نے زوال پکڑا تو یہ علم روم منتقل ہو گیا۔رومیوں نے یونانی علمِ نجوم کو ویسے تو جوں کا توں اختیار کر لیا البتہ یونانی ناموں کی جگہ رومن ناموں نے لے لی۔

ہندوستان کی تہذیب بہت پرانی ہے۔یہاں ہندوستان میں ویدک علمِ نجوم کی بنیاد بھی انھی خطوط پر ہوئی جن پر بابل میں اس علم نے فروغ پایا،البتہ تاریخی شواہد سے ایسا لگتا ہے کہ ویدک علمِ نجوم کسی دوسری تہذیب سے مکمل آزاد ڈویلپ ہوا۔ویدک علمِ نجوم کو جوتش کہتے ہیں۔یہ علم ہندو مت کے چاروں ویدوں کا ایک اہم حصہ ہے۔ بر صغیر میں یہ علم ہڑپہ اور موہنجو دڑو سے شروع ہوا۔چین میںیہ علم مقامی مشاہدات سے ابھرا۔Zhou سلطنت جو کہ 1046سے250قبل مسیح قائم رہی،کے دوران علم نجوم آگے بڑھا لیکن اس کو اصل ترقی Han dynasty میں ملی۔چینی فلاسفی میں آسمان ، زمین اورانسان کے درمیان ہم آہنگی بہت اہم اور مفید ہے۔چینی علم نجوم میں ایک بارہ سالہ چکر اہم ہوتا ہے جب کہ بارہ سالہ چکر کا ہر سال ایک جانور سے منسوب ہے۔مسلمانوں نے علمِ نجوم کے بجائے آسٹرو فزکس میں گراں قدر اضافہ کیا۔

قرونِ وسطیٰ میں یورپ کے علما خاص کرعلمِ نجوم کے ماہرین نے اسلامی دنیا کی کتابوں سے بہت استفادہ کیا اور اس علم کو خاصا فروغ دیا۔یورپ کی نشاۃِ ثانیہ کے دور میں نجومیات کو جدید خطوط پر استوار کیا گیا۔آج کے دور میںعلمِ نجوم کو عمومی طور پرسائنسی تحقیق کی جگہ علمِ فلکیات کے طور پر لیا جاتا ہے۔

تاہم روایتی علمِ نجوم اب بھی دنیا کے مختلف حصوں میں لوگوں کے ہاں بہت مقبول ہے اور مختلف تہذیبوں میں لوگ اس کا استعمال کر کے زائچوں اور برجوں کی مدد سے اپنی زندگی کے اہم فیصلے کرتے ہیں۔اردو زبان میں علمِ نجوم پر بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں،جن میں برجوں کی تفصیل،سیاروں کے اثرات اور انسانی زندگی میں ان کے عمل دخل کا بیان ہے۔اس طرح علمِ نجوم مختلف تہذیبوں میں ہزاروں سالوں سے پروان چڑھتا رہا ہے۔آج بھی کئی لوگوں خاص کر ہندو مت کے ماننے والوں کی زندگیوں میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں