45

دوسروں کی بیٹیاں – ایکسپریس اردو

[ad_1]

وہ ہمارے گھر کے گیٹ کے باہر کھڑے تھے، ان کے قریب ہی موٹر سائیکل بھی کھڑی تھی۔ ان میں ایک مرد، ایک عورت اور ایک بارہ تیرہ برس کی معصوم سی لڑکی تھی، ایسا نہیں لگتا تھا کہ وہ اس علاقے کے مکین ہیں اور نہ ہی ایسا لگ رہا تھا کہ ان کے کوئی رشتہ دار اس علاقے میں رہتے ہوں گے۔ وقت بھی ایسا نہیں تھا کہ لگے وہ کسی کے گھر کام کرنے کے لیے آئے ہیں، جیسے کہ وہ اپنے حلیے سے لگ رہے تھے، اس وقت تک تو کام کرنے والے واپس جا رہے ہوتے ہیں ۔ خواہ مخواہ میں دائیں بائیں دیکھتے ہوئے میں نے جائزہ لیا اور سوچا کہ ان سے پوچھ ہی لوں،ایسا نہ ہو کہ کوئی مشکوک لوگ ہوں۔

’’ کون ہو آپ لوگ بیٹا؟‘‘ میںنے ذرا سوال کیا تو وہ تینوں چونکے۔

’’ باجی دس نمبر گھر کون سا ہے؟‘‘ اس عورت نے جوابی سوال کیا۔

’’ نمبر سے پہلے گلی یا لین بتاؤ‘‘

’’ لین تو یہی ہے جی لیکن دس نمبر گھر کی سمجھ نہیں آ رہی ہے کیونکہ کچھ گھروں پر نمبر نہیں لکھے ہوئے ہیں۔‘‘عورت کا لہجہ مہذب تھا۔’’ وہ سامنے والی طرف پانچواں گھر ہے۔‘‘ میںنے اشارہ کردیااور پوچھا ’’ کس سے ملنا ہے ؟‘‘’’ یہ جی اپنی بچی کو چھوڑنا ہے، ملازمت کے لیے۔‘‘ اس نے جواب دیا۔’’ بچی تو ابھی بہت کم عمر ہے، یہ کیا کام کرے گی؟‘‘ میںنے کہا۔

’’ چھوٹی نہیں ہے جی، تیرہ سال کی ہے۔‘‘ لیکن بچی اس عمر سے کہیں چھوٹی لگ رہی تھی۔ ’’ یہ بس صاحب اور بی بی کا چھوٹا بچہ سنبھالے گی، باقی کاموں کے لیے الگ ملازم ہے۔‘‘ خاتوں نے بتایا کہ اس کا شوہر اینٹیں بنانے والے بھٹے پر کام کرتا ہے، بھٹہ مالک ہر مہینے راشن کے لیے کچھ رقم دیتا اور باقی تنخواہ قرض کی ادائیگی کی مد میں کاٹ لیتا ہے۔ بیٹا اس بیٹی سے چھوٹا اور اسکول جاتاہے، بیٹی بھی پہلے اسکول جاتی تھی مگر اب نہیںجاتی، بیٹا بھی بہت مشکل سے اسکول جاتاہے کیونکہ اسکول بہت دور ہے۔ میں خود بھی کہیں کام پر جاتی ہے اور اب بیٹی کو بھی اسی لیے ان کے ہاں چھوڑنے آئی تھی کہ غریب آدمی کی ضروریات اسے مجبور کر دیتی ہیں۔میں اس بچی کو دیکھ کر حیران رہ گئی، اس عمر کی ہماری بچیاں گڑیوں اور کھلونوں سے کھیلتی ہیں۔

مجھے اس بچی کے چہرے میں وہ یاسیت نظرآئی جو ان والدین کو نظر نہیں آ سکتی تھی کیونکہ ان کی آنکھوں پر اس وقت غربت اور قرض کی پٹی بندھی ہوئی تھی۔ یہ بچی بھی ایسی بہت سی بچیوں جیسی ایک بچی بن جائے گی جو اپنے گھر چھوڑ کرایلس ان ونڈر لینڈ، جیسی بن جاتی ہیں۔ اسے اس گھر کی ہر چیز انوکھی لگے گی، جہاں چھوٹے سے کرسٹل کے گلدان کی قیمت اتنی ہو گی کہ اس کے والدین کے گھر میں مہینے بھر سے زیادہ کا راشن آ سکتا ہو گا۔ اسے وہاں ایسا کھانا کھانے کو مل جائے گا جو وہ اپنے والدین کے گھر میں شاید نہ کھاسکتی ہو گی، اپنے بچے کو صاف ستھری میڈ فراہم کرنے کی خاطر، اس کے نئے مالکان اسے اچھا لباس دیں گے، نہانے دھونے کے لیے خوبصورت باتھ روم ، مہنگے صابن اور عطر وغیرہ مل جائیں جب کہ سونے کے لیے صاف ستھرا کمرہ اور بیڈمل جائے گا۔ مالکان کے بچے کو بہلانے کے لیے جو مہنگے کھلونے ہوں گے، وہ بھی ان کھلونوں دیکھ اور ان سے کھیل سکے گی جنھیں وہ خوابوں میں بھی نہیں چھو سکتی ہو گی۔

مالکان کے بچے کے کمرے میں بڑی سی اسکرین والا ٹیلی وژن ہو گا جس پر و ہ بچہ کارٹون دیکھے گا تو وہ بچی بھی دیکھ سکے گی، جہاں بھی اس بچے کے والدین کو جانا ہو گا، وہ ان کے ساتھ ساتھ اس بڑی سی گاڑی میں بیٹھ کر جایا کرے گی جو گرمیوں میں ٹھنڈی اور سردیوں میں اندر سے گرم ہوتی ہے اور اس کی نشستیں کتنی نرم ہوتی ہیں، اسے کسی نہ کسی بات پر مالکوں سے ڈانٹ پڑے گی اور ملازموں کا رویہ جانے اس کے ساتھ کیسا ہو گا مگرپھر بھی اس گھر کا آرام ایسا ہو گا کہ اسے وہ سب کچھ برا نہیں لگے گا۔ اپنے والدین اور اکلوتے پیارے بھائی سے دور تو رہے گی مگر اسے وقت ہی نہیں ملے گا کہ وہ اس بارے میں سوچے، جب وہ اپنے مالکوں کے ساتھ کسی پارٹی میںجائے گی تو وہ پارٹی میں مصروف ہوں گے اور یہ بچی ان کے بچے کو لے لے کر گھومے گی تا کہ اس بچے کی ماں پارٹی سے صحیح لطف اندوز ہو سکے، سب لوگ ارد گرد اچھے اچھے کھانے کھا رہے ہوں گے اور یہ حسرت سے ا نہیں دیکھا کرے گی، اس طبقے میں ملازمین کو انسان کم ہی سمجھا جاتا ہے۔

جب وہ کسی ریستوران میں کھانا کھانے جایا کریں گے یا کسی شادی میں جائیں گے تو یہ بچی، ان کا بچہ اٹھا کر ریستوران کے داخلی دروازے کے پاس ایک بنچ پر بیٹھ کر ارد گرد اٹھتی ہوئی خوشبوؤں سے ہی اپنی بھوک مٹایا کرے گی۔ شادی بیاہ میں آنکھیں کھول کھول کر دیکھا کرے گی ، ایسے چہرے، ایسے لباس، ایسی خوشبوئیں اور ایسے ایسے کھانے… وہ سب کچھ صرف دیکھ سکے گی، اسے وہ کھانا نہیں ملے گا جو باقی لوگ کھا رہے ہوں گے، نہ ہی اس کا لبا س باقیوں جیسا ہو گا۔ اپنے حلیے سے ہی وہ ملازمہ لگ رہی ہو گی، لوگ اس کی طرف پہلی نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھیں گے، وہ چاہے ہر کسی کو دیکھ دیکھ کر سراہ رہی ہو مگر اسے کوئی سراہے گا نہیں، مالکان بھی کبھی اس کے شکر گزار نہیں ہوں گے، جنھیں تنخواہ دی جاتی ہے، ان کا شکریہ ادا نہیں کیا جاتا۔

جس دن ان کا بچہ بڑا ہو جائے گا، اس بچی کی ضرورت نہیں رہے گی تو اسے کسی نہ کسی طرح گھر سے نکال دیا جائے گا، اس کے کام میں کوئی نقص نکال دیا جائے گا یا اس پر کوئی ایسا الزام لگ جائے گا کہ جس کی صفائی میں اس کے پاس کچھ نہیں ہو گا۔ ممکن ہے کہ اس گھر میں بات بے بات اس پر ذہنی اور جسمانی تشدد کیا جائے، ہمارے ارد گرد ایسا کئی بار ہوا ہے، ہو رہا ہے اورہوتا رہے گا مگر ظاہر ہے کہ مالک آخر مالک ہوتا ہے۔ سائیں کا تو کتا بھی سائیں ہوتا ہے۔ اس بچی کے ساتھ کسی طرح کی بھی زیادتی ہو جائے تو وہ منہ نہیںکھول سکے گی، منہ کھولے گی تو خود ہی پھنسے گی، یہی ہوتا ہے… جھوٹا تو ہمیشہ غریب ہی ہوتا ہے نا۔

وہ مجھ سے پتا پوچھ کر، اس گھر کے اندر جانے کب سے جا چکے تھے اور میں اسی جگہ پر کھڑی ان کی بچی کے مستقبل کے بھیانک نقشے کھینچتی ہوئی پریشان ہوتی رہی۔ لوگ اپنی بیٹیوں کو انسان نہیں سمجھتے، جن کا قتل تک جائز ہوتا ہے ۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں