[ad_1]
ہمارے ایک صحافی دوست بڑے جہان گشتہ اور خبردار آدمی ہیں ان کو ایسی ایسی باتوں کی بھی خبر رہتی ہے جو سات پردوں میں چھپی ہوئی ہوتی ہیں۔یا جنھیں کوئی آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا ہے۔ کہ(news) کا مطلب ہے نارتھ ایسٹ ویسٹ اور ساوتھ یعنی چاروں اطراف کی خبریں۔ لیکن صحافی دوست کو ہم اس سے بھی بڑھ کر’’شش جہات‘‘ کے’’خبردار‘‘ کہیں گے بلکہ بعض کالموں میں تو ان کے ایسا لگتا ہے جیسے ان کو ’’ساتویں جہت‘‘ کا بھی ادراک ہو۔اس ’’ساتویں جہت‘‘ کو سمجھنے کے لیے ہم مولانا روم سے رجوع کریں گے انھوں نے فرمایا ہے کہ
لعقل گوئد کہ شش جہات است وبیروں راہ نیست
عشق گوئد کہ راہ است ومن رفتہ ام بار ہا
ترجمہ۔عقل کہتی ہے کہ دنیا میں صرف چھ اطراف ہیں(آگے پیچھے دائیں بائیں اور اوپر نیچے) اور ان چھ اطراف کے علاوہ باہر کی طرف اور کوئی راستہ نہیں ہے لیکن ’’عشق‘‘ کہتا ہے کہ راستہ ہے اور ہیں اس پر بارہا آیا گیا ہوں۔اس ساتویں جہت کے بارے ہم زیادہ تفصیل میں تو نہیں جاسکیں گے لیکن اتنا بتادینا کافی ہے کہ’’ساتویں جہت‘‘ انسان خود ہے جو ان چھ جہتوں کے درمیان کھڑا ہے اور کہا جاتا ہے کہ جس نے ’’خود‘‘ کوپہچان لیا اس نے خدا کو بھی پہچان لیا۔مطلب ہمارا کہنے کا یہ ہے کہ صحافی دوست کو اس ساتویں جہت کا بھی ادراک ہے۔اور اکثر لوگوں کی اس ساتویں جہت کی بھی بات کرلیتے ہیں۔چنانچہ اس مرتبہ انھوں نے ہمیں ’’یویوہنی سنگھ‘‘ کے بارے میں بتایا ہے۔
یویوہنی سنگھ پڑوسی ملک کاایک ’’ریپر‘‘ہے ریپ یا ریپنگ گانے کی وہ قسم ہے جس کے ’’پاپ‘‘ کے سارے ’’پاپ‘‘ بھی دھوڈالتے ہیں ویسے اسے ’’گانا‘‘ کہنا تو بڑا ظلم ہے کیونکہ اس میں دنیا بھر کی ساری بکواس تو ہوتی ہے لیکن’’گانا‘‘ کہیں بھی نہیں ہوتا۔اس میں اکثر کتے کے بھونکنے کا سا تاثر ہوتا ہے۔کبھی کبھی ایک آدھ فقرہ ’’ترنم‘‘ میں ہوتا ہے اور بیچ بیچ میں کتا بھونکتا ہے اور دنیا میں مروجہ اخلاقیات،شرافت اور انسانیت پر بھنبھوڑتا رہتا ہے۔جیسے اس کا مشہور بھونک ہے
چار بوتل ووڈکا۔میرا خرچہ روز کا
پھر آگے بھونک بھونک کر عشق کو جنسی مصالحے ڈال کر جو پکوان اس نے پیش کیا ہے اسے سن کر انسانیت کو الٹیاں آنے لگتی ہے۔ایک مرتبہ ایک انٹرویو میں یویوہنی سنگھ نے کہا تھا کہ پرانی شاعری میں بھی تو یہی سب کچھ تھا لیکن شاعر اسے مصنوعی لباس پہنایا کرتے تھے۔اور میں سیدھے سبھاؤ بغیر وہ سب کچھ بتا دیا کرتا ہوں۔عشق کو مکس کرتا ہوں۔ صحافی دوست نے بتایا کہ اب یویوہنی سنگھ توبہ تائب ہوکر سادھو سنت بن گیا ہے اپنے ’’نئے‘‘ البم جگوری میں وہ مائل بہ تصوف ہوگیا ہے۔اسلام کا بھی مطالعہ کرنے لگا ہے۔ اس موقع پر ہم اس کے علاوہ کیا کہہ سکتے ہیں کہ
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پیشماں ہونا
اور آج ہمارے کالم کا اصل موضوع ایسے ہی ’’زود پشیماں‘‘ قاتلوں سے متعلق ہے۔یویوہنی سنگھ تو سادھو سنت بن گیا ہے لیکن اس نے انسانی معاشرے میں غلاظت کے جو گٹٹر بہائے ہیں شرافت کے منہ پر جو کس کس کے تھپڑ مارے ہیں انسانیت کو بیچ بازار میں ننگا کیا ہے اور نئی نسل کو منشیات، جنسیات اور بے راہروی کے جو بے شمار ’’تحفے‘‘ دیے ہیں ان کا کیا؟وہ زہر انسانی نسل کی رگوں میں پھیل چکا ہے کون سنبھالے گا؟ کہ چلی ہوئی گولی اور چلا ہوا تیر واپس نہیں آتا چاہے آپ بندق توڑدیں یا کمان کو پھول پہنادیں۔ٹھیک ہے ’’نوبل‘‘ نے اپنی دولت میں سے امن کا نوبل پرائز جاری کرکے اچھا کام کیا ہے لیکن اس سے ان لاکھوں کروڑوں لوگوں کی زندگیاں تو واپس نہیں آئیں گی جو اس کے ایجاد کردہ ڈائنامنٹ سے مرے ہیں مر رہے ہیں اور تاقیامت مرتے رہیں گے۔
بالمیکی ڈاکہ زنی چھوڑ کر رشی بن گیا اور اس نے رامائن لکھی۔ٹھیک ہے اچھا کیا۔لیکن ان لوگوں کے خاندانوں کی’’رامائن‘‘ کون لکھے گا جو اس کے ہاتھوں تباہ و برباد ہوگئے تھے۔یہ جو یویوہنی سنگھ کی ’’چیز‘‘ہے اس نے اپنے غلاظت سے ایک دنیا کو تباہ و برباد کیا۔نئی نسل کو بتایا ہے کہ انسان کاکام صرف جنس و منشیات ہیں باقی سب بکواس ہے۔
اب وہ سادھو سنت بن گیا ہے لیکن کیا واقعی یا یہ ایک مارکیٹ میں ’’کمائی‘‘ کے بعد دوسری مارکیٹ میں دکان کھولنا ہے۔’’بی بلی‘‘ جب سنچریاں مارکر’’حج‘‘ کو چلی تھی تو اس کا مقصد حج وغیرہ کچھ نہیں تھا بلکہ قویٰ مضمحل ہونے کی وجہ سے اب وہ دوڑ دھوپ نہیں کرسکتی تھی اس لیے چوہوں کو جمع کرکے تو’’سو‘‘ کو میلئن بنانا چاہتی تھی۔ یہ توبہ تائب لوگ سارے تو نہیں لیکن اکثر اندر سے وہی ہوتے ہیں صرف میدان اور لباس بدل لیتے ہیں۔راکھی ساونت بھی مسلمان ہوکر نمازیں پڑھنے لگی ہیں، مائیکل جیکسن کے بارے میں بھی پاکستانی اخباروں نے جلی حروف سے یہ خبر شائع کی تھی کہ وہ مسلمان ہوگیا ہماری ایک اور عقیقہ بھی یہاں اور پڑوسی ملک میں جھنڈے گاڑ کر آئی تو ایک مشہور مبلغ اسلام کے ہاتھوں توبہ تائب اور مشرف بہ نکاح ہوگئی تھی لیکن پھر کوئے یار سے نکل کر سوئے دار چلی گئی۔
دارصل انسان کے اندر سب سے طاقتور عامل’’میں‘‘ ہوتا ہے۔یہ وہی ’’میں‘‘ ہے جو ابلیس نے ایجاد کیا تھا۔اور یہی برتری انفرادیت اور منفرد ہونے کا’’میں‘‘ ہے جو انسان کو دیوانہ بنائے ہوئے ہے انسان چاہتا ہے وہ دوسروں سے سب سے ہر طرح سے منفرد ہوکر دوسروں سے بالاتر ہوجائے۔علمائے نفسیات بتاتے ہیں کہ انسان اپنی انفرادیت اپنی برتری اور اپنی اس’’میں‘‘ کے لیے اپنے بس یا استطاعت یا مواقع کے مطابق سرگرم ہوتا ہے اس ’’میں‘‘ کو حاصل کرنے کے لیے مختلف راستے اختیار کرتا ہے کوئی زیادہ دولت، زیادہ طاقت اور حکمرانی کے ذریعے اپنے اس ’’میں‘‘ کو تسکین دیتا ہے کوئی نیکی و پارسائی کا راستہ اپناتا ہے
زاہد نہ داشتہ مے وجامل پری رخان
گجے گرفت و یاد خدا رابہانہ شاخت
کچھ شاعر و صورت گر و افسانہ نویس بن جاتے ہیں۔کچھ ہر طرف سے مایوس ہوکر ٖغنڈے، بدمعاش قاتل اور خونخوار بن جاتے ہیں۔یہاں تک کہ کچھ لوگ جب کوئی بھی راستہ نہیں پاتے۔تو پاگل بن کر دوسروں سے خود کو ممتاز منفرد کرلیتے ہیں مبارک وہ لوگ ہیں جو’’میں‘‘ کی بجائے ’’ہم‘‘ ہوتے ہیں جس کا بانی مبانی’’آدم‘‘ تھا جب کہ ’’میں‘‘ کا علمبردار ابلیس تھا۔
[ad_2]
Source link