[ad_1]
لاہور: کالج میں مبینہ طور پر طالبہ کے ساتھ پیش آنے والے واقعے سے متعلق تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی نے رپورٹ مرتب کرلی اور حکومت کو سوشل میڈیا پرفیک نیوز کی روک تھام کے لیے اقدامات کی سفارش کردی۔
طالبہ کے ساتھ پیش آنے والے مبینہ واقعے کی تحقیقاتی رپورٹ چیف سیکریٹری پنجاب، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب، سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری ہائیر ایجوکیشن، سیکریٹری اسپیشل ایجوکیشن نے مرتب کی ہے، جس میں سوشل میڈیا پر فیک نیوز کی روک تھام کی سفارش کے ساتھ ساتھ کہا گیا ہے کہ طالب علموں کو اپنے معاملات مثبت انداز میں لینے، منفی اور مثبت سرگرمیوں میں فرق کرنے کی ضرورت ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طالب علموں کو فیک نیوز فلٹر کرنے میں رہنمائی کی ضرورت ہے، والدین اپنے بچوں کا استحصال نہ ہونے دیں اور اس حوالے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعداد کار میں اضافے کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: فیک نیوز پھیلا کر ہنگامے کرنے کیخلاف لاہور ہائیکورٹ کا فل بینچ تشکیل
کمیٹی نے رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس واقعے سے فیک نیوز کے ذریعے اشتعال پھیلانا بھی ثابت ہوتا ہے، حکومت کو متاثرہ خاندان کی عزت کی بحالی کے لیے سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
کمیٹی نے سوشل میڈیا پر مبینہ واقعے پر نفرت انگیز معاملے کی مزید تفتیش کی سفارش کر دی ہے اور کہا کہ انفلوئنسرز اور وی لاگرز کو معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے سے روکاجائے، فیک نیوز پھیلانے کے لیے جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹس استعمال کیے گئے اور فیک نیوز کے ذریعے معصوم طالب علموں کو نشانہ بنایا گیا۔
مذکورہ واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ اس واقعے پر فیک نیوز کے ذریعے اشتعال پھیلانا بھی ثابت ہوتا ہے، حکومت کو متاثرہ خاندان کی عزت کی بحالی کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: طالبہ سے مبینہ زیادتی کیس، غلط معلومات پھیلانے والوں کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کا فیصلہ
چیف سیکریٹری پنجاب سمیت تمام افسران کے دستخط کے ساتھ مرتب کی گئی 9 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کمیٹی نے 15 اور 16 اکتوبر کو ریکارڈ کیے گئے 16 افراد کے بیانات کو اہم قرار دیا ہے، کمیٹی نے ڈی آئی جی آپریشنز لاہور فیصل کامران، اے ایس پی گلبرگ شاہ رخ خان، ڈسٹرکٹ ایمرجنسی افسر شاید وحید، جنرل اسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر فریاد حسین اور ڈی ایم ایس ڈاکٹر وقاص یاسین، ایور کیئر اسپتال کے کرنل ریٹائرڈ صابر حسین بھٹی اور اتفاق اسپتال کے واصف کے بیانات ریکارڈ کیے گئے۔
کمیٹی نے جنرل اسپتال کے عملے سے جنسی زیادتی سے متعلق آنے والے مریضوں سے متعلق بھی تفتیش کی۔
[ad_2]
Source link