39

وزیر اعلیٰ سندھ کی اچھی روایت

[ad_1]

دانشور، ادیب، شاعر، سماجی اور سیاسی کارکن گزشتہ اتوار کو کراچی کے معروف علاقے صدر میں جمع ہو رہے تھے۔ یہ لوگ کراچی پریس کلب جانا چاہتے تھے تاکہ سندھ میں رواداری بھائی چارہ کی فضاء کو مستحکم کرنے کی کوششوں کو تقویت دی جائے مگر صدر کے علاقے کا عجیب منظر تھا۔ پولیس نے کراچی پریس کلب جانے والے راستے سیل کر دیے تھے۔

ایوانِ صدر روڈ اور گورنر ہاؤس سے کراچی پریس کلب جانے والی سڑک پر کنٹینر کھڑے کر دیے تھے۔ دوسری طرف زینب مارکیٹ سے کراچی پریس کلب کو جانے والی سڑک کو بھی کلب کے دروازہ کے ساتھ بسیں کھڑی کرکے بند کردیا گیا تھا۔ سندھ کے معروف دانشور جامی چانڈیو کی صاحبزادی رومیسا جو چند ماہ قبل ہی برطانیہ سے قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے واپس آئی تھی انھوں نے ریاست کی انسانی حقوق کی پاسداری کے بارے میں بہت کچھ پڑھا ہے۔

وہ جانتی ہیں کہ جمہوری ریاست میں شہریوں کو اپنی رائے کے اظہار کا مکمل حق ہوتا ہے اور جدید ریاست کا فریضہ شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا اور شہریوں کے بنیادی حقوق کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔ اپنے اس آدرش کے ساتھ رومیسا اپنے والد کے ساتھ رواداری مارچ میں شرکت کے لیے کراچی پریس کلب آئیں اور رومیسا اور کئی خواتین اور مردوں کو کراچی پریس کلب کے پچھلے دروازہ سے کلب میں داخل ہونے کا موقع مل گیا، یوں رومیسا سمیت بہت سی خواتین اور سیکڑوں نوجوانوں کو پریس کلب کے دروازے سے گزر کر باہر سڑک پر جمع ہونے کا موقع مل گیا۔

پولیس نے گورنر ہاؤس سے کراچی پریس کلب آنے والی سڑک کو پیدل چلنے والوں کے لیے کھول دیا تھا۔ اسی طرح پریس کلب کے سامنے خاصے لوگ جمع ہوئے۔ یہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ماورائے عدالت قتل ، ریاستی جبر اور سندھ میں آباد تمام برادریوں کے درمیان رواداری قائم کرنے جیسے اہم معاملات پر اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے خواہاں تھے مگر ان لوگوں کے پاس بینر اور پلے کارڈ نہیں تھے، یوں یہ ایک پرامن اجتماع تھا مگر پولیس کے اہداف کچھ اور تھے۔ اچانک پولیس والوں نے نعرے لگانے شروع کیے اور پرامن اجتماع کے شرکاء پر لاٹھی چارج شرو ع ہوا۔ رومیسا اور ان کی ساتھی خواتین اس دفعہ پولیس والوں کا خاص ہدف بنیں۔ لیڈیز پولیس کی کانسٹیبل نے خواتین کو گھسیٹ کر گرفتار کرنا شروع کردیا۔

رومیسا نے مزاحمت کی تو پولیس کی چار کانسٹیبل رومیسا کو سڑک پر ہاتھوں پیروں سے گھسیٹ کر پولیس وین تک لے گئیں۔ سندھ کے معروف دانشور جامی چانڈیو نے رومیسا کو پولیس کے تشدد سے بچانے کی کوشش کی تو ان پر بھی پولیس والے بل پڑے ۔ کئی صحافیوں نے پولیس والوں کو روکا اور پریس کلب میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والوں کو تنبیہ کی تو وہ بھی زیر حراست آگئے۔ پولیس نے کئی درجن افراد کو حراست میں لے لیا۔ بعض خواتین کو جن میں زہرہ خان وغیرہ شامل تھیں خواتین پولیس اسٹیشن منتقل کردیا گیا۔ پولیس کے لاٹھی چارج اور خواتین پر بیہمانہ تشدد کے مناظر سوشل میڈیا پر براہِ راست دکھائے جارہے تھے جب کہ ٹی وی چینلز نے یہ مناظر پوری دنیا تک پہنچا دیے۔

کچھ لوگوں نے جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں پیپلز پارٹی کی سابق چیئرپرسن بیگم نصرت بھٹو کی وہ تصاویر وائرل کیں جب ان پر لاہور پولیس نے فور ٹریس اسٹیڈیم میں داخلہ سے روکنے کے لیے ایسا ہی تشدد کیا تھا جیسا کراچی پریس کلب کے سامنے پولیس نے تشدد کا مظاہرہ کیا۔

بعض لوگوں نے آرکائیو سے تلاش کر کے جنرل ضیاء الحق کے دور میں لاہور میں مال روڈ پر خواتین ایکشن فورم کے دھرنے پر پولیس کے لاٹھی چارج کی تصاویر وائرل کیں۔ اس وقت عاصمہ جہانگیر اور حنا جیلانی وغیرہ نے جنرل ضیاء الحق کے نافذ کردہ قوانین کے خلاف یہ دھرنا دیا تھا اور عظیم شاعر حبیب جالب ان خواتین کو بچانے کے لیے آئے تو پولیس نے ان پر بھی لاٹھی چارج کیا تھا۔ کچھ اور لوگوں نے جنرل ضیاء الحق دور میں کراچی کے علاقہ لیاری میں پیپلز پارٹی کی خواتین کے مظاہرے کو منتشر کرنے کے لیے تشدد کا مظاہرہ کیا تھا۔ کچھ نے پرویز مشرف کے دور میں ایمرجنسی کے نفاذ کے خلاف کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاج کرنے والے صحافیوں پر پولیس نے زبردست لاٹھی چارج کیا تھا۔ پولیس کے لاٹھی چارج سے سینئر صحافی احفاظ الرحمن اور شمیم الرحمن وغیرہ زخمی ہوگئے تھے۔

ان صحافیوں پر تشدد کی تصاویر پوری دنیا میں وائرل ہوئی تھیں۔ اس صورتحال نے اسلام آباد میں موجود پیپلز پارٹی کی قیادت کو مشکل میں ڈال دیا تھا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے بصیرت کا ثبوت دیا۔ اعلیٰ حکام نے فوری طور پر ہدایات جاری کی گئیں کہ تمام گرفتار افراد کو فوری طور پر رہا کیا جائے، یوں اندھیرا ہونے پر گرفتار ہونے والے افراد کو رہا کردیا گیا مگر پورے پاکستان میں نہتے کارکنوں پر پولیس کے تشدد کی مذمت ہونے لگی۔

انسانی حقوق کمیشن HRCP کے لاہور سے جاری ہونے والے بیان میں اس واقعے کو پولیس گردی قرار دیا اور مطالبہ کیا گیا کہ محض گرفتار افراد کی رہائی کافی نہیں بلکہ پورے واقعے کی اعلیٰ سطح عدالتی تحقیقات ہونے کا مطالبہ کیا۔ صحافیوں کی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور کراچی یونین آف جرنلسٹس نے پیشہ ورانہ فرائض دینے والے صحافیوں پر تشدد کو آزادئ صحافت پر ایک اور حملہ قرار دیا۔ قومی اور سندھ کے انسانی حقوق کمیشن نے اس واقعے کو انسانیت پر حملہ قرار دیا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے صورت حال کی سنگینی کو محسوس کیا۔ پہلے سینیٹر شیری رحمن نے اپنے ٹیوٹر میں خواتین پر پولیس کے تشدد پر معذرت طلب کی۔

دوسرے دن سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے جامی چانڈیو اور دیگر متاثرہ افراد کو ٹیلی فون کیا اور حکومت سندھ کی طرف سے پولیس کے تشدد کی مذمت کی گئی اور اس معاملے کی تحقیقات کا اعلان کیا۔ سندھ کے انسپکٹر جنرل پولیس نے اس واقعے میں ملوث سب انسپکٹر پولیس، سپاہیوں اور خواتین کانسٹیبلز کو فوری طور پر معطل کیا۔ یہ اس ملک کی پہلی روایت ہے کہ حکمران جماعت کے عہدیداروں نے پولیس کے تشدد کی مذمت کی اور ان قوتوں کے خاتمے کا عزم کیا جنھوں نے یہ خطرناک صورتحال پیدا کی ہے۔ ایک اور خطرناک صورتحال یہ پیدا ہوئی ہے کہ مرد پولیس والوں نے خواتین کو گھسیٹا اور پولیس والوں نے خاص طور پر قاضی خضر ،جامی چانڈیو، سیف سمیجو، بخشل ٹھلو وغیرہ کو ٹارگٹ کیا۔ سینئر صحافی سہیل سانگی کہتے ہیں کہ وزیر اعلٰی سندھ کا معافی مانگنا مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ پولیس فورس میں موجود انتہا پسند عناصر کے خلاف کارروائی زیادہ ضروری ہے۔

پولیس کا تشدد ریاست کا پرانا ہتھیار ہے۔ ریاستی حکمران مزاحمتی تحریکوں کو کچلنے کے لیے ہمیشہ پولیس فورس کو استعمال کرتے رہے ہیں جس کی بناء پر کہا جانے لگا کہ پولیس اپنے حقیقی اہداف سے دور چلی گئی ہے اور اس کا کام غریبوں کو لوٹنا اور ریاستی جبر کے خلاف جانے والے افراد کو متاثرکرنا ہے، یوں معاشرہ میں اس کے منفی اثرات سامنے آرہے ہیں۔

بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ یہ کیسی صورتحال ہے کہ ایک طرف پولیس میں انتہا پسند عناصر طاقتور ہورہے ہیں تو دوسری طرف پولیس کی رشوت کا ریٹ بھی بڑھ گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے سول سوسائٹی کے اراکین پر پولیس تشدد کے واقعے پر معذرت کر کے ایک نئی مثال قائم کی ہے ۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں