[ad_1]
حکومت وقت کا دعوی ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کم ہو چکی۔ اعداد وشمار کے گورکھ دھندے سے ہٹ کر بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا اس کمی سے عام آدمی کو فائدہ پہنچا؟ ریاست کی 95 فیصدآبادی عوام پر مشتمل ہے۔
ان کی پہلی ضرورت سستا کھانا پینا ہے۔ لہذا دیکھنا چاہیے کہ کیا حکومت اشیائے خورونوش سستی کرنے میں کامیاب رہی؟ مارکیٹوں کی صورت حال بتاتی ہے کہ کھانے پینے کی اشیا ماضی کے مقابلے میں اب بھی خاصی مہنگی ہیں۔ مثال کے طور پر جب 2018ء میں ن لیگی حکومت تھی تو عام سبزی مثلاً آلو، پیاز، ٹماٹر، لہسن، ادرک، شلجم، گوبھی وغیرہ پندرہ سے پچاس روپے فی کلو مل جاتی تھی۔ آج کل توسبھی سبزیوں کی قیمت فی کلو سو روپے سے تجاوز کر چکی۔ بعض سبزیاں تو ڈھائی تین سو روپے کلو میں مل رہی ہیں۔ اسی طرح کسی زمانے میں دال عام آدمی کا کھاجا تھا۔ آج دالوں کی قیمتیں بھی فی کلو پانچ سو روپے سے بڑھ چکیں۔
کیا خرچے پورے ہو رہے؟
حکومت نے کم از کم تنخواہ ۳۷ ہزار روپے مقرر کر رکھی ہے۔ کئی کمپنیاں اپنے ملازمین کو اس سے کم تنخواہ دیتی ہیں۔ بالفرض اگر کسی کو یہی تنخواہ مل رہی تو تنہا آدمی اس رقم میں بہ مشکل اپنے اخراجات نمٹا پاتا ہے، وہ بھی اس صورت میں کہ مکان اپنا ہو۔ اگر وہ کرائے کی جگہ پر رہائش پذیر ہے تو لامحالہ اسے اپنے خرچے پورے کرنے کے لیے دوسری ملازمت کرنا پڑتی ہے۔ اگر یہ تنخواہ کمانے والا بیوی بچے رکھتا ہے تو اخراجات مذید بڑھ جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ چار افراد کا گھرانا ۳۷ ہزار روپے آمدن میں مہینہ نہیں گذار سکتا۔ جب یہ صورت حال ہو تو حکومت وقت کیسے دعوی کر سکتی ہے کہ مہنگائی کم ہو گئی؟
مہنگائی تو اس وقت کم ہو گی جب پاکستان کے 95 فیصد باشندے اپنے اخراجات آرام سے برداشت کر سکیں۔ اور یہ اخرجات ہوتے ہی کتنے ہیں: کھانا پینا،بجلی وگیس کے بل، کرایہ ٹرانسپورٹ اور بس۔کپڑے جوتے تو سال میں ایک دو بار خریدے جاتے ہیں۔اور سچ یہ ہے کہ بیشتر پاکستانی بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے اپنے اخراجات پورے کرنے میں مشکلات محسوس کر رہے ہیں۔ بقیہ 5فیصد پاکستانی مہنگائی سے متاثر نہیں ہوتے کہ ان کی آمدن تمام اخراجات باآسانی پورے کر لیتی ہے، چاہے ماہانہ خرچے لاکھوں کروڑوں روپے تک پہنچ جائیں۔
اشیائے خورونوش مہنگی کیوں؟
وطن عزیز میںاشیائے خورونوش پڑوسی ممالک کی نسبت کافی مہنگی ہیں۔ اس اعجوبے نے کیونکر جنم لیا؟پاکستان میں پچھلے چند برس سے سبزی ، دالیں، مسالے ، پھل اور گوشت بہت مہنگا ہوا ہے اور اس کی تین بڑی وجوہ ہیں۔ اول یہ کہ 2018ء کے بعد ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کی قدر بہت گر گئی۔ چناں چہ باہر سے جو کھانے پینے کی اشیا آتی ہیں، مثلاً دالیں، مسالے، بعض سبزیاں اور ڈبہ بند غذائیں، ان کی قیمتوں میں دو تین گنا اضافہ ہو گیا۔ بوائلر چکن کی غذا بھی امپورٹ ہوتی ہے۔اسی لیے چکن کی قیمت میں بھی اضافہ ہوا۔ دوسری وجہ تیل وگیس اور دیگر ایندھنوں کی قیمت بڑھنا ہے۔ ایندھن کی قیمت بڑھنے سے بجلی بھی مہنگی ہو جاتی ہے کیونکہ پاکستان میں بیشتر بجلی رکازی ایندھن سے بنتی ہے۔ لہذا تیل، گیس اور بجلی مہنگی ہونے سے عام استعمال کی بیشتر اشیا بھی پیداواری لاگت میں اضافے اور ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات بڑھنے کے باعث مہنگی ہو جاتی ہیں۔
پاکستان میں اشیائے خورونوش اس لیے بھی مہنگی ہو رہی ہیں کہ کھانے پینے کی بہت سی اشیا باہر جا رہی ہیں۔ پچھلے ایک سال میں اربوں روپے کی پاکستانی سبزیاں ، گوشت اور پھل بیرون ملک بھجوایا جا چکا۔ چاول کی ایکسپورٹ نے تو پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دئیے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے مالی سال میں چار ارب ڈالر کا پاکستانی چاول بیرون ممالک بھجوایا گیا۔ پاکستانی کرنسی میں یہ رقم’’گیارہ سو ارب روپے ‘‘سے زیادہ بنتی ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا ایک عام پاکستانی کو سستے داموں مارکیٹ سے چاول مل رہا ہے؟اس کا جواب نفی میں ہے کیونکہ کھانے کے قابل چاول کی قیمت تین سو روپے فی کلو سے تجاوز کر چکی ؟ یہی چاول پانچ چھ سال پہلے پچاس ساٹھ روپے فی کلو دستیاب تھا۔
حقیقت یہ ہے، اشیائے خورونوش کو ایکسپورٹ کرنا ایک متنازع عمل ہے کیونکہ جب ایک ملک میں کھانے پینے کی کوئی شے وافر موجود ہو اور وہاں آبادی بھی کم ہو تو اس شے کی کچھ مقدار برآمد ہو سکتی ہے۔ جیسے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی آبادی کم ہے۔ مگر وہاں گندم اور ڈیری مصنوعات وافر پیدا ہوتی ہیں۔ لہذا فاضل پیداوار بیرون ملک بھجوا دی جاتی ہیں۔ یوں یہ اشیا ان ملکوں میں مہنگی نہیں ہو پاتیں کیونکہ وہ کثرت سے موجود رہتی ہیں۔
پاکستان میں تو کھاد، کیڑے مار ادویہ اور دیگر زرعی سامان مہنگا ہونے کی وجہ سے زرعی پیداوار گھٹ رہی ہے۔ نیز کئی کھیت اور باغ رہائشی علاقوں میں تبدیل ہو چکے۔ اس لیے بھی زرعی پیداوار میں کمی کا رجحان ہے۔ جبکہ پاکستان کی آبادی پچیس کروڑ سے بڑھ چکی اور اس میں ہر سال لاکھوں افراد کااضافہ ہو جاتا ہے۔ لہٰذا یہ تینوں عوامل دیکھتے ہوئے کھانے پینے کی کوئی شے بیرون ملک نہیں جانی چاہیے تاکہ عام پاکستانی کو بہ سہولت میسّر آ سکے۔ حکمران طبقے کواپنے عوام کو فائدہ پہنچانا ہے، دوسرے ملکوں میں مقیم لوگوں کو نہیں! بھارت کی حکومت اکثر اپنے باشندوں کی آسانی کے لیے یہ اقدام اٹھاتی ہے کہ ریاست میں جب کھانے پینے کی کسی شے کی پیداوار کم ہوجائے تو اس کی برآمد پر پابندی لگا دی جاتی ہے۔ صد افسوس کہ پاکستان میں شاذ ونادر ہی ایسا عوام دوست اقدام کیا جاتا ہے۔
حکومت پاکستان کے کرتا دھرتا تو الٹا وقتاً فوقتاً اشیائے خورونوش کی ایکسپورٹ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں تاکہ ملک میں ڈالر آ سکیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان آنے والے ڈالروں سے(اگر وہ خوش قسمتی سے پاکستان آ جائیں تو ) عام آدمی یا ہمارے کسانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ عموماً وہ نقصان میں رہتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ کچھ کمپنیاں ہیں جو مارکیٹ سے اشیائے خورونوش ہول سیل قیمت پر بڑی تعداد میں خرید لیتی ہیں۔ وہ پھر اشیائے خورونوش بیرون ممالک بھجوا کر ڈالر کماتی ہیں۔ ان کو تو مالی فائدہ ہو جاتا ہے مگر پاکستان سے کھانے پینے کی اشیا کی ایکسپورٹ کے باعث یہ عام آدمی کی دسترس سے دور اور مسلسل مہنگی ہو رہی ہیں۔ عام آدمی اب گائے کا گوشت بھی نہیں کھا سکتا، چھوٹا گوشت تو اس کی رسائی سے دور ہو چکا۔ جبکہ کسان اور مویشی پال کو بھی اشیائے خورونوش کی ایکسپورٹ اور ڈالروں کی بارش سے زیادہ فائدہ نہیں ہوتا، وہ بدستور غریبانہ زندگی گذار رہا ہے۔
یہ حکومت پاکستان کا فرض ہے کہ وہ اشیائے خورونوش کی ایکسپورٹ پر چیک اینڈ بیلنس لگائے۔ کبھی کھانے پینے کی کوئی شے وافر مقدار میں ہو تو صرف اس کو باہر بھجوایا جائے۔مگر بہتر یہ ہے کہ اشیائے خورونوش کی ایکسپورٹ پر مکمل پابندی عائد کر دی جائے۔ وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی آبادی اتنی زیادہ بڑھ چکی کہ مملکت میں جتنی زرعی پیداوار ہوتی ہے، وہ بھی مانگ پوری نہیں کر پا رہی۔ ایسی سنگین اور خوفناک صورت حال میں سبزیوں، گوشت اور پھل کو بیرون ممالک بھجوانا عوام پر ظلم کرنے کے مترادف ہو چکا کیونکہ یہ ایکسپورٹ پاکستان میں کھانے پینے کی چیزیں مسلسل مہنگی کرتی چلی جا رہی ہے۔ اگر پاکستان میں بھوک بڑھتی رہی تو حکمران طبقے کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ عمل شہریوں کو اکسا کر باغی بنا دیتا ہے۔ اور جب عوام بغاوت کر دیں تو بڑے بڑے محل خس وخاشاک کی طرح عوامی طوفان میں بہہ جاتے ہیں۔
حکومتی اخراجات میں اضافہ
پاکستان میں مہنگائی بڑھنے کی ایک اور اہم وجہ یہ ہے کہ حکمران طبقہ 1988ء کے بعد سے اپنے اخراجات میں کئی گنا اضافہ کر چکا۔ اگست 1988ء میں حکومت نے جو بجٹ پیش کیا تھا، اس میں کل خرچہ صرف 202.2 ارب روپے تھا۔ حالیہ قومی بجٹ کی رو سے یہ خرچ تقریباً 19 ہزار ارب روپے تک پہنچ چکا۔1988ء کے بجٹ میں حکومت نے اپنے سالانہ اخراجات (Current Expenditure)کے لیے 165.6ارب روپے رکھے تھے۔ 58.7 ارب دفاع ،56.1 ارب ترقیاتی منصوبوں اور46.7 ارب روپے قرضوں کی ادائی کے لیے رکھے گئے۔ آج حکومت کے صرف سالانہ اخراجات دو ہزار ارب سے بڑھ چکے۔ جبکہ بجٹ کا تقریباً آدھا حصہ تو قرضوں کے سود کی ادائی یا قرضے اتارنے پر لگ جاتا ہے۔ یوں عوام کی فلاح وبہبود کے منصوبوں کے لیے بہت کم رقم بچتی ہے۔
ٹیکسوں کا بوجھ
درج بالا اعدادوشمار سے عیاں ہے کہ 1988ء میں پاکستان میں ٹیکس بھی کم تھے۔ حکمران طبقے نے ٹیکسوں کا بوجھ عوام پر نہیں ڈالا تھا کیونکہ اول وہ قرضے زیادہ نہیں لیتا تھا، دوسرے اس نے شاہانہ طرز زندگی نہیں اختیار کیا تھا۔ تیسرے اس زمانے میں کرپشن بھی کم تھی۔ چوتھے بیرون ممالک سے اندھا دھند اشیا منگوانے کا مادہ پرستانہ چلن بھی شروع نہیں ہوا تھا۔
1988ء کے بعد حکمران طبقہ جی بھر کر قومی و عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لینے لگا۔ دوم اس نے شاہانہ طرز زندگی اختیار کر لیا۔ سوم حکومتی ایوانوں میں کرپشن بھی بڑھ گئی۔چہارم بیرون ممالک سے برآمدات جی بھر کر منگوائی جانے لگیں۔ ان عوامل کی بنا پر جب حکومت کے خرچے بڑھے تو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے وہ ٹیکسوں کا بوجھ عوام پر ڈالنے لگی۔ کسی حکومت نے یہ بوجھ کم کرنے کی ٹھوس کوششیں نہیں کیں بلکہ اس میں اضافہ ہی کیا۔ عوام کی خدمت کرنے اور اس سے محبت کا دم بھرنے والے رنگ برنگ سیاست داں، جرنیل، جج ، سرکاری افسر اور مذہبی لیڈر آئے مگر ان کا بیشتر وقت اور توانائی اپنے مفادات پورے کرنے پر صرف ہوتی رہی۔ عوام کی فلاح وبہبود کے لیے ٹھوس کام کم ہی ہوئے۔ لہذا ان کی مشکلات اور پریشانیاں بڑھتی گئیں اور زندگی میں آسانیوں کا جنم لینا خواب بن گیا۔
مثال کے طور پہ 2008ء کے بجٹ میں عوام پر 1250 ارب روپے کے ٹیکس لگائے گئے تھے۔ دس سال بعد2018ء میں یہ رقم’’ پانچ ہزارارب روپے‘‘ پہنچ گئی۔ اور چھ سال بعد اب یہ عدد تقریبا’’ً تیرہ ہزار ارب روپے‘‘ تک پہنچ چکا۔ اب تو حکمران طبقہ آئی ایم ایف کی آڑ لے کر ، تیل کی قیمت بڑھنے یا کوئی بھی عذر تراش کر ٹیکسوں کی شرح بڑھا دیتا ہے۔ یا پھر نئے ٹیکس ایجاد کر لیے جاتے ہیں۔ یوں عوام الناس پر ٹیکسوں کا بوجھ روز بروز زیادہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اور پاکستانی عوام پر ظلم یہ ہے کہ بیشتر ٹیکس ان ڈائرکٹ ہیں، یعنی یہ ٹیکس امیر و غریب، دونوں کو ایک شرح کے مطابق دینا پڑتے ہیں۔ پاکستان کا ٹیکس نظام امیر اور غریب کے درمیان فرق نہیں کرتا اور اسی لیے بہت ظالمانہ ہے۔ عوام سے قربت کے بلند آہنگ دعوی کرنے والے کسی لیڈر کو توفیق نہیں ہوئی کہ اس استحصالی ٹیکس نظام کے بخیے ادھیڑ سکے۔
پیتے ہیں قرض کی مے
حکومت اب بھی قومی و عالمی مالیاتی اداروں سے دھڑا دھڑ قرض لے کر اپنے اخراجات پورے کر رہی ہے۔ حتی کہ اب گاہے بگاہے کسی وزیر باتدبیر کے منہ سے یہ سچ نکل جاتا ہے کہ حکومت قرضوں پر چل رہی ہے یا ملک دیوالیہ ہو چکا۔ ظاہر ہے، اِدھر اُدھر سے ڈالر مانگ تانگ کر غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو بھر لینے کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان میں ڈالروں کی ریل پیل ہو گئی۔ ان ڈالروں میں ایک حصہ سعودیہ کا ہے تو دوسرا چین اور تیسرا امارات کا۔ پھر قرضوں میں ملے ڈالر بھی اس قومی ’’قرضئی خزانے ‘‘میں شامل ہیں۔
قرض لینے کی لت نے حکمران طبقے سے غیرت و عزت کا خاتمہ کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے، جب بھی آئی ایم ایف، ورلڈ بینک یا کسی ملک سے قرض کی رقم ملے تو وہ یوں خوشی کا اظہار کرتا ہے جیسے کوئی بہت بڑا معرکہ مار لیا یا کوئی کارنامہ انجام دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاست پر جتنا زیادہ قرض ہو گا، اس کے عوام پر اتنا ہی زیادہ مالی اور مہنگائی کا دباؤ پڑے گا۔ کیونکہ حکمران طبقہ تو عوام سے حاصل کردہ ٹیکسوں کی رقم سے اپنی تنخواہوں اور ملی ہوئی شاہانہ مراعات کے خرچے پورے کر لیتا ہے۔اس کے ذاتی و ریاستی اخراجات کے لیے گئے قرضوں کا سود عوام کو دینا پڑتا ہے۔اب تو یہ حال ہو گیا ہے کہ ہر پاکستانی بچہ دنیا میں آتے ہی مقروض ہو جاتا ہے۔ ہماری حکومتوں نے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے عوام کو ذلیل وخوار کر کے رکھ دیا ہے۔
حکومت وقت اگر عوام کے لیے آسانیاں پیدا کرنا چاہتی ہے تو اسے چاہیے کہ وہ کم ازکم تنخواہ میں اضافہ کرے۔ ترکی کی حکومت نے یہی کیا کہ جوں جوں وہاں مہنگائی میں اضافہ ہوا، وہ کم ازکم تنخواہ بڑھاتی رہی۔ اس طرح عام آدمی کی آمدن اور خرچ میں توازن رہا۔ پاکستان میں مہنگائی جس رفتار سے بڑھی ہے، اس لحاظ سے آمدن میں اضافہ نہیں ہوا۔ اس بارے میں حکومت کو غوروفکر کرنا چاہیے۔
غریب طبقہ اور محکمہ قومی بچت
ایک اور پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں کروڑوں عوام قومی بچت اور دیگر سرکاری و نجی مالیاتی اداروں میں زندگی بھر کی جمع پونجی جمع کراتے ہیں۔ ان میں لاکھوں بوڑھے ، بیوائیں ، یتیم ، معذور اور طلاق یافتہ خواتین شامل ہیں۔ اکثر کی آمدن کا دارومدار جمع پونجی پر ملے منافع پر ہوتا ہے۔ مگر حکومت نے قومی بچت کے منافع پر کوئی اضافہ نہیں کیا بلکہ الٹا اسے سٹیٹ بینک کی اعلان کردہ شرح سود سے جوڑ دیا۔ مذید براں اس پہ بھاری ودہولڈنگ ٹیکس بھی لگا دیا۔ مثال کے طور پہ اٹھارہ سال پہلے قومی بچت سے ایک لاکھ روپے پر بارہ تیرہ سو روپے منافع ملتا تھا۔ اٹھارہ برس گذر چکے، وہی منافع چلا آ رہا ہے۔ بلکہ جب سٹیٹ بنک شرح سود گھٹا دے تو منافع بھی کم ہو جاتا ہے۔بعض اوقات نو سو روپے بہ مشکل ملتے ہیں جو آج کل کے دور میں نمک میں زیرے کے مترادف ہیں۔
حکومت وقت کو چاہیے کہ نچلے و متوسط طبقوں سے تعلق رکھنے والوں پاکستانیوں اور بوڑھوں ، بیواؤں ، یتیموں ، معذورں اور طلاق یافتہ خواتین نے قومی بچت پر اپنی جو رقم جمع کرا رکھی ہے ، اس پر زیادہ منافع دے تاکہ وہ بڑھتی مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکیں۔اس منافع کا تعلق اسٹیٹ بینک کی شرح سود میں کمی یا بڑھوتری کے عمل سے ختم کیا جائے۔ اور اس رقم پر سے ودہولڈنگ ٹیکس بھی ہٹایا جائے۔ فلاحی ریاست میں اسی قسم کے اقدامات سے ضرورت مندوںاور غریبوں کی مالی مدد کی جاتی ہے۔
مراعات کی بھرمار
حکمران طبقہ مراعات کی مد میں سالانہ اربوں روپے خرچ کرتا ہے۔ اس کو بہت سی خدمات مفت حاصل ہیں حالانکہ اس کی تنخواہ اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ خود ان خرچوں کا بوجھ اٹھا سکتا ہے۔ اگر حکمران طبقے کی مراعات کا خاتمہ کر دیا جائے اور بچ جانے والی رقم سے غریبوں کے لیے منصوبے شروع کیے جائیں تو کیا یہ مناسب بات نہیں ہو گی؟ مثلاً اس رقم سے ان کی آبادیوں میں سڑکیں بن سکتی ہیں۔ سیوریج کا نظام بچھایا جا سکتا ہے۔ صاف پانی مہیا ہو سکتا ہے۔ اسکول اور اسپتال کھولے جا سکتے ہیں۔ غرض کئی طرح کے عوام دوست کام کرنا ممکن ہیں۔ مگر ایسا صرف اسی وقت ممکن ہے جب حکمران طبقہ ذاتی خواہشات پوری کرنے کی ہوس چھوڑ کر عوام کی مشکلات کا بھی احساس کرے۔
درآمدات کی لت
زیادہ دور کی بات نہیں، 1991ء تک پاکستان صرف’’ آٹھ ارب تین سو کروڑ ڈالر ‘‘کی اشیا بیرون ممالک سے منگواتا تھا۔ جبکہ اس کی برآمدات تقریباً چھ ارب ڈالر کی تھیں۔ گویا تجارتی خسارہ صرف دو ارب تین سو ڈالر تھا۔ آج پاکستان کی امپورٹس تقریباً 35 ارب ڈالر تک پہنچ چکیں ۔ بعض اوقات تو یہ ہندسہ 40 ارب ڈالر تک جا پہنچتا ہے۔ جبکہ برآمدات بیس سے بائیس ارب ڈالر کے درمیان رہتی ہیں۔ یوں تجارتی خسارہ پندرہ سے بائیس ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ اسی تجارتی خسار ے کے باعث پاکستان میں ڈالر کی طلب بڑھتی ہے اور اس لیے امریکی کرنسی کی قدر مسلسل بلند ہوتی رہتی ہے۔ حکومت بہ دقت ڈالر کی قدر کم کرتی ہے۔ پاکستانی اشرافیہ بھی ڈالر کی ہوس میں مبتلا ہے کہ یہ منافع بخش کرنسی ہے۔ کچھ عرصہ قبل خبر آئی تھی کہ پاکستانی بینک ڈالر کی قیمت بڑھانے میں ملوث ہیں۔
مانگ تانگ کر کھانا
اشیائے خور کو مہنگا کرنے میں خود عوام میں شامل لوگوں کا بھی کردار ہے۔ ماضی میں رواج تھا کہ غریب ومتوسط طبقوں کا ہر فرد کوئی نہ کوئی کام کرتا تھا۔ کوئی کھیتی باڑی کرتا اور کوئی باغبانی۔ مویشی اور مرغیاں پالنا بھی عام تھا۔ لیکن اب بہت سے پاکستانی محنت کرنے سے گھبراتے ہیں۔ ان کی تمنا ہوتی ہے کہ کوئی مخیر ہستی انھیں پیسے یا کھانا دے ڈالے۔ اس سوچ نے انھیں نہ صرف سست بنا دیا بلکہ کسانوں ، باغبانوں اور مویشی پالنے والوں کی تعداد بھی گھٹ گئی کیونکہ یہی لوگ پہلے ایسے کام کرتے تھے۔ اس تبدیلی نے بھی وطن عزیز میں اشیائے خورونوش کی قلت پیدا کرنے میں اپنا حصّہ ڈالا۔
مانگ تانگ کر کھانا کھانے اور کمانے کا رواج کوویڈ وبا سے شروع ہوا۔ تب لاک ڈاؤن سے متاثرہ غریبوں کو مخیر مردوزن اور سرکاری و غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز)نے وسیع پیمانے پر رقم دی اور کھانے کا بھی اہتمام کیا۔ اس کے بعد قدرتی آفتوں کا شکار لاکھوں لوگوں کو بھی مالی مدد فراہم کی گئی۔ اس مالی مدد نے مگر انھیں محنت کرنے کے عمل سے بے پروا کر کے دوسروں کا محتاج بنا دیا۔ یہی وجہ ہے، اب پاکستانی شہروں کی سڑکوں پر لاتعداد غریب بیٹھے جا بجا دکھائی دیتے ہیں۔ یہ کسی مخیر کی آمد کے منتظر رہتے ہیں جو ان کو رقم یا کھانا فراہم کر سکے۔ لیکن یہ سبھی لوگ پہلے کوئی نہ کوئی مفید کام اور محنت مشقت کرتے تھے۔ مفت ہاتھ آئی رقم یا کھانے نے ان کو کاہل و غبی بنا دیا۔ وہ اب کام کاج کرنے سے گھبراتے ہیں اور ملک وقوم پر بوجھ بن چکے۔ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ ملک میں ملازمتیں موجود ہیں مگر بہت کم لوگ ہی کام کرنا چاہتے ہیں۔
[ad_2]
Source link