42

بالاتری تسلیم بھی تو کی جائے

[ad_1]

دنیا کی طرح پاکستان میں بھی تین اہم سرکاری اور چوتھا غیر سرکاری ستون ہے جو صحافت کہلاتا ہے جب کہ مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ سرکاری ستون ہے ۔ 1988 میں ملک میں جماعتی بنیادوں کے انتخابات سے ملک میں لولی لنگڑی جمہوریت قائم ہوئی تھی جو 1999 میں ختم کردی گئی مگر یہ ماننا پڑے گا کہ آمر کہلانے والے صدر نے ملک کو ضلعی حکومتوں کا وہ بااختیار نظام دیا تھا جو دنیا میں جمہوریت کی نرسری کہلاتا ہے جس کے ذریعے نہ صرف ملک میں جمہوریت فروغ پاتی ہے بلکہ اس نرسری سے جمہوری قیادت پروان چڑھتی ہے اور دنیا سمیت ان بلدیاتی اداروں کی سربراہی سے ترقی کرتے کرتے پاکستان میں بھی لوگ ملک کے اعلیٰ عہدوں پر اور دنیا کے کئی ممالک میں وہاں کی صدارت کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہوئے۔

صدر جنرل پرویز مشرف کے 2008ء میں اقتدار چھوڑے سولہ سال گزر چکے ہیں جس کے دوران چار اسمبلیوں نے مدت پوری کی اور ملک میں آمریت نہیں آئی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی دو حکومتوں نے اپنی مدت پوری کی تھی مگر 2018 میں غیر حقیقی طور اقتدار میں لائے جانے والے وزیر اعظم کی سیاسی انتقام کی کارروائیوں، آمرانہ اقدامات سے ان کی حکومت خود ان کی اپنی حماقتوں کے باعث آئینی طور پر تحریک اعتماد کے ذریعے ختم کی گئی تھی اور وہ واحد حکومت تھی جس کی ملک کی عدلیہ نے حمایت کی تھی ۔

چیف جسٹس افتخار چوہدری نے عدلیہ بحالی تحریک کے نتیجے میں بالاتری حاصل کی تھی جس کی پیپلز پارٹی مخالف تھی مگر نواز شریف نے پی پی حکومت کا ساتھ چھوڑ کر عدلیہ بحالی کے لیے مارچ شروع کیا تھا جس پر وزیر اعظم گیلانی نے معزول ججز بحال کیے تھے ۔بعدازاں وزیر اعظم گیلانی کو بھی اس لیے نااہل کر دیا گیا تھا کہ انھوں نے سپریم کورٹ کے حکم پر صدر آصف زرداری کے خلاف سوئز حکومت کو خط نہیں لکھا تھا۔

یہ عدلیہ کے سپریم بن جانے کی پہلی ابتدا تھی جس کے بعد انھوں نے پارلیمنٹ کی متفقہ طور منظور کرائی گئی اٹھارہویں ترمیم تسلیم نہیں کی تھی جو سپریم کہلانے والی پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر منظور کی تھیں مگر عدلیہ نے پارلیمنٹ کو 19 ویں ترمیم پر مجبور کیا تھا جس کے ذریعے پارلیمنٹ کی مقرر کردہ پارلیمانی پارٹی کو بے اختیار کرا دیا گیا تھا اور ججز کمیٹی کو مکمل فیصلے کا اختیار دلا کر پارلیمانی کمیٹی برائے نام رہ گئی تھی اور ججز کے فیصلے کے آگے بے بس بنا دی گئی تھی۔

سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے پارلیمنٹ کی بجائے سپریم کورٹ کو سپریم کر دیا تھا جس کے بعد سے ہر حکومت عدلیہ کے دباؤ میں رہی، آئین پارلیمنٹ کو سپریم قرار دیتا ہے۔ عدلیہ نیآمر صدر کو آئین میں ترمیم کرنے کا غیر آئینی اختیار بھی دے دیا تھا مگر بعد میں عدلیہ بحالی تحریک سے عدلیہ پارلیمنٹ پر حاوی ہو گئی تھی ۔ بعد میں آنے والے تین چیف جسٹس نے حکومت کے لیے مسائل پیدا نہیں کیے اور ریٹائر ہوگئے تھے مگر بعد میں ثاقب نثار نے عمران خان کی حمایت شروع کر دی تھی اور نواز شریف کے خلاف پانامہ میں ثبوت نہ ملنے پر اقامہ پر نااہل کرا دیا گیا تھا کہ انھوں نے دبئی میں اپنے بیٹے سے تنخواہ نہیں لی تھی جس پر سات سال بعد بھی نواز شریف پوچھ رہے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا تھا مگر انھیں جواب کون دے؟

2014 میں نواز حکومت کے خلاف عمران خان کے دھرنے کے دوران عدلیہ نے عمران خان کے راستے کی تمام رکاوٹیں ختم کر دی تھیں اور 2018 کے الیکشن میں ہونے والے عدالتی فیصلوں کا مکمل فائدہ عمران خان کو اور بڑا نقصان نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کو پہنچا تھا اور پی ٹی آئی کے حق میں فیصلے دیے گئے تھے۔

ماضی میں پارلیمنٹ کے فیصلوں کے خلاف حکم امتناع جاری ہوئے اور پارلیمنٹ کی بجائے خود عدلیہ سپریم بنی رہی۔ ملک کا آئین پارلیمنٹ کو سپریم اور بالاتر قرار دیتا ہے اور پارلیمنٹ کی بالاتری تسلیم شدہ ہے۔ پی ٹی آئی پارلیمنٹ کی بالاتری اب بھی نہیں مان رہی اور حکومت پارلیمنٹ کی بالاتری کی حقیقت تسلیم کرانے کی کوشش کر رہی ہے اور ایسی اصلاحات لانا چاہتی ہے جس سے عدلیہ میں سیاسی فیصلے نہ ہوں۔ برسوں سے محفوظ فیصلے جلد سنائے جا سکیں اور ججز کی تقرری سیاست کی بجائے اہلیت اور میرٹ پر ہو اگر ایسا ہو گیا تب ہی پارلیمنٹ حقیقی طور پر سپریم بن سکے گی اور بالاتر ہوگی۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں