[ad_1]
اللہ تعالیٰ کی یہ بھی سنت رہی ہے کہ جب وہ کسی قوم کی بدعملی کو اس قوم کا شمار سمجھ لیتا ہے تو پھر اسے اس کے دشمنوں کے حوالے کردیتا ہے جو وہ اسے اس طرح نوچ نوچ کر کھاتے ہیں جیسے گدھ مردہ جانوروں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔
آج مسلم امہ کا یہی حال ہے کہ دشمن اس پر ٹوٹ پڑا ہے۔ اسرائیل غزہ کے ایک معمولی سے حصے پر قابض ہے اور پچھلے ایک سال سے وہ لگاتار غزہ کے مسلمانوں پر حملہ کرتا رہا ہے۔ غزہ کے اسکول ہوں یا شفا خانے، غزہ کے لٹے پٹے خاندانوں کی پناہ گاہیں ہوں یا یتیم بچوں کی رہائش گاہیں کوئی ان کی بمباری سے بچا نہیں۔ وہ نہ صرف اہل غزہ کی نسل کشی کر رہا ہے بلکہ ایسے جنگی جرائم میں ملوث ہے جو اقوام متحدہ کے چارٹر اور اس کے اصول و ضوابط ہی کے خلاف نہیں بلکہ انسانی ضمیر کو جھنجھوڑنے والے ہیں۔
مسلم ممالک کو خیر جانے ہی دیجیے کیونکہ اپنی نقاہت اور کمزوری کے باعث وہ اسرائیل کی دست درازیوں یا انسانیت دشمنی کے خلاف آواز بھی بلند نہیں کر سکتے،کیونکہ وہ بھی اسی امت کا حصہ ہے جسے اللہ نے اپنی مشیت کے مطابق دشمن کے آگے پھینک دیا ہے۔
اس وقت دنیا میں کوئی ستاون مسلم ممالک ہیں مگر کسی ملک سے اسرائیل کی خباثتوں کا مقابلہ تو دورکی بات ہے اس کی مخالفت میں آواز بلند کرنے کی توفیق نہیں ہوئی، وہ آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں اور خوف زدہ ہیں کہ کہیں دشمن سے ٹکراؤ نہ ہو جائے۔
ایران اور لبنان نے اہل غزہ کی حمایت عملاً کرنا چاہیے اب وہ بھی برے نتائج بھگت رہے ہیں۔ مسلم ممالک میں پاکستان اور ترکی ایسے ملک ہو سکتے تھے جو اہل غزہ کی حمایت میں کسی قدر عملی قدم اٹھا سکتے تھے مگر انھوں نے بھی بعد از وقت صرف اسرائیلی اقدامات کے خلاف نرم سے بیانات دے کر انگلی کٹا کر شہیدوں میں شامل ہو گئے۔
اس صورت حال کا اصل سبب ان ستاون مسلم ممالک سے پوشیدہ نہیں ہے۔ وہ جانتے ہیں اسرائیل میں یہ سکت نہیں کہ وہ اہل غزہ ہی کو مکمل تباہ کرنے کے اپنے منصوبے پر عمل کرسکے بلکہ اس پردہ زنگاری کے پیچھے جو معشوق چھپا بیٹھا ہے اسرائیل کی جان اسی کی مٹھی میں ہے اور دراصل وہی مسلم دنیا کا اصل دشمن ہے۔
بعض ممالک تو شاید اصل دشمن سے واقف بھی ہیں مگر زیادہ تر یہ جاننے کے باوجود کہ اصل دشمن کون ہے خاموشی ہی میں عافیت سمجھتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ اسلامی ممالک بلکہ مسلم ممالک اپنے اصل دشمن سے شناسائی کے بعد اس کی گداگری ترک کر کے مسلم ممالک کی کوئی ایسی موثر تنظیم بنائیں جو ان کے باہمی مسائل کو بھی باہمی مشورے سے حل کرسکے اور امریکی امداد سے بے نیاز ہو کر دنیا کی سیاست میں اپنا رول ادا کرسکے۔
ایران نے جب اسرائیل پر بمباری کی تو جو ملک سب سے پہلے متحرک ہوا امریکا تھا۔ اس نے اسرائیلی بمباری کے خلاف کبھی کبھی انتہائی نرم اور مشفقانہ انداز میں اسرائیل کو جنگ بندی کا مصنوعی مشورہ دیا اور بس، مگر ایران کے عملی اقدام کرتے ہی اسرائیل کی مدد کے لیے اپنے خزانوں کے منہ اور ہتھیاروں کے خزانے کھول کر رکھ دیے۔
یہ امریکی اثر و رسوخ کا اثر ہے کہ پورا یورپ اپنی ’’ لادینی جمہوریت‘‘ کا لبادہ اتار کر محض عیسائی بن کر رہ گیا ہے اور ایران اور مسلم امہ کے خلاف نبرد آزما ہونے کو تیار ہے، اگرچہ کہا جاتا ہے کہ ایران نے کئی سو راکٹ برسائے مگر اسرائیل جو ایک ننھی سی مملکت ہے اسے کوئی نقصان ہی نہیں پہنچا۔ مگر اسرائیل بہ بانگ دہل ایران سے بدلہ لینے کا اعلان کر رہا ہے اور اس اعلان میں بھی اسے عیسائی دنیا کی حمایت حاصل ہے، ورنہ چہ پدی چہ پدی کا شوربا۔
اب صورتحال یہ ہے کہ اسرائیل اہل غزہ کو تباہ و برباد کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا ہے، ایک سال ہوگیا کہ اہل غزہ کے سر پر چھت ہے نہ پیٹ میں کھانا۔
تازہ ترین خبر یہ ہے کہ اسرائیل نے غزہ اور لبنان ( اس کی ناپسندیدہ حرکات کے باعث) پر بمباری کردی ہے، جس کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت 23 افراد شہید ہوئے، بازاروں پر، خیموں پر بارود کی بارش کی گئی، متعدد فلسطینی زندہ جل گئے، اسی خون ریز دن حزب اللہ کے حملے میں 4 اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے اور 6 زخمی۔ اور یہ تعداد اسی انداز میں پچھلے دنوں رہی ہے۔ گویا خون مسلم ارزاں ہو کر رہ گیا ہے اور یہود اس قدر قیمتی ہیں کہ کسی بھی حملے میں چھ یا سات سے زیادہ جہنم آشنا نہیں ہوتے۔
اقوام متحدہ کا قیام جن مقاصد کے لیے ہوا تھا وہ کہاں گئے؟ یورپ کی لادینیت کدھر ہے اور امریکا کا عالمی طاقت بننے کا کیا فائدہ، جب وہ مفسدانہ جنگ کو نہ رکوا سکے۔
[ad_2]
Source link