33

کیا پاکستانی قوانین خواتین کے حقوق کا تخفظ فراہم کرتے ہیں؟

[ad_1]

عورت خدا کی تخلیق کاایک خوبصورت شاہکار ہے ۔ شاعروں ادیبوں اور لکھاریوں نے عورت پر کئی دیوان لکھ ڈالے۔ علامہ اقبال نے بھی ایک شعر میں اس کی جامع اور دلکش انداز میں تعریف کرتے ہوئے کہا۔

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں

بلاشبہ عورت وہ ہستی ہے جس سے تصویر کائنات میں خوش کن رنگ بھرے ہیں۔ عورت بطور بہن بیٹی ، بیوی اور ماں روئے زمین پر تخلیق اور رشتوں کی لازوال تصویر ہے۔ انسانی تاریخ کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر دور میں عورت کا کردار اہمیت کا حامل رہا ہے۔وہ پتھر کا زمانہ ہو، زرعی ترقی یا صنعتی انقلاب کا دور عورت نے ہمیشہ مرکزی کردار ادا کیا ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی عورت کو اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کیوں کرنا پڑ رہی ہے؟ خواہ وہ یورپ کی عورت ہو یا مشرق کی، حقوق کی جنگ میں دونوں برابر سرگرم ہیں دونوں کے مطالبات میں تفریق ہو سکتی ہے مگر دونوں ہی حقوق پانے کی خواہاں ہیں۔ حقوق ، جینڈر ایکوالٹی اور آزادی کے نعرے تو ہم بے تحاشا سنتے ہیں کیا پاکستان میں عورتوں کے حقوق پر قانونی قوائد و ضوابط موجود ہیں؟ اور اگر ہیں تو خواتین کے وہ کونسے بنیادی حقوق ہیں جن کو معاشرتی اور قانونی حیثیت حاصل ہے۔

معاشرتی زندگی کے لئے بچے کو تیارکرنا خواہ لڑکا ہو یا لڑکی تعلیم کے کردار کو نظرانداز نہیںکیا جاسکتا۔علم حاصل کرنا اور تعلیم تک رسائی ہر انسان کابنیادی حق ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت رنگ ، نسل، مذہب اور جنس کی تفریق کئے بغیر ہر بچے کو تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔

تعلیم و تربیت کا حق ہر بچے کو حاصل ہے خواہ وہ امیر کا بچہ ہو یا غریب کا۔اور گزشتہ کچھ عرصے سے بین الاقوامی اور قومی سطح پر خواتین کی تعلیم پر بہت زوردیا گیا ہے جس کے نتیجے میں ہمیں سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں لڑکیوں کی ایک کثیر تعداد نظر آتی ہے۔پاکستان اکنامک سروے 2023کے مطابق پاکستان میں شرح خواندگی 62.2فیصد ہے جبکہ یہ شرح مردو خواتین میں بالترتیب 73%اور 51.6%ہے۔

سن2023میں سٹیٹس آف ویمن ان پنجاب میں چھپنے والی رپورٹ کے مطابق پنجاب کی خواتین میں شرح خواندگی باقی صوبوں کی نسبت بلند ہے جو کہ 57فیصد ہے جب کے بلوچستان میں یہ شرح سب سے کم ہے جو کہ 29فیصد ہے۔آئین کا آرٹیکل 25(A) ہر بچے کو مفت تعلیم کا حق دیتا ہے چاہے وہ کسی بھی جنس سے تعلق رکھتا ہو۔ خواتین کو تعلیم کے ساتھ ساتھ کاروبار اور نوکری کرنے کا بھی حق حاصل ہے آرٹیکل اٹھارہ کے تحت وہ اپنے لئے کسی بھی ذریعہ معاش کا انتخاب کر سکتی ہیں خواہ وہ کاروبار کرنا چاہیں یا کوئی پیشہ اختیار کرناچاہیں۔وہ باعزت روزی کماسکتی ہیں ۔یوں تو کاروبار چاہے مرد کرے یا عورت مشکل کام ہے لیکن معاشرتی طور پر ایک خاتون کے لئے کاروبار کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ایسے میں جو باریکیاں کاروباری معاملات سے جڑی ہوتی ہیں ان میں خواتین اکثر اپنی کم کاروباری سمجھ بوجھ کی وجہ سے دھوکہ کھا جاتی ہیں۔

ایسے میں قانونی معاملات کو دیکھنے اور سمجھنے میںبھی دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔خواتین کو تحفظ دینے کے لئے ایسے قوانین موجود ہیںجو انھیں ورک پلیس پر ہراسمنٹ سے بچاتے ہیں ، جیسے پندرہ سیکنڈ سے زیادہ کسی خاتون کو دیکھنے کو اسے ہراساں کیا جانا تصورکیا جائے گا۔ اسی طرح سائبر کرائم میں بھی آن لائن ہراسمنٹ سے متعلق کیسز کو ڈیل کیا جاتا ہے۔ دیکھا جائے تو ایسے قوانین موجود ہیںجو خواتین کو ورک پلیس اور کاروبار میں تحفظ فراہم کرتے ہیںلیکن آگاہی کی کمی کی وجہ سے اکثر خواتین کو دشواریوںکا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ جیسے حکومتی سطح پر خواتین کو تخفظ دینے اور ان کو ہراسمنٹ سے بچانے کے لئے کئی ایکٹس اور بل پاس ہوچکے ہیں جو کہ قانون کا باقاعدہ حصہ بھی ہیںلیکن اکثر تو ان سے آگاہی ہی نہیں ہوتی اور اگر ہوتی بھی ہے تو اس کے بعد کا عمل اتنا طویل اور اذیت بھرا ہوتا ہے کہ خواتین رپورٹ درج کروانے کے بجائے خاموشی اختیار کرنے پر اکتفا کرتی ہیں۔

خواتین کومعاشرے میں جس استحصال کا سامنا ہے اس کی سب سے بڑی مثال تو یہ ہے کہ انھیں اظہار رائے کی آزادی نہیں دی جاتی۔ انھیں فیصلہ سازی کا حق نہیں دیا جاتا۔ انھیں کیا کرنا ہے؟ کیا نہیں کرنااس کا اختیار نہیں دیا جاتا۔ ان کی زندگی کے معاملات میں ان کی رائے کو اہمیت نہیں دی جاتی جبکہ قانونی طور پر انھیں اپنی زندگی کے فیصلے آزادنہ طور پر بنا کسی دباؤ کے کرنے کا حق حاصل ہے۔

اس کی سب سے بڑی مثال یہ دیکھ لیجئے کے پاکستانی معاشرے میں جہاں اول تو بیٹیوں کی اعلی تعلیم کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی لیکن اگر انھیں اعلی تعلیم دلوائی بھی دی جائے تو ان کو اپنی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں دیا جاتا۔ شادی زندگی بھر کا ساتھ ہے مذہبی اور قانونی اعتبار سے ہر عاقل بالغ فرد کو اپنا شریک حیات اپنی پسند سے چننے کا حق حاصل ہے لیکن لبرل سے لبرل والدین بھی شادی کے معاملے میں اولاد کی پسند پر اپنی پسند اور مفادات کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اور اس معاملے میں لڑکیوں کو لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ دباؤ اور بلیک میلنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ لڑکیوں پر سب سے پہلے تو یہ پریشر ڈالا جاتا ہے کہ وہ اپنے والدین کی نافرمانی کر رہی ہیں اور اگر وہ اپنی مرضی سے شادی کرتی ہیں تو معاشرے میں ان کے خاندان کی جگ ہنسائی ہوگی اور ساکھ متاثر ہوگی۔

یعنی پڑھی لکھی عورت کو بھی یہ حق اور سمجھ بوجھ نہیں کے وہ اپنی زندگی کا اہم ترین فیصلہ اپنی مرضی سے کر سکے جبکہ قانونی طورپر اٹھارہ سال سے بالغ لڑکی اپنی مرضی سے شادی کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ معاشرتی طور پر ایک ایسا طرز عمل تشکیل پا چکا ہے جس کے نتیجے میں خواتین کو دبا کر رکھنے اور انھیں بااختیار نہ ہونے دینے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے ۔

انھیں یہ اعتماد ہی نہیں دیا جاتا کہ وہ درست فیصلہ کر سکتی ہیں اور اگر وہ کوئی فیصلہ لیتی ہیں تو انھیں اس قدر تذلیل اور ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ وہ کوئی عمل درآمدد کرنے کے بجائے خاموش اور دلبرداشتہ ہو کر ارادہ ترک کر دیتی ہیں۔ اس ضمن میں ہم نے ماہر قانون سہیل نواز ایڈوکیٹ سے رابطہ کیا جو ہیومین رائیٹس اور وومن رائیٹس کے حوالے سے سرگرم ہیں۔جب ان سے قانونی طور پر موجودخواتین کے حقوق کی بابت سوال کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں اس وقت دو طرح سے قوانین موجود ہیں ایک اسلامی قوانین اور دوسرے وہ قوانین جو برٹش لاء سے ماخوذ ہیں۔

جیسے پاکستانی قانون کے مطابق مسلم فیملی لاء آرڈینس 1961موجود ہے جس میں شادی کے متعلق ضوابط پر تفصیل سے بات کی گئی ہے۔جیسے شادی کے لئے لڑکا لڑکی کا بالغ ہونا ضروری ہے اور دونوںکی جانب سے گواہان اور ولی کی موجودگی کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ یوںتو بلوغت کی عمر اٹھارہ برس مقرر کی گئی ہے مگر مختلف صوبوں میں اس پہ مختلف آراء موجود ہے۔ جب ان سے کورٹ میرج اور شادی میں رضامندی کے حوالے سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں اصل مسئلہ ثقافتی اور معاشرتی ہے یہاں لمبے عرصے تک برصغیر میں ہندؤانہ رسم و رواج کے ساتھ میل جول کے اثرات کی بابت والدین میں اپنی اولادکو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے پر مجبور کرنے کی سوچ رچ بس چکی ہے۔

حالانکہ مسلم قوانین اور برٹش قوانین کی رو سے لڑکی اور لڑکے کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے بلا تقریق کسی سے بھی شادی کر سکتے ہیں لیکن اس کا اطلاق پاکستانی معاشرے میں کم ہی ہو پاتا ہے۔اگر کوئی جوڑا کورٹ میرج کرتا ہے تو اس کو تخفط دینے کے لئے دارالامان، پولیس پروٹیکشن یا کچھ این جی اوز کی سپورٹ دی جاتی ہے۔ یوں ہی شادی اگر ناکام ہوجاتی ہے اور یہ تعلق بوجھ بننے لگتا ہے تو خلع اور طلاق کا حق بھی موجود ہے۔ڈیزولوشن آف مسلم میرج ایکٹ1939اور مسلم فیملی ایکٹ دونوںکی رو سے اگر کوئی اپنے شریک حیات سے الگ ہونا چاہتا ہے تو اس کو یہ حق حاصل ہے ، عورت خلع لے سکتی ہے اور قانون کی رو سے و ہ یہ عرصہ اسی گھر میں رہ کر گزارے گی چاہے وہ دونوں ایک دوسرے سے ازدوجی تعلق قائم نہ کریں لیکن معاشرتی طور پر خلع ہو یا طلاق دونوں صورتوں میں بیوی شوہر سے پہلے ہی الگ ہوجاتی ہے جس سے رجوع کے امکانات مفقود ہو جاتے ہیں۔

سہیل نواز ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ اس وقت ٹوٹی ہوئی شادیاں عدالتوں میں آنے والے کیسز کی ایک بڑی بنیاد ہیں۔وفاقی دارالحکومت میں 2020کے اندر طلاق اور خلع کے بیس ہزار سے زائد کیسز درج ہوئے جبکہ حال میں اس کی شرح 2800کے قریب ہے۔ اس کی وجوہات کی بابت پوچھنے پر ان کا موقف تھا کہ یوں تو اس کی وجوہات مختلف ہوتی ہیں لیکن زیادہ تر زوجین کا ایک دوسرے پر عدم اعتماد کرنا اور حیثیت سے بڑھ کر مطالبات کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ طلاق کے بعد بچوں کو مان کے ساتھ ہی رکھا جائے گا جب وہ بلوغت کی عمر کو پہنچیں تو ان کی رضامندی لی جاسکتی ہے کہ وہ ماں یا باپ کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔لیکن بچوں کا نان و نفقہ والد کے ہی ذمہ ہوگا۔ اسی طرح وراثت میں حصہ ملنے کے لئے بھی قانون موجود ہے جو طے کرتا ہے کہ کس کو کتنا حصہ ملے گا۔

یوں تو ہمارے ہاں ہر شخص کو ہی کوئی بھی نیا کام کرنے پر سماجی طور پر حوصلہ شکنی کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن خواتین اس ضمن میں آسان ٹارگٹ سمجھی جاتی ہیں کیونکہ کسی بھی خاتون کو بدنام کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے کردار پر الزام لگا دیا جائے اور اس کی معاشرتی ساکھ متاثر ہوجائے ۔ قدامت پسند معاشروں میں خواتین کی عزت کو لے کر حساسیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے اور ایسے میں کسی خاتون پر اگر کوئی الزام لگ جائے تو وہ الزام نسلوں تک اس کا پیچھا کرتا ہے۔ گو کہ آئین و قوانین کی رو سے ہتک عزت کا قانون موجود ہے اور ا س کی سزا بھی بھاری جرمانوں کی صورت میں موجود ہے۔لیکن نظام عدل و انصاف میںدرپیش پیچیدگیاں اور بے ضابطگیاںعموماً ایسے کیسز میں سوائے تاریخ پر تاریخ کے کوئی نتیجہ نہیں دیتیں۔

گویہ سچ ہے کہ قانونی طور پر اس وقت پاکستانی معاشرے کی خواتین کے پاس حقوق کا آئینی تحفظ موجود ہے لیکن معاشرتی بنیادوں پر ان حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے میں ابھی رکاوٹیں حائل ہیں جو کہ تعلیم اورتربیت کے ساتھ شعور کی کمی کی بدولت ہیں۔ عورتوں کو عزت اور تخفظ دینے کے لئے قانونی تخفظ سے کہیں بڑھ کر تہذیبی اقدار اور ثقافتی ورثہ کو از سر نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے کیونکہ کوئی بھی قانون عمل درآمد کے بنا کاغذ کے ایک ٹکڑے سے بڑھ کر حیثیت نہیں رکھتا۔یہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ خواتین کے خقوق کا تحفظ یقینی بنانے میں کوئی کوتاہی نہ کریں کیونکہ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی!!!



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں