49

سروں کی ملکہ، شمشاد بیگم ( آخری حصہ)

[ad_1]

1940ء سے لے کر 1960ء تک شمشاد بیگم نے بڑی اونچائیاں حاصل کیں، انھوں نے تمام بڑے گلوکاروں اور سنگیت کاروں کے ساتھ کام کیا۔ موسیقار اعظم نوشاد علی نے کہا کہ شمشاد بیگم میرا ساتھ نہ دیتیں تو میرا فلم انڈسٹری میں اپنا مقام بنانا مشکل ہو جاتا۔ شمشاد کی آواز فلموں کی کامیابی کی ضامن تھی، ان کی آواز میں ایک کھنک لوچ اور گہرائی ہے۔

ایک ایک لفظ کی ادائیگی اور تلفظ کا درست استعمال ان کی آواز کا خاص وصف تھا۔ انڈین فلم انڈسٹری میں سب سے مختلف آواز شمشاد بیگم کی تھی، جب وہ گاتی تھیں تو ایک ایک لفظ صاف اور واضح سنائی دیتا تھا۔ وہ غمگین اور خوشی کے گیت دونوں اس طرح گاتی تھیں جیسے یہ کیفیت ان پر خود گزر رہی ہو۔ کورس گانے میں بھی ان کی آواز صاف اور نکھری ہوئی ہوتی تھی۔ جیسے یہ گیت:

سیاں دل میں آنا رے موہے لے کے جانا رے

٭……٭

او گاڑی والے گاڑی دھیرے ہانک رے

جیا اڑا جائے لڑے آنکھ رے

٭……٭

لے کے پہلا پہلا پیار بھر کے آنکھوں میں خمار

جادو نگری سے آیا ہے کوئی جادوگر

٭……٭

چھوڑ بابل کا گھر موہے پی کے نگر آج جانا پڑا

٭……٭

ملتے ہی آنکھیں دل ہوا دیوانہ کسی کا

افسانہ میرا بن گیا افسانہ کسی کا

٭……٭

یہ گیت انھوں نے طلعت محمود کے ساتھ فلم بابل کے لیے گایا تھا۔

اوپی نیئر جن کے بارے میں مشہور ہے کہ انھوں نے کبھی لتا سے کوئی گیت نہیں گوایا، وہ بھی شمشاد بیگم کے بڑے مداح تھے۔ فلم ’’آر پار‘‘ کے سبھی گیت انھوں نے شمشاد بیگم سے گوائے مثلاً:

کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ

بوجھ میرا کیا ناؤ رے ندی کنارے گاؤں رے

پیپل جھومے مورے آنگنا ٹھنڈی ٹھنڈی چھاؤں رے

٭……٭

فلم ’’آرپار‘‘ اور فلم ’’سی آئی ڈی‘‘ کی کامیابی میں شمشاد بیگم کی آواز اور اوپی نیئر کی موسیقی کا بڑا ہاتھ ہے۔تمام بڑے بڑے موسیقاروں نے شمشاد بیگم کی آواز اور ان کی گائیکی کی تعریف کی ہے۔ ایس ڈی برمن نے کہا ’’جب شمشاد گاتی ہے تو سمے رک جاتا ہے۔‘‘ نوشاد صاحب کہتے ہیں کہ اگر شمشاد بیگم میرے گیت نہ گاتیں تو میرے لیے فلم انڈسٹری میں قدم جمانا مشکل ہو جاتا۔ اوپی نیئر جو لاہور سے ہی شمشاد بیگم سے واقف تھے اور ان کی گائیکی کے معترف بھی تھے اس لیے انھوں نے اور نوشاد صاحب نے شمشاد بیگم سے سب سے زیادہ گیت گوائے۔

کبھی آر کبھی پار لاگا تیرِ نظر

سیاں گھائل کیا رے تُو نے مورا جگر

٭……٭

ریشمی شلوار کُرتا جالی کا

روپ سہا نہیں جائے نخرے والی کا

(فلم نیادور، شمشاد اور آشا)

٭……٭

ہولی آئی رے کنہائی رنگ برسے

سنا دے ذرا بانسری

(فلم، مدر انڈیا)

٭……٭

اڑن کھٹولے پہ اڑ جاؤں

تیرے ہاتھ نہ آؤں

(شمشاد اور زیرہ بائی انبالے والی)

٭……٭

آگ لگی تن من میں دل کو پڑا تھامنا

رام جانے کب ہوگا سیاں جی کا سامنا

(فلم، آن)

٭……٭

ڈر نہ محبت کر لے، ڈر نہ محبت کر لے

الفت سے جھولی بھرلے دنیا ہے چار دن کی

جی لے چاہے مر لے

(شمشاد، لتا، فلم: انداز)

٭……٭

ہم درد کا افسانہ دنیا کو سنا دیں گے

ہر دل میں محبت کی آگ لگا دیں گے

(کورس۔ شمشاد)

٭……٭

غلام حیدر کہتے ہیں شمشاد کی آواز سب کچھ بھلا دیتی ہے۔ ان کی آواز میں ایک لوچ اور کھنک ہے جو کسی دوسرے گائیک میں نہیں۔ قدرت نے ایک ہی منفرد آواز والی گائیکہ پیدا کی تھی۔

شمشاد بیگم نے ہمیشہ اپنے والد سے کیا ہوا وعدہ پورا کیا، لیکن محبت کے معاملے میں انھوں نے کسی کی نہ سنی۔ ان کے پڑوس میں ایک وکیل رہا کرتے تھے جو گنپت لال وٹو کہلاتے تھے۔ انھوں نے 1934 میں ان سے شادی کی۔ ان کی ایک بیٹی ہے اوشا راترا۔ 1955 میں ان کے شوہر کا ایک ایکسیڈنٹ میں انتقال ہوگیا، یہ صدمہ بہت بڑا تھا۔ وہ بالکل ٹوٹ گئی تھیں۔ انھوں نے گانا ترک کردیا جب کہ وہ اس وقت اپنی شہرت کی اونچائیوں پر تھیں۔

ابتدائی دور میں لتا اور آشا سے کہا جاتا تھا کہ وہ شمشاد بیگم کی طرح گائیں۔ یہی وجہ ہے کہ 1944 سے لے کر 1956 تک لتا اور آشا کے گیتوں میں شمشاد بیگم کا عکس ہے لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا جب انھیں فلمیں ملنی بند ہوگئیں صرف چند موسیقار ہی ان سے گواتے تھے۔ اس کے پیچھے ایک سازش تھی اور اس سازش کی کرتا دھرتا دونوں مراٹھی بہنیں تھیں۔

یعنی لتا اور آشا نے موسیقاروں پر اثر ڈالنا شروع کر دیا تھا کہ وہ شمشاد کو گانے نہ دیں۔ ان دونوں بہنوں نے بہت سی گلوکاراؤں کا راستہ کھوٹا کیا ہے جن میں بھیم لتا، سدھاملہوترا، انورادھا پوڈوال، رونا لیلیٰ اور کئی گلوکارائیں ہیں۔ یہ دونوں بہنیں ایک طرح کا مافیا تھیں جو کسی نئی آواز کو سامنے نہیں آنے دیتی تھیں، لیکن شمشاد اپنے وقت کی بہت بڑی گائیکہ تھیں، انھوں نے رفیع، مکیش اور کشور کمار کے ساتھ بھی ڈوئیٹ گائے۔

تقدیر بنی، بن کر بگڑی

دنیا نے ہمیں برباد کیا

1940 میں مدن موہن اور کشور کمار بطور کورس بوائے شمشاد بیگم کے ساتھ گایا کرتے تھے، تب شمشاد نے مدن موہن سے وعدہ کیا کہ ’’جب تم بڑے موسیقار بن جاؤ گے تو میں تمہارے لیے گانا ضرور گاؤں گی اور فیس بھی آدھی لوں گی‘‘ اور کشور کمار سے کہا تھا کہ ’’اس کی آواز موسیقی کی دنیا میں ایک تاریخ رقم کردے گی۔‘‘

شمشاد بیگم نے 1965 کے بعد ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا تھا لیکن چند گنے چنے میوزک ڈائریکٹروں کے ساتھ وہ گاتی رہیں۔ آج بھی شمشاد بیگم کے گیتوں کا ری مکس بنایا جاتا ہے۔ شمشاد بیگم کو 2009 میں پدم بھوشن ایوارڈ سے نوازا گیا، ان کے علاوہ انھیں اوپی نیئر ایوارڈ بھی ملا۔

جب تک موسیقی کے شیدائی زندہ ہیں، شمشاد بیگم کی آواز زندہ رہے گی۔ ان کی مدھ بھری آواز میں ایک پاکیزگی اور جھرنوں کا شور ہے۔ کورس میں بھی ان کی آواز الگ ابھر کر آتی ہے۔ انھوں نے کسی سے بھی موسیقی کی تعلیم حاصل نہیں کی۔ بس یہ اللہ کی دین تھی کہ ان کا ستارہ ہمیشہ عروج پر رہا۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں