[ad_1]
لاہور میں طالبہ سے مبینہ زیادتی سے متعلق فیک نیوز پھیلا کر ہنگامے کرنے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ کا فل بینچ تشکیل دے دیا گیا۔
چیف جسٹس عالیہ نیلم فل بینچ کی سربراہی کریں گی جبکہ جسٹس فاروق حیدر اور جسٹس علی ضیا باجوہ فل بینچ کا حصہ ہوں گے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی فل بینچ 22اکتوبر کو سماعت کرے گا۔
لاہور ہائیکورٹ نے فیک نیوز پھیلا کر ہنگامے کرنے خلاف کیس کا تحریری حکم بھی جاری کر دیا جو کہ دو صفحات پر مشتمل ہے۔
تحریری حکم کے مطابق عدالت معاملے کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے فل بینچ تشکیل دیتی ہے، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے موقف اختیار کیا کہ فیک سوشل میڈیا مہم شروع کی گئی جبکہ زیادتی کا کوئی واقعہ نہیں ہوا اور آئی جی پنجاب نے رپورٹ جمع کروائی کہ اس حوالے سے انکوائری شروع کر دی ہے۔
آئی جی پنجاب نے بتایا کہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی شناخت کی گئی ہے اور ذمہ داران کو گرفتار کیا گیا ہے، آئی جی پنجاب نے بتایا کہ مجموعی طور پر 38 سوشل میڈیا اکاؤنٹس بلاک کر دیے گئے ہیں، آئی جی پنجاب نے تسلیم کیا کہ پولیس نے پنجاب یونیورسٹی طالبہ خودکشی کیس کو ذمہ داری سے ڈیل نہیں کیا، پولیس اس حوالے سے تحقیقات کر رہی ہے اور مکمل رپورٹ عدالت میں جمع کروائی جائے گی۔
تحریری حکم کے مطابق رجسٹرار لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی کی ہراسمنٹ کمیٹی کی رپورٹ غیر تسلی بخش ہے، رجسٹرار نے تسلیم کیا کہ عدالتی نوٹس کے بعد رپورٹ تیار کی گئی چونکہ یہ مسلہ سوشل میڈیا فیک نیوز اور طالبات سے جڑا ہوا ہے اس لیے پوری احتیاط سے ڈیل کرنا چاہیے، طالبات کی حفاظت اس عدالت کی اولین ذمہ داری ہے، تحقیقاتی ادارے کسی کو ہراساں کیے بغیر جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے تحقیقات مکمل کریں۔
ڈی جی ایف آئی اے عدالت میں ذاتی حیثیت میں پیش ہوں جبکہ ڈی جی ایف آئی اے نجی کالج، لاہور کالج اور پنجاب یونیورسٹی کے واقعات پر سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا جائزہ لے کر ایک رپورٹ جمع کروائیں۔ اگر ایف آئی اے نے طالب علموں سے کوئی بیان لینا ہے تو تو وہ بیان تعلیمی اداروں کی اتھارٹیز اور والدین کی موجودگی میں لیا جائے، طالب علموں کی مرضی کے بغیر ان سے کوئی بھی بیان نہیں لیا جا سکتا۔
تحریری حکم میں لکھا ہے کہ اگر کسی طالب علم کے پاس مذکورہ واقعات کے حوالے سے حقائق ہیں تو وہ ایف آئی اے یا دیگر اتھارٹیز سے رجوع کر سکتا ہے، ایف آئی اے اور دیگر اتھارٹیز پر لازم ہے کہ وہ طالب علموں کا بیان ریکارڈ کریں، یہ بات واضح کی جاتی ہے کہ کسی بھی شخص سے زبردستی بیان نہیں لیا جا سکتا۔
[ad_2]
Source link