40

زباں فہمی نمبر227؛ سبزی خور یا شاکا ہاری

[ad_1]

زباں فہمی نمبر227؛ سبزی خور یا شاکا ہاری از سہیل احمد صدیقی (فوٹو : ایکسپریس)

زباں فہمی نمبر227؛ سبزی خور یا شاکا ہاری از سہیل احمد صدیقی (فوٹو : ایکسپریس)

 کراچی: خاکسار کی صحافت میں آمد بذریعہ تحقیقی مضامین (1985ء میں) اور اَدب میں آمد بذریعہ تراجم (1990ء میں) ہوئی۔ ایک طویل مدت تک شوقیہ یا کبھی کسی بزرگ کی فرمائش پر فرینچ، اِنگریزی، فارسی اور سندھی سے براہ ِراست تراجم (نثرونظم) کیے، دریں اثناء متعدد دیگر غیرملکی زبانوں کا ادب بھی اِنگریزی ہی کے توسط سے اردومیں منتقل کیا۔

اس باب میں میرے بعض’سلسلے‘ نہ صرف بزرگ معاصرین نے پسندکیے بلکہ باقاعدہ کتاب کی شکل میں منضبط کرنے کا مشورہ بھی دیا، مثلاً نوبیل انعام (Nobel Prize) یافتہ اہل قلم (خصوصاً نوبیل انعام برائے ادب یافتہ) کے تعارفی مضامین، مگر مجھے معاشی جدوجہد اور دیگر نجی مسائل نے اتنی مہلت ہی نہ دی اور دیکھتے ہی دیکھتے، لاہور سے اس موضوع پر اوّلین کتاب مرتب وشایع ہوگئی۔

اسی طرح دوسرا اہم موضوع تھا، ’دیسی‘ امریکی ادب (غلط العام وغلط العوام: ریڈ اِنڈین امریکی ادب۔یہ نام ’دیسی امریکی‘ خاکسارہی نے وضع کیا تھا) سے انتخاب بذریعہ تراجم۔اس جہت میں اردوکا دامن خالی تھا، سو بندے نے اپنی جیب سے اچھی خاصی رقم خرچ کرکے ضخیم کتب خریدیں، تراجم کیے اور شایع کرائے۔

ڈاکٹر فہیم اعظمی، مدیر ماہنامہ صریر نے بہت اصرارکیا کہ یہ بہت اہم کام ہے اور آپ جلد اس موضوع پر کتاب بھی مرتب کرسکتے ہیں۔وہی ہوا کہ ہم نے تو فقط مضامین ِ نثرونظم ترجمہ کیے، اُدھر لاہور سے کئی سال بعد کسی صاحب نے اپنے تراجم کی کتاب بھی شایع کروالی۔

بہرکیف، یہ کوئی ایسی بات نہیں جس سے ہرکوئی مرعوب ہویا مترجم کی مساعی سرا ہے۔ ہاں، جب جب کسی غیرملکی انعام یا اعزاز کی بات ہوتی ہے تو نوبیل برائے ادب کے انتخاب پر تقریباً ہمیشہ کڑی تنقید ہوتی ہے۔

اِمسال نوبیل برائے ادب کی حق دار قرارپائی ہیں جنوبی کوریا کی مصنفہ محترمہ ہان کانگ(Han Kang)جن کی کتاب The Vegetarian(سبزی خور) کو نوبیل انعام کی بنیاد ٹھہرایا گیا۔

2007ء میں منظرِعام پرآنے والا، تین حصص پرمبنی، اُن کا یہ ناول شعری انداز کی نثر میں لکھا ہوا ہے اور اِس کی بناء اُن کا 1997ء میں شایع ہونے والاافسانہ “The Fruit of My Woman”ہے۔ سوئیڈش اکادمی نے خبرجاری کرتے ہوئے مصنفہ کی شان میں یوں مدح سرائی کی؛
“for her intense poetic prose that confronts historical traumas and exposes the fragility of human life”.
اب ترجمہ کرکے اصل عبارت کا حُسن متأثر نہیں کرنا چاہتا۔ حَظ اُٹھائیے۔
1970ء میں جنوبی کوریا کے شہر گوانگ چُو (Gwangju:یہاں حرف Jکی آواز ’چے‘ ہے: س اص)میں پیداہونے والی ہان کانگ صاحبہ خوش قسمت ہیں کہ اُن کی ’نثرِ لطیف‘ کو اِس قابل سمجھا گیا، ورنہ اگر ہمارے یہاں کوئی ایسا انعام یا اعزاز ہوتا تو نثری نظم والوں کی باری بمشکل ہی آتی۔

اس نوبیل کے اعلان سے نثری نظم کے جواز اور عدم جواز کی پرانی بحث بھی زندہ ہوگئی ہے۔ موصوفہ کے والدHan Seung-won بھی اپنے ملک کے نامی ادیب اور ایک جامعہ Chosun Universityمیں معلم ہیں۔اُنھیں ادب، فنونِ لطیفہ خصوصاً مُوسیقی سے لگاؤ ورثے میں ملا۔

ہان کانگ کے متعلق معلومات انٹرنیٹ پر بہ آسانی دستیاب ہیں۔میرے بزرگ معاصر ڈاکٹر اَحمد سہیل (مقیم امریکا) کے مضمون سے معلوم ہواکہ”ہان کانگ کا خاندان 1980 کی گوانگ جو(گوانگچو صحیح ہے: س ا ص)بغاوت سے چند ماہ قبل سیؤل (سؤ ل صحیح ہے: س ا ص)منتقل ہو گیا تھا، لیکن اس واقعے کے پرتشدد سیاسی جبر نے اس کی تحریر پر دیرپا اثر چھوڑا۔

اس کا کام اکثر صدمے اور بقا کے موضوعات کی عکاسی کرتا ہے جو جنوبی کوریا کی حالیہ تاریخ کو گھیرے ہوئے ہیں۔جوان ہوکر ہان کانگ کو یہ محسوس ہوا کہ وہ ادبی موضوعات سے گھِری ہوئی ہیں۔ ان کے والد، ہان سیونگ ون، ایک ناول نگار تھے، اور ہان کو چھوٹی عمر میں ہی پڑھنے کا شوق پیدا ہوا۔ وہ خاص طور پر روسی مصنفین جیسے دوستوفسکی اور پاسٹرناک کے ساتھ ساتھ کورین مصنفین جیسے کانگ سو چیون اور ما ہیے گانے سے متاثر تھیں۔

راقم کو یہ دیکھ کر شدید صدمہ ہواکہ نوبیل انعام یافتہ ناول The Vegetarian کا اردو ترجمہ ”شاکاہاری” کے نام سے کیا گیا جو ظاہر ہے کہ اُردوکے لیے کوئی مانوس عنوان نہیں۔ اس نام کا سیدھا سا ترجمہ ’سبزی خور‘ مترجم خاتون کو معلوم نہ تھا، یا شاید اُنھوں نے یہ سمجھ کر ہندی لفظ چُنا ہوکہ اِس سے لوگ مرعوب ہوں گے۔

یہاں موضوع سے متعلق اپنی، محترم فیس بک دوست جناب زیب سندھی سے ہونے والی گفتگو، افادہ عام کے لیے نقل کررہاہوں۔سائیں کی سندھی مضامین پرمشتمل کتاب ’جپسی۔یورپ جا خانہ بدوش سندھی‘ پر خاکسار نے 2015ء میں بحیثیت مدیر اعلیٰ (Chief Editor)، لائیوروسٹرم نیوز ایجنسی، اپنے ادارے کی ویب سائٹ کے لیے انگریزی میں مضمون لکھا جو نہ صرف موصوف کو پسند آیا،بلکہ امریکا میں مقیم اُن کی ایک قدرداں امریکی خاتون ادیبہ نے بھی اسے اپنے مکتوب میں خوب سراہا تھا۔

جناب زیب سندھی نے فیس بُک پر اس نوبیل انعام کی خبر دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”جنوبی کوریا کی نوبل انعام یافتہ (نوبیل صحیح ہے: س ا ص)مصنفہ ہان کانگ کے ناول The Vegetarian کا اردو ترجمہ ”شاکاہاری” کے نام سے مکتبہِ دانیال سے شائع کیا جا رہا ہے۔ یہ ناول انگریزی سے اسماء حسین نے ترجمہ کیا ہے، جس کی پری آرڈر بکنگ (پری پبلیکیشن بکنگ یعنی قبل از اِشاعت خریداری کی فرمائش: س اص) شروع ہو چکی ہے۔

قابل ستائش بات ہے کہ یہ ناول اشاعت کے حقوق خرید کر شائع کیا جا رہا ہے۔ اس روایت کو نہ صرف سراہا جانا چاہیے بلکہ تقلید بھی کرنی چاہیے۔ مکتبہ دانیال کو جناب ملک نورانی کے بعد ان کی صاحبزادی حوری نورانی جاری رکھے ہوئے ہیں اور انہوں نے کتابوں کی اشاعت میں ملک صاحب کے قائم کردہ معیار کو برقرار رکھا ہے۔

میری تجویز ہے کہ اردو اشاعت میں انگریزی مترجم ڈیبوراا سمتھ (Deborah Smith) کا ضمنی طور پر ذکر ضرور ہونا چاہیے، کیونکہ اردو ترجمہ ان کے انگریزی ترجمے سے ممکن ہوا ہے۔
میری طرح یقیناً بہت سے کتاب دوست اس ناول کے منتظر ہوں گے“۔
خاکسارسہیل احمد صدیقی کا جواب یہ تھا:
ا)۔آپ سے اتفاق کرتا ہوں۔
ب)۔یہ ثانوی ترجمہ ہے اوردنیابھرمیں ثانوی ترجمہ غیراہم سمجھا جاتاہے۔
ج)۔دی ویجیٹیرین کاسیدھاسادہ ترجمہ ”سبز ی خور” (مترجم کو)معلوم نہیں تھا؟

سائیں زیب سندھی نے مجھے جواب الجواب دیتے ہوئے کہاکہ”اگر اچھے ترجمے سے دوسری زبان میں اچھا ترجمہ کیا جائے تو وہ غیر اہم نہیں ہوتا۔ بعض الفاظ/ عنوان اپنی زبان موجود ہوتے ہوئے بھی کسی اور زبان کا متبادل محسوس نہیں ہوتے۔میری ایک سندھی کہانی کا عنوان ”ڈانسنگ گرل” (Dancing girl)ہے۔ میری ایک اور سندھی کہانی کا عنوان ”میڈا عشق وی توں ” ہے۔ سندھی بہت وسیع زبان ہے لیکن اس کے باوجود، مجھے دیگر زبانوں کے الفاظ عنوانات کے لیے مناسب لگے۔اردو زبان ہندی، فارسی اور عربی کے الفاظ کے بغیر کیسے اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہے“۔

خاکسارسہیل احمد صدیقی نے بصد اَدب جواب دیا کہ ”ٹھیک ہے مگرشاکاہاری سے کتنے اہل قلم واقف ہیں۔۔چہ جائیکہ عوام الناس؟ یہ شدھ ہندی ہے“۔

زیب صاحب نے فرمایاکہ”واقف نہیں ہیں تو اَب واقف ہو جائیں گے۔ ’شاکا ہاری‘کتاب کا پُرکشش نام لگتا ہے جو قاری کو متوجہ کر سکتا ہے“۔ راقم سہیل احمد صدیقی نے اختلاف کرتے ہوئے یہ کہنے کی جسارت کی:”کیا کہنے۔۔یعنی سبزی خور سے سب واقف ہیں، وہ چھوڑکرایساشُدھ ہندی لفظ چناجائے جس سے یہ تأثر ملے کہ کتاب ہندی یا سنسکرت سے ترجمہ ہوئی“۔
اس پر موصوف نے یہ بھی ارشاد کیا کہ ”سرورق پر The Vegetarian انگریزی میں بھی لکھا ہوا ہے“۔
راقم سہیل احمد صدیقی نے ساری صورت حال کے پیش نظر طنزیہ جواب لکھا:”احتیاطاً دوسری دوتین زبانوں میں بھی لکھناچاہیے“۔
اب آئیے ذرا لغات سے Vegetarianکا متبادل یا مترجمہ لفظ دیکھتے ہیں:
قومی انگریزی اردو لغت (ناشر: مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، طبع دوم: 1994) میں Vegetarianکے مفاہیم یوں لکھے گئے ہیں:
سبزی خور، وہ شخص جو اَخلاقی یا غذائی اسباب سے گوشت یا مچھلی یا بعض اوقات لحمیاتی غذا سے پرہیز کرتا ہے اور اِس کی بجائے صرف سبزیوں، غلّے، پھل اور مغزیات پر بسر کرتا ہے۔بطور صفت: سبزی خوروں کا بیان یا اُن سے متعلق، سبزی خوری کی وکالت کرنے یا اُس کے لیے وقف ہوجانے والا، خالی سبزیو ں پر مشتمل۔
مختصر اُردولغت (مبنی بر دو جلد، ناشر: اردو لغت بورڈ) میں سبزی خور بطور صفت در ج ہے اور معانی یوں بیان کیے گئے ہیں:
جو گوشت سے پرہیز کرے، صرف سبزیاں ترکاریاں کھانے والا۔فیروزاللغات اردو (جامع)،جدید ایڈیشن میں سبزی خور بمعنیٰ صرف سبزیاں ترکاریاں کھانے والا، گوشت سے پرہیز کرنے والا اور ویجی ٹیریئن درج ہے۔

ہندی۔اردو لغت از راجہ راجیسور (راجیشور) راؤ اصغرؔ(والی ِ سمستان دوم کنڈہ) شاک اور شاکا کے معانی ساگ، ترکاری، بھاجی اور سالباہن راجہ کا سنہ درج کیے گئے ہیں جبکہ اس کے اضافی حصے (مرتبہ قدرت نقوی) میں ’شاک بھَکش‘ یعنی سبزی خور اور ساگ خور شامل ہے۔

راجہ صاحب نے یہ لغت کم وبیش چھیانوے برس پہلے تالیف کی اور پاکستان میں پہلے مقتدرہ قومی زبان نے، پھر انجمن ترقی اردوپاکستان، کراچی نے (1997ء میں) اسے شایع کیا، جبکہ انجمن نے قدرت نقوی صاحب سے جدید ہندی الفاظ وتراکیب کا اضافہ بھی کروایا۔

انگلیسی فارسی لغات(English-Persian Dictionary) مرتبہ عباس آریان پورکاشانی و منوچہر آریان پور کاشانی، مطبوعہ تہران، ایران(1989ء) میں Vegetarianاور Vegetarianismکے معانی یوں بیان کیے گئے:
گیاہ خوار (یعنی گھاس کھانے والا)، گیاہ خواری(گھاس کھانا)

فرہنگ آصفیہ اورنوراللغات،سبزی خور اور شاکاہاری دونوں کے ذکر سے خالی ہے۔اردو اِنگریزی لغت مرتبہ بابائے اردوڈاکٹر مولوی عبدالحق میں بھی یہ دونوں الفاظ نہیں ہیں۔اسی طرح فرہنگ ِ فارسی مرتبہ ڈاکٹر عبداللطیف اور حسن اللغات فارسی اردومیں بھی سبزی خور شامل نہیں۔ریختہ (آنلائن)ڈکشنری والوں نے کہیں سے ’شاکاہاری‘ سناتو اُس کا اندراج اِن معانی میں کیا: سبزی خور، صرف سبزی اور پھل کھانے والا۔ترکی اردو /اردو ترکی لغت مرتبہ ڈاکٹر اے بی اشرف و ڈاکٹر جلال صوئیدان،مطبوعہ انقرہ،ترکی (2022ء) میں ویجی ٹیریئن یا سبزی خور کا اِندراج نہیں،البتہ آنلائن تلاش میں معلوم ہواکہ جدید ترکی میں اس کے لیے Vejeteryanimمستعمل ہے جو بظاہر انگریزی اصطلاح کو تُرکایا ہوا لفظ ہے۔حاصل ِ کلام یہ ہے کہ انگریزی لفظ Vegetarianکا اُردوترجمہ سبزی خور توبالکل درست ہے، لیکن شاکا ہاری کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔

ہندومَت یا برہمن مَت میں ہزاروں سال پہلے ہرطرح کے جانوروں کا گوشت کھایا جاتا تھا، یہ بات سلسلہ زباں فہمی کے پرانے مضامین میں خاکسار نے بالتحقیق لکھی تھی۔پھر یوں ہواکہ جین فرقہ معرض ِ وجودمیں آیا تو ہندومت میں بہت کچھ بدل گیا۔جین نہ صرف عام جانوروں کا گوشت نہیں کھاتے، بلکہ وہ مچھلی، انڈے، جڑوالی سبزیوں اور جانوروں کے اجزاء پر مشتمل غذا سے بھی پرہیز کرتے ہیں۔اُن کی دیکھا دیکھی یورپ میں ’گوشت خوری‘ ترک کرکے ’سبزی خوری‘ عام کرنے کی مہم چلائی گئی تو ہمارے یہاں بھی بہت سے لوگ گوشت سے تائب ہوکر سبزی خور بن گئے اور اَب معاملہ یہ ہے کہ فیس بک پر ایسے اشتہارات بھی ملتے ہیں جن میں سبزی خوری کی باقاعدہ تربیت کا اعلان کیا جاتا ہے۔حیرت ہے کہ یہ لوگ اسلامی تعلیمات سے قطع نظر، دال خوری کی تعلیم کیوں نہیں دیتے، جبکہ ہندؤوں کے یہاں تو دال ماش یا اُڑَد، گوشت کے متبادل اور متبرک پکوان کے طور پر کھائی جاتی ہے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں