56

اسرائیلی جارحیت، عالمی جنگ کا پیش خیمہ

[ad_1]

اسرائیل صرف غزہ، فلسطین اور لبنان پر حملہ آور نہیں ہے وہ یمن اور شام میں بھی اپنے اہداف پر حملے کر رہا ہے۔

اسرائیل صرف غزہ، فلسطین اور لبنان پر حملہ آور نہیں ہے وہ یمن اور شام میں بھی اپنے اہداف پر حملے کر رہا ہے۔

اسرائیلی فضائی حملے میں حماس کے نئے سربراہ یحییٰ سنوار شہید ہوگئے، جب کہ جبالیہ کیمپ کے پناہ گزین اسکول پر حملے میں خواتین اور بچوں سمیت اٹھائیس فلسطینی شہید اور 160 زخمی ہوگئے۔ امریکی خبررساں اداروں نے اسرائیلی ذرایع کے حوالے سے بتایا کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ایران پر جوابی حملے کے اہداف کی منظوری دے دی۔

اسرائیل صرف غزہ، فلسطین اور لبنان پر حملہ آور نہیں ہے وہ یمن اور شام میں بھی اپنے اہداف پر حملے کر رہا ہے۔ یرغمالیوں کی واپسی کے لیے حالات سازگار بنانے کے بجائے نیتن یاہو جنگ کو وسعت دے کر اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ ایک سال سے انتہائی درجے کی خوفناک بمباری اور جنگ کے باوجود وہ ایک ہدف بھی حاصل نہ کرسکا۔ حماس جیسی ایک چھوٹی سی ملیشیا کو ختم کرنے اور اہل غزہ کی جنگی استعداد کو زمین بوس کرنے میں وہ بے بس نظر آتا ہے۔ رہی یرغمالیوں کی بازیابی اس کا بھی کہیں دور دور تک امکان نہیں۔ جب کہ اسرائیل میں اس کی مقبولیت ناقابل بیان حد تک پستی کو چھو رہی ہے۔ وہاں عوام احتجاج اور مظاہروں کے ساتھ اس کے خلاف سڑکوں پر ہیں۔ اس جنگ میں ناکامی کی صورت میں مقدمات کی بھرمار اور سزائیں نیتن یاہو کا مقدر ہوں گی۔ لبنان کے خلاف حملوں میں اسے اپنے مسائل کا حل نظر آتا ہے۔

اسرائیلی حملے میں حماس کے نئے سربراہ کی موت اور کچھ دن قبل حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ کی شہادت سے خطہ سیاسی اور عسکری کشیدگی کے ایک نئے اور خطرناک مرحلے میں داخل ہو رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اتنی بڑی کارروائی کرنے کے بعد اسرائیل پر کوئی خبط سا سوار ہو گیا ہو اور اسے یہ نشہ سا محسوس ہو رہا ہو کہ وہ کامیاب ہوگیا، مگر کسی ریاست کی کامیابی کا یہ معیار آج تک قرار نہیں پایا کہ وہ ہمہ وقت جنگ میں رہے۔ جنگی جہازوں سے اپنے آس پاس بم گراتی رہے، ہمسایوں پر ٹینک چڑھاتی رہے اور دنیا بھر میں پھیلے اپنے شہریوں کو خطرات میں مبتلا کرتی رہے۔

یہ سب کچھ کر کے اسرائیل اور اس کا نیتن یاہو ایک دو سال تو کسی غلط فہمی یا نشے میں رہ کر خوش رہ سکتے ہیں۔ اس صورت حال کے ملکوں کی داخلی پالیسیوں اور ان کے اتحادیوں پر دور رس نتائج مرتب ہونے کے قوی امکانات دکھائی دیتے ہیں۔ یہ اہم واقعہ خطے کے سیاسی، عسکری اور سیکیورٹی منظر نامے میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کا باعث بن سکتا ہے، جو آگے چل کر علاقائی اتحادوں اور تنازعات کے نقشوں میں تبدیلی کا موجب بھی ہو سکتا ہے۔ اسرائیلی حملے حماس اور حزب اللہ کے سربراہوں کی زندگی کے خاتمے کا ہی باعث نہیں بنے بلکہ اس سے فریقین کے مابین مقابلے کے قواعد و ضوابط بھی تبدیل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس ہائی پرو فائل قتل سے پیدا ہونے والے مضمرات کے ڈانڈے ایک جامع علاقائی جنگ سے ملتے دکھائی دے رہے ہیں۔

دو ڈھائی برس ہی تو گزرے ہیں جب روس نے یوکرین پر فوج کشی کی تھی تب پورا یورپ روس کی مذمت میں ڈوب گیا تھا۔ سرحدوں کی حرمت کی دہائی دی جانے لگی۔ ایک خود مختار ملک کے خلاف جارحیت ناقابل برداشت قرار دی گئی۔ عالمی قوانین فرط جذبات سے دہرائے جانے لگے لیکن اب جب کہ مشرق وسطیٰ میں معاملہ فلسطین اور لبنان کا آیا ہے تو پورا مغرب منافقت کی ملمع کاری سے بوجھل اور جامد نظر آرہا ہے۔ دو ہفتوں کی شدید بمباری کے بعد یکم اکتوبر سے یہودی وجود نے لبنان کی سرحد عبور کرکے فوج کشی کا آغاز کردیا ہے لیکن وہ عالمی برادری جو دراصل یورپی ممالک کا ہی پرتو ہے اسے ایک محدود حملہ قرار دے رہی ہے جسے اسرائیل کے حق دفاع کے عین مطابق کہا جارہا ہے۔

یہودیوں کے فلسطین کی سرزمین پر قبضہ کرنے کے خلاف پچھلے سال 7 اکتوبر کو جب حماس نے اہل غزہ کے ایسے ہی حق دفاع کا استعمال کیا تھا تو اسے جارحیت قرار دیا گیا تھا جس کے جواب میں اب تک اسرائیل ہزاروں افراد کو شہید و زخمی اور لاکھوں کو بے گھر کرچکا ہے۔ پورے غزہ کو ایک میدان میں تبدیل کردیا گیا ہے جہاں کسی عمارت کا وجود باقی نہیں ہے لیکن سب گوارا ہے۔

فلسطین میں یہودی وجود ایک مصنوعی خیال تھا، ایک بدترین بات، ایک ظالمانہ سیاسی چال۔ یورپ نے یہودیوں کے بوجھ سے نجات حاصل کرنے اور ان کے وجود سے منسلک تمام شیطانی پیچیدگیوں اور ناقابل برداشت مسائل کو عربوں پر ٹھونستے ہوئے ایک ایسے خطے میں منتقل کردیا جسے یورپی مقاصد نے ان کا وطن بنانے کا تہیہ کررکھا تھا۔ اسرائیلی جارحیت اور امریکی حمایت ایک ایسا معاملہ ہے جس میں کسی منصفانہ اخلاقی پہلو کا گزر نہیں۔ لبنان میں جنگ بندی کے تمام تر امریکی دعوؤں کے باوجود اسرائیل کو یقین تھا کہ لبنان میں پیش قدمی کے موقعے پر امریکا اس کا معاون اور ہم قدم ہوگا۔

وائٹ ہاؤس سیکیورٹی کونسل کے ترجمان کے مطابق ’’(لبنان میں) فوج کشی اسرائیل کے حق دفاع کے عین مطابق ہے جس کا مقصد (اسرائیلی) عوام کا تحفظ اور عوام کی اپنے گھروں کو واپسی یقینی بنانا ہے۔ ہم حزب اللہ اور تمام ایرانی پشت پناہیوں کے حامل دہشت گرد گروہوں کے خلاف اسرائیل کے حق دفاع کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔‘‘حزب اللہ کے خلاف اسرائیل کے پاس معلومات کے ذخیرے موجود تھے جن کو استعمال میں لاکر اس نے حزب اللہ کی قیادت کو اڑا کر رکھ دیا۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ نیتن یاہو ایران کو اس جنگ میں ملوث کرنا چا ہتا ہے۔

تہران میں حماس کے قائد اسماعیل ہنیہ کی شہادت ایران کو جنگ میں گھسیٹنے کی ایک کوشش تھی، جس کے بعد اسرائیل کو امید تھی کہ ایران علانیہ جنگ میں کود پڑے گا، پھر امریکا یہودی وجود کے ساتھ ساتھ ایران پر حملہ کرنے کے لیے مجبور ہوگا۔ اس سے جنگ وسیع ہوکر علاقائی جنگ کی صورت اختیار کرلے، یہودیوں کو اس کی کوئی پروا نہیں۔فلسطین، یمن، لبنان، عراق اور شام میں ایران کا اثر و رسوخ موجود ہے۔ اسرائیل اس اثر و رسوخ کو اپنے لیے خطرہ محسوس کرتا ہے، ایرانی جوہری اور عسکری تنصیبات کی تباہی بھی اس کا ہدف ہے۔ ایران موجودہ صورتحال میں اسرائیل کے خلاف تصادم سے گریزاں ہے، تاہم اسرائیل اب ایران کو اس مقام پر لے آیا ہے کہ اگر وہ اسرائیل کی دہشت گردی کا جواب نہیں دیتا تو اس کے بھرم اور ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔ اسرائیل کو جواب دینے میں ہی کسی بھی ایرانی حکومت کی ساکھ پوشیدہ ہے۔

اسرائیل کے عسکری بجٹ کا سالانہ 10 فی صد امریکا ادا کرتا ہے۔ جنگی حالات میں امریکا کی اسرائیل کو یہ امداد اربوں ڈالر کی فراہمی تک جا پہنچتی ہے۔ اس سال کے آغاز ہی میں امریکا نے اسرائیل کو آٹھ ارب ڈالر کا امدادی پیکیج دیا ہے۔ یہودی وجود کے پاس اپنے وسائل کہیں موجود ہی نہیں ہیں کہ وہ اپنی طاقت سے جنگیں لڑ سکے۔ یہ امریکا ہے جو اسرائیل کی جنگیں لڑتا آیا ہے۔

کوئی بھی امریکی صدر ہو وہ امریکی ہتھیار، اسلحہ، پیسہ اور ہر طرح کی حفاظتی گارنٹی اسرائیل کو دیتا آیا ہے لیکن ایک علاقائی جنگ کا امریکا بھی متحمل نہیں ہوسکتا جس کی اسے ایک بہت بھاری قیمت چکانی پڑے گی جب کہ یوکرین جنگ میں بھی وہ پھنسا ہوا ہے۔عرب خطے میں دیگر قوتیں بھی میدان میں کودتی نظر آرہی ہیں۔ چین نے ایران اور سعودی عرب کو قریب لانے اور ان کے درمیان معاہدہ کرانے میں جو کردار ادا کیا جس میں امریکا کو یکسر فراموش کردیا گیا دو دہائیوں پہلے اس کا سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔

عرب ممالک ہوں یا ایران وہ طویل عرصے سے مغربی سازشوں کا سامنا کررہے ہیں۔ نیتن یاہو کو کنٹرول کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ امریکی حکومت کی جانب سے غزہ میں انسانی المیے کے لیے مسلسل بڑھتے ’’خدشات‘‘ ایک منافقانہ پردہ داری ہیں۔ انھیں غزہ میں قتل ہوئے ہزاروں معصوموں کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ وہ اس سے زیادہ سنگین جرائم کے مرتکب رہے ہیں، لیکن انھیں اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کے دیوہیکل نقصانات پر شدید خدشہ ہے۔ ایک طرف جاری جنگ خطے میں موجود دیگر امریکی اتحادی ریاستوں کے لیے مسلسل بڑھتا خطرہ بن چکی ہے۔ دوسری طرف پورے خطے میں ایک وسیع جنگ امریکی سامراج کو تقریباً تنہا کر دے گی اور عالمی معیشت کو تباہ و برباد کر دے گی۔

سعودی عرب، مصر اور اردن جیسی علاقائی قوتیں بھی اس جنگ سے پریشان ہیں کہ ان کے عوام میں اشتعال مسلسل بڑھ رہا ہے اور محنت کشوں اور نوجوانوں کا غم و غصہ بے قابو ہو رہا ہے۔ اس تمام کھلواڑ کی ایک بھاری قیمت ہے۔ خطے میں امریکی اثر و رسوخ شدید مجروح ہوا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ خطے اور دیگر دنیا کے عوام میں سامراج مخالف جذبات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔

جنگی شدت میں اضافے سے نیتن یاہو کو فائدہ ہے، لیکن اس کے ساتھ انتشار اور یہ خطرہ بھی بڑھتا جا رہا ہے کہ پورا مشرق وسطیٰ اس جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے جس کے غیر متوقع نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ اس سارے عمل کا سدباب نام نہاد عالمی کمیونٹی کی منافقانہ امن اپیلوں یا اقوام متحدہ کی اسرائیلی جنگی جرائم کے حوالے سے کھوکھلی سرزنشوں سے نہیں ہو سکتا۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں