[ad_1]
اسلام آباد میں جاری شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کا اجلاس 16 اکتوبر کو ختم ہوا، اس کا قیام 15 جون 2001 کو عمل میں لایا گیا تھا۔ اس کے بہت سارے مقاصد ہیں، اگر ہم اس بات کا تصور کریں ایک ایسا محفوظ راستہ روس، وسط ایشیائی ملکوں کو میسر آجائے جو پاکستان کی طرف آتا ہو، پاکستان کی بندرگاہ گوادر ہو یا کسی حد تک کراچی ہو، تو اس سے پاکستان کس قدر مستفید ہو سکتا ہے۔
مشترکہ اعلامیہ پر غور کریں تو اس میں ریلوے کے ذریعے نقل و حمل پر بھی زور دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ماسکو میں ایس سی او ریلوے ایڈمنسٹریشنز کے سربراہان کی میٹنگ کی پذیرائی جب کہ ریلوے صنعت میں جدید اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کے استعمال کی حمایت کی گئی ہے۔
ذرا تصورکریں جس طرح یورپ میں ریلوے کا نظام ہے جس سے پورا یورپ منسلک ہے، ہمیں اس بات کی جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ جس طرح گوادر ان کے لیے مفید اور عالمی تجارت کا ایک اہم ذریعہ ثابت ہوگا، کیا اس بات کی جانب توجہ نہیں دی جاسکتی کہ چترال کے بارڈر کے ساتھ افغانستان اور اس کے انتہائی قریب تاجکستان کی سرحد ہے، اگر ہم ریلوے اور روڈ، کسی شاہراہ یا موٹروے کے ذریعے خود کو وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ جوڑ سکتے ہیں تو اس سے پاکستان بہت زیادہ مستفید ہو سکتا ہے۔
سی ایس او اجلاس میں اس بات پر بھی زور دیا گیاہے کہ زرعی مصنوعات کی باہمی تجارت بڑھانے، خوراک کی حفاظت اور زراعت کے شعبے میں تعاون کو فروغ دیا جائے، اگر حکومت پاکستان اس بات کی کوشش کرے کہ زراعت، خوراک کی حفاظت سے متعلق تمام تر سرگرمیوں کا دفتر پاکستان میں ہو اور زراعت کی ترقی اور خوراک کی حفاظت کے لیے ان میں سے کئی ملکوں کے تجربات، ان کی ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھائے۔ پاکستان اب بھی بہت سی زرعی درآمدات کی خاطر دور دراز کے ملکوں سے رابطہ کرتا ہے۔
اگر ریلوے نظام ہو یا سڑک کے ذریعے اپنی کئی درآمدات ان ملکوں سے منگوا سکتا ہے۔ یہ سلسلہ ہم باہمی تجارتی معاہدوں کے ذریعے اس طرح آسان بنا سکتے ہیں کہ اول ڈالر سے پاک ہو اور دوم مال کے بدلے مال ہو۔ وسطی ایشیائی ممالک دنیا کے سرد خطے میں واقع ہیں۔ ان کو اپنی زندگی کی گزر بسر کے لیے لیدر پراڈکٹ کی زبردست ضرورت رہتی ہے۔ پاکستان اپنی ضرورت کا سامان ان سے درآمد کرے اور بدلے میں ان کے لیے ٹیکسٹائل اور لیدر پراڈکٹس فراہم کرسکتا ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم دنیا کے 40 فی صد سے زائد رقبے پر پھیلے ہوئے ملکوں کی تنظیم ہے۔ ان ملکوں کے عوام کو اپنا مستقبل اسی تنظیم میں تلاش کرنا پڑے گا اور آپس میں رابطے کو فروغ دینا ہوگا۔ 16 اکتوبر کے اجلاس میں یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ رابطے کے فروغ اور موثر ٹرانسپورٹ کوریڈور کی ترقی کے لیے تعاون اور ایس سی او رکن ممالک کے وزرائے ٹرانسپورٹ کے اجلاس کے نتائج کا اعتراف اور بین الاقوامی معاہدہ برائے بین الاقوامی نقل و حمل کی حمایت کی گئی ہے۔ اب پاکستان کس طرح سے ان معاملات سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، کیونکہ بنیادی اہمیت نقل و حمل کی ہے۔
پاکستان کی ان ملکوں تک باآسانی رسائی ہو تاکہ پاکستان اپنی مصنوعات کی برآمد کے لیے یہاں منڈی تلاش کرے اور سستے ذرایع سے اپنی برآمدات، مصنوعات کو ان ملکوں تک پہنچائے۔ اس خطے میں دیگر ممالک بھی ہیں جو پاکستان سے اس بات کی توقع کرتے ہیں کہ ان کے ملکوں اور پاکستان کے درمیان باہمی تعاون، روابط وغیرہ زیادہ تیز رفتاری سے تکمیل پائیں۔ 1964 میں پاکستان ایران اور ترکی نے آر سی ڈی کی تنظیم بنائی تھی جسے 1985 میں وسعت دے کر اکنامک کوآپریشن آرگنائزیشن کا نام دیا گیا 1992 میں 7 نئے ممبر ممالک کی تعداد بڑھائی گئی جس میں وسط ایشیا کے نوآزاد مسلم ممالک بھی شامل تھے۔
ان ملکوں کی نظریں پاکستان پر تھیں اور وہاں کے عوام نے اپنی ٹریڈ کی خاطر انفرادی طور پر پاکستان کا رخ کرنا شروع کر دیا تھا۔ لیکن بعد میں کچھ ایسے حالات ہوئے پاکستان کی مرکزی اہمیت کو ختم کر دیا گیا۔ باہمی رابطوں اور راستوں میں رکاوٹیں آگئیں، پاکستان کے لیے اب موقع ہے کہ ان تمام ملکوں کے ساتھ اپنے تجارتی اور باہمی رابطوں کو فروغ دے۔ اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو پہلے ہم دو قطبی نظام کے تحت دنیا کو دیکھ رہے تھے۔ پھر نیو ورلڈ آرڈر آیا، لیکن جیساکہ بعض حلقوں کی جانب سے اردو میں اسے ’’کثیر قطبی عالمی نظام‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔
یہ بالکل بہتر اور درست بات ہے۔ ہمیں اس جانب غور کرنا چاہیے کہ اس وقت بہت سے معاملات میں امریکا کی ہم سے دلچسپی نہیں ہے، لیکن ہماری کل ایکسپورٹ کا تین چوتھائی حصہ امریکا اور اس کے حلیف ملکوں کی طرف جاتا ہے۔ جلد یا بدیر ہمیں اس سے نکلنے کے لیے سی ایس او اور دیگر ممالک کی جانب توجہ دینا ہوگی۔ اجلاس کے موقع پر روس، تاجکستان، ازبکستان، بیلاروس، ایران، قازقستان، کرغزستان، پاکستان نے چین کے ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ اقدام کی حمایت کا اعادہ کیا ہے۔ روس کے وزیر اعظم کی سربراہی میں سب سے بڑا وفد اجلاس کے موقع پر پہنچا۔ پاکستانی حکام کو ان تعلقات کو مزید فروغ دینے کی اہمیت پر غور کرنا چاہیے۔ کسی وقت ملکی صنعت کی ریڑھ کی ہڈی اسٹیل مل ہوا کرتی تھی۔ آپ ایک مرتبہ روس سے اسٹیل مل کے لیے تعاون طلب کر کے دیکھیں، اگلے سربراہی اجلاس کی قیادت اب روس کو سونپی گئی ہے۔ سیاحت کے شعبے میں تعاون پر بات کی گئی ہے۔
لیکن جب تک ملک میں امن و امان کی صورت حال مکمل قابو میں نہیں آئے گی دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے پاکستان کا رخ کرنا کچھ مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ اس اجلاس میں ’’ مصنوعی ذہانت‘‘ کے ترقیاتی پروگرام کی عملی منصوبہ بندی کے لیے روڈ میپ کی منظوری کی مشترکہ کاوشوں کا خیرمقدم بھی کیا گیا۔ دنیا اس مصنوعی ذہانت میں بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ پاکستان کو اس ضمن میں ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے لیے یہ تنظیم انتہائی مفید اور کارآمد اسی وقت ہو سکتی ہے جب ہم اپنے تمام شعبوں کے لیے مکمل تیاری رکھیں، ہوم ورک مکمل ہو اور اس سے استفادے کے لیے ہر ممکن عملی اقدامات اٹھائیں۔
[ad_2]
Source link