[ad_1]
واشنگٹن میں ماؤنٹ ورنن ٹرائنگل پر آپ کو نیلے شیشوں والی ایک کثیر منزلہ عمارت بھی نمایاں نظر آئے گی۔بس یہی امریکن اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی ( ایپک ) کا ہیڈ کوارٹر ہے۔اگر ایپک کا شجرہ کھنگالا جائے تو اس کی دادی انیس سو انچاس میں قائم ہونے والی نو امریکی یہودی تنظیموں پر مشتمل امریکن زائیونسٹ کونسل ( اے زیڈ سی ) تھی۔اس کونسل کے ایک عہدیدار ایشایا کنعان بھی تھے۔
وہ اسرائیل کی پیدائش کے ابتدائی دنوں میں وہاں کی وزارتِ خارجہ میں بھی کام کر چکے تھے۔انھوں نے انیس سو چون میں اے زیڈ سی کے سیاسی لابنگ کے شعبے کو امریکن زائیونسٹ پبلک افیئرز کمیٹی ( اے زیڈ پی سی ) کے نام سے بطور ایک علیحدہ لابنگ تنظیم رجسٹر کروا لیا۔اس عاجلانہ تبدیلی کا پس منظر قتلِ عام کی ایک واردات تھی۔
ہوا یوں کہ اکتوبر انیس سو تریپن میں کرنل ایریل شیرون کی کمان میں اسرائیلی فوج کے یونٹ نے واپسی کی کوشش کرنے والے فلسطینیوں کو دھشت زدہ کرنے کے لیے سرحد پار غربِ اردن کے ایک گاؤں قبیہ میں گھس کے ستر سے زائد مکینوں کا قتلِ عام کیا۔ ان میں چالیس سے پینتالیس خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ پینتالیس گھروں ، اسکول اور مسجد کو بارود سے اڑا دیا گیا۔اس قتلِ عام کا جواز ایک اسرائیلی عورت اور اس کے دو بچوں کے قتل کو بنایا گیا۔
کرنل ایریل شیرون نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ ’’میں نے اپنے یونٹ کو ایک عبرت ناک مثال بنانے کی اجازت دی تاکہ عرب قبیہ کا حشر دیکھ کر کانوں کو ہاتھ لگائیں ‘‘۔
( ایریل شیرون جنرل کے عہدے سے ریٹائر ہونے کے بعد سیاست میں آئے اور وزیرِ دفاع، وزیرِ خارجہ اور وزیرِ اعظم بھی رہے۔وہ مینہم بیگن اور آئزک شمیر کے بعد تیسرے ایسے مستند دھشت گرد وزیرِ اعظم تھے جن کے ہاتھ فلسطینیوں کے خون سے براہ راست رنگے ہوئے تھے۔انیس سو بیاسی میں صابرہ اور شتیلا کا قتلِ عام آپ ہی کی نگرانی میں ہوا۔ یوں آپ نے بیروت کے قصاب کا خطاب پایا۔سن دو ہزار میں دوسرا انتفادہ بھی آپ ہی کی وزارتِ عظمی (دو ہزار تا دو ہزار چھ ) میں شروع ہوا جب آپ نے مسجد اقصی میں جوتوں سمیت گھس کے غصے کی آگ بھڑکا دی۔مقبوضہ مغربی کنارے کی یہودی بستیوں اور فلسطینی علاقوں کے درمیان کنکریٹ دیوار کھینچنے کا اعزاز بھی آپ ہی کو حاصل ہوا )۔
جب امریکا سمیت پوری دنیا اور اقوامِ متحدہ میں قبیہ کے قتلِ عام پر تھو تھو ہونے لگی اور صدر آئزن ہاور کی انتظامیہ نے اسرائیل کی اقتصادی امداد معطل کرنے اور امریکن زائیونسٹ کونسل پر لگنے والے اس الزام کی چھان بین کا ارادہ ظاہر کیا کہ یہ تنظیم ایک غیر ملکی حکومت ( اسرائیل ) سے مالی مدد لیتی ہے۔تو کونسل کی ذیلی تنظیم امریکن زائیونسٹ پبلک افیئرز کمیٹی نے خود کو تفتیش سے بچانے کے لیے امریکن اسرائیل پبلک افیرز کمیٹی (ایپک) کے نام سے رجسٹر کروا لیا۔نام کی تبدیلی کے پیچھے ایک حکمت یہ تھی کہ زائیونسٹ نام سے نسل پرستی کی نظریاتی بو آتی تھی جب کہ امریکن اسرائیل پبلک افیرز کمیٹی بظاہر ایک سیاسی لابی گروپ ہونے کا تاثر دیتا تھا۔اور پھر قبیہ کے قتلِ عام کے سبب اسرائیلی بدنامی کی شدت کم کرنا بھی مقصود تھا۔
چنانچہ ایپک نے ابتدا سے ہی یہ مصالحہ بیچنا شروع کیا کہ تمام عرب ممالک واحد یہودی مملکت کے خون کے پیاسے ہیں۔وہ یہودی جو پچھلے دو ہزار برس سے ہر طرح کا ظلم و ستم سہہ رہے ہیں اور ابھی چند برس پہلے ہی نازی جرمنی کی نسل کش پالیسی کا شکار ہوئے ہیں۔اسرائیل ایک سیکولر ریاست ہے اور انسانی آزادی سے متعلق مغربی اقدار کی علمبردار ہے اور آمرانہ تاریکی کے عرب سمندر میں جمہوریت کا روشن مینار ہے وغیرہ وغیرہ۔
انیس سو سڑسٹھ کی پانچ روزہ جنگ میں جب اسرائیل نے مصر ، اردن اور شام کی افواج کو ایک ساتھ شکست دے کے چار دانگِ عالم میں اپنی عسکری مہارت کا ڈنکا پٹوا لیا تو امریکی انتظامیہ نے بھی اب تک کی قدرے سرد مہر پالیسی ترک کر کے اسرائیل کو مشرقِ وسطی میں امریکی مفادات کی نگہبانی کرنے والے مسٹنڈے کے طور پر گود لے لیا۔
اس کے بعد سابق امریکی حکومتوں کے برعکس آج تک کسی امریکی انتظامیہ نے نہ تو اسرائیل کے خفیہ جوہری پروگرام پر ایک لفظ تشویش ظاہر کی اور نہ ہی اس پر دباؤ ڈالا کہ وہ مقبوضہ علاقوں میں بین الاقوامی قوانین کی کھلے عام دھجیاں نہ اڑائے۔
انیس سو سڑسٹھ کے بعد یہی سنہری وقت تھا جب ایپک نے کانگریس اور وائٹ ہاؤس سمیت تمام امریکی فیصلہ ساز اداروں پر منظم انداز میں ڈورے ڈالنے کے لیے ریاستی سطح سے وفاقی سطح تک ذیلی لابیوں کا جال بچھا دیا تاکہ آیندہ کوئی امریکی انتظامیہ کبھی بھی اسرائیل سے خصوصی تعلقات کو کسی اقتصادی ، سفارتی اور عسکری آزمائش میں نہ ڈالے اور اگر کوئی انتظامیہ اس بارے میں سوچے بھی تو کانگریس کے دونوں ایوانوں میں اسے شدید مزاحمت کا سامنا ہو۔
اس سفر میں امریکن ایوانجلیکل چرچ ایپک کا فطری ساتھی رہا ہے۔چرچ سے منسلک تنظیم کرسچن یونائیٹڈ فار اسرائیل کے سات ملین ارکان بتائے جاتے ہیں۔اگر یہ دونوں تنظیمیں اسرائیل دشمنی کے شبہے میں کسی صدارتی امیدوار ، سینیٹر یا ایوانِ نمایندگان کے رکن یا سینیٹ سے تقرری کی توثیق کے محتاج بیوروکریسی کے کسی عہدیدار کے پیچھے پڑ جائیں تو اس کا ٹکنا محال ہے۔
بقول سابق صدر جمی کارٹر ’’ آپ ایک بار اگر اپنے بل پر منتخب ہو بھی گئے تو دوسری بار طاقتور لابیوں کی تائید کے بغیر آپ کا منتخب ہونا معجزہ ہی ہو گا ‘‘۔
معروف امریکی صحافی اور اینکر جیفری گولڈ برگ کے بقول ایپک کے سابق عہدیدار سٹیون روزین نے اپنے گلے میں لٹکا ہوا نیپکن میز پر بچھاتے ہوئے کہا ’’ ہم ( ایپک ) چاہیں تو اس نیپکن پر چوبیس گھنٹے میں کم ازکم ستر ارکانِ کانگریس دستخط کر دیں گے‘‘۔
سرکردہ امریکی کالم نگار مائیکل میسنگ نے کانگریس کے ایک اہل کار کے حوالے سے بتایا کہ ’’ اس وقت ڈھائی سو سے تین سو ارکان وہی کریں گے جو ایپک چاہے ‘‘۔
ایپک امریکا کے ریاستی سے لے کے وفاقی سطح کے انتخابات میں حصہ لینے والے ایک ایک امیدوار سے رابطہ کرتی ہے۔اور ان پر بھی نگاہ رکھتی ہے جو مستقبل میں ڈیموکریٹ یا ریپبلیکن پلیٹ فارم سے انتخابی سیاست میں ابھرنے کا ارادہ یا صلاحیت رکھتے ہوں۔
دو ہزار اکیس سے لابی تنظیموں کو کسی بھی رکنِ کانگریس یا صدارتی امیدوار کو براہِ راست چندہ دینے کی قانونی اجازت مل گئی ہے۔چنانچہ ایپک نے ہر ریاست میں اپنی پولٹیکل ایکشن کمیٹیاں تشکیل دیں۔یہ کمیٹیاں دستخطی مہم کے ساتھ ساتھ امیدوار کے حق میں یا خلاف اشتہاری مہم بھی چلاتی ہیں۔
دو ہزار بائیس میں ایپک نے ہر سطح کے انتخابی عمل میں اپنے پسندیدہ امیدواروں کو جتوانے یا ناپسندیدگان کو شکست دینے کے لیے چھتیس ملین ڈالر خرچ کیے۔اس سال اس مد میں ایپک کا بجٹ ایک سو ملین ڈالر سے اوپر ہے۔یہ چندہ ایپک کے متعدد کروڑ پتی اور ارب پتی متمول ارکان بھی دیتے ہیں اور اسرائیل نواز ملٹی نیشنل کارپوریشنز بھی اس کارِ خیر میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں۔
ایپک اور اس کی ذیلی شاخوں کے کتنے ممبرز ہیں۔یہ فہرست کبھی جاری نہیں ہوتی۔مگر آنکڑا یہ ہے کہ ان کی تعداد پچیس سے تیس لاکھ کے درمیان ہے۔یہ سب کے سب یہودی نہیں البتہ اسرائیل نواز ضرور ہیں۔
ایپک کے سالانہ ڈنر میں کون ایسا معروف امریکی سیاستداں، عہدیدار، رکنِ کانگریس یا امیدواری کا خواہش مند ہے جو ایپک کے سالانہ ڈنر میں شریک نہ ہو۔کیونکہ ایپک سب کی ساتھی سب کی دوست ہے۔(جاری ہے)۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
[ad_2]
Source link