[ad_1]
قیام پاکستان سے ایک سال قبل سولہ برس کی عمر میں ایک پختون دوشیزہ نے اپنی انا کی تسکین یا خود پسندی کے جذبے سے ہٹ کر اپنے سماجی حالات، اپنی قوم اور ملک کے بارے میں اپنی شخصی ذمہ داریوں کا پاس رکھتے ہوئے اپنے مردوں کے سخت روایتی معاشرے اور ماحول میں بڑی جرات مندانہ انداز میں مخاطب ہوکرکہتی رہیں
’’عورتیں بھی دل رکھتی ہیں اور دلوں میں خواہشات
سر میں دماغ رکھتی ہیں اور اس میں احساسات
پتھر تونہیں ہے یہ بھی آپ ہی کی طرح جذبات رکھتی ہیں
اچھے خیالات رکھتی ہیں بل کہ آپ سے بھی زیادہ
پھرآپ نے ان بے گناہ پرندوں کو پنجرے میں قید کیوں رکھا ہوا ہے؟
اور انہیں قبرستان میں زندہ درگور کیوں کیا ہوا ہے؟
ایک تو آپ نے عورتوں کو اندھوں کی مانند تعلیم سے محروم کر دیا ہے
اسے گھر میں چوروں کی طرح قید کر دیا ہوا ہے
اور معمولی معمولی سی بات پر اسے حیوان سمجھ کر مارتے پیٹے ہو
یہ کون سا انصاف ہے؟
اگر آپ اپنے گریباں میں جھانکیں توآپ خود ہی اپنے جرم کا اعتراف کر لو گے
آپ نے غازی امان اللہ خان کوکافر قرار دے دیا
مصطفی کمال پاشا پر کفر کے فتوے صادر کر دیے
پختونوں کی آبرو باچا خان کو آپ نے غدار اور کافر جانا
اپنے لیے جنت خالی کرتے ہو اور حوُر غلام مانگتے ہو
مجھے آپ سے یہ امید ہی نہیں کہ آپ مسلمانوں کا خیرخواہ ہو سکتے ہو‘‘
آج سے 78 سال پہلے کٹر روایتی پختون معاشرے میں خواتین کے حقوق اور سماج میں ان کی صنفی حیثیت اور مقام کے بارے میں اس جرات بھری آواز نے شہر کی رنگینیوںسے میلوں دور ایک پس ماندہ پتھریلی زمین سے نکل کر پختونوں کے اذؔہان کے مقفل کواڑوں پر ایسی دستک دی جس نے ان کے اندر ایک نئی پختون روح پھونک دی ، مردوں کے سخت معاشرے اور فرسودہ روایات اور رسم و رواج کی جکڑ بندیوں میں قید ایک پختون لڑکی کا اس طرح جرات مندانہ انداز میں نسوانی جذبات اور احساسات کا شاعرانہ اظہارکسی انقلاب سے کم نہیں اور وہ بھی اس وقت کے ایک ایسے پس ماندہ علاقے اور گاؤں کی جہاں اس قسم کی زبان بولنے والی لڑکیوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا جاتا تھا مگر بچپن سے ہی قوم پرست اورانقلابی ذہن رکھنے والی اس لڑکی نے جرات سے کام لیتے ہوئے معاشرتی جمود وقیود کی پکی دیواروں میں اپنی شاعری کے ذریعے ایسے شگاف پیدا کر دیے جس نے پختون عورت کو اپنے حقوق اور مقام کاراستہ دکھایا ۔ اس دوشیزہ کے بارے میں خدائی خدمت گار تحریک کے بانی خان عبدالغفارخان المعروف باچاخان کے یہ چند جملے ہی ان کے لیے کسی بڑے ایوارڈ اور اعزاز سے کم نہیں جو باچاخان کے نام لکھے گئے ان کے خط کے جواب میں جو ’’ماہنامہ پختون‘‘ میگزین میں شائع ہوا تھا باچا خان نے ان کے بارے میں لکھے ہیں کہ
’’الف جان احمدی بانڈہ کی ایک پڑھی لکھی لڑکی ہے یہ اس کا خط ہے، اس خط کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پختون لڑکی کے دل میں پختون خواتین کی ترقی اور بہبود کے لیے ایک صادق جذبہ موجزن ہے میں بہت خوش ہوتا ہوں کہ پختون لڑکیاں اپنی بہنوں کی پس ماندہ زندگی کا احساس کریں اور اس احساس کا جذبہ اپنی قوم کے سامنے پیش کریں اگر پختون خواتین میں بیداری پیدا ہوئی تو یہ میرے دل کی ایک پرانی آرزو پوری ہو جائے گی‘‘ (’’ ماہنامہ پختون‘‘ یکم فروری1946ء ) آئیں ہم بھی الف جان کے اس خط کو بطور تبرک پڑھ لیں تاکہ ہمیں بھی معلوم ہو جائے کہ آج سے بہتر سال قبل شہرکی رنگینیوں سے کئی میلوں دور سخت روایتی اور پس ماندہ ماحول میں پلی بڑھی ایک جوان پڑھی لکھی ہوئی خدائی خدمت گار پختون شاعرہ نے اپنی قوم کی خواتین میں علم اور سیاسی شعور کو اجاگر کرنے پر کس قدر زور دیا تھا ، جس وقت باچا خان ضلع کوہاٹ کے دورہ پر تھے تو الف جان نے اپنے علاقے کے ایک مشہور خدائی خدمت گار سالار اسلم خان کے ہاتھ ایک خط پشتو زبان میں باچا خان کے نام بھیجا تھا جو بعد میں ’’پختون‘‘رسالے کے فروری1946ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا اور باچاخان نے اس پر اپنے تاثرات بھی لکھے تھے الف جان اس خط میں لکھتی ہیں کہ
’’محترم مشر! اس بارہماری دلچسپی اس وجہ سے بھی بڑھ گئی کہ ہم نے اپنے نام ووٹر لسٹ میں دیکھ لیے اور ہمیں بھی اس بات کا ادراک ہوا کہ حکومت بنانے میں ہمارا بھی اہم حصہ ہے، یہ حق تو آپ لوگوں نے ہمیں دیا ہے مگر اس حق کے استعمال کا شعور ہمارے نوجوانوں میں نہیں ہے تو بھلا ہم جیسے کنویں کے مینڈک اس کی اہمیت کیا جان پائیں گے؟ اس کے لیے بہت بڑی عقل اور فکر کی ضرورت ہے اور عقل علم سے پیدا ہوتی ہے اور ہمارے علم کی حالت یہ ہے کہ اس گاؤں میں بمشکل چار پانچ لڑکیاں’’پختون‘‘(میگزین) پڑھ سکتی ہیں ۔
پیارے فخر افغان! سنا ہے کہ آج کے دن ہندوستان کی لڑکیاں اس تحریک میں جوانوں کے شانہ بشانہ حصہ لے رہی ہیں آپ بھی ہم سے یہی امید رکھتے ہوں گے مگر آپ کی یہ امید ہم سے بے جا ہے کیوں کہ ہندوستان کی لڑکیاں تعلیم کے میدان میں ہم سے بہت آگے ہیں اور پختونوں نے ہماری تعلیم کے لیے اب تک کوئی انتظام نہیں کیا ہے اول تو گاؤں میں سکولز نہیں ہیں اور اگرکہیں خال خال موجود ہیں بھی توہمارے بڑے (مشران) لڑکیوں کی تعلیم کو غیرضروری بل کہ نقصان دہ سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ سرکار بھی ہماری تعلیم کا کوئی تسلی بخش انتظام نہیں کرتا، آپ اپنے خدائی خدمت گاروں کو ہدایت دیں کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم کو لازمی قرار دینے کے لیے اپنی بھرپور کوشش کریں ورنہ قیامت کے دن ہم اپنے مشران کے گریبانوں میں ہاتھ ڈالیں گے‘‘۔
پشتو زبان کی یہ معروف شاعرہ اورخدائی خدمت گار تحریک کی رکن الف جان خٹکہ ضلع کرک کے احمدی بانڈہ میں برٹش آرمی کے ایک ملازم غنی شاہ کے ہاں دس ستمبر1931ء میں پیدا ہوئی تھیں آٹھویں جماعت تک تعلیم اپنے گھر میں ٹیوشن کے ذریعے حاصل کی تھی بعد میں پرائیوٹ طور پر میٹرک سے لے کر اردو اور پشتومیں ماسٹرکیا۔ اگرچہ ان کے والد فوج برطانیہ میں ملازم تھے اور ان کے دوبیٹے جہلم کے ایک سکول میں تعلیم حاصل کر رہے تھے مگر اپنی بیٹی کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ گھر کی دہلیز سے نکل کر کسی سکول یا کالج میں تعلیم حاصل کرے مگر داد دینی چاہیئے ، الف جان کے ان دونوں بھائیوں شہزاد خان اور صاحب زادہ خان کو جنہوں نے اپنے والد کی مخالفت کے باوجود اپنی بہن کا ساتھ دیا اور انہیں یہ موقع فراہم کر دیا کہ وہ تعلیم حاصل کریں ، الف جان نے ہوش سنبھالتے ہوئے اپنے گھر میں خدائی خدمت گار تحریک اور اپنے وطن کی آزادی جیسے موضوعات سے آشنا ہوئیں کیوں کہ ایک جانب اگر ان کے والد دل سے باچاخان کے سخت پیروکار تھے تو دوسری جانب ان کے ماموں شیرحسن وغیرہ خدائی خدمت گار تحریک کے سرگرم کارکن تھے یہی وجہ تھی کہ الف جان بچپن سے ہی اسی تحریک کی طرف مائل ہو گئیں اور باقاعدہ خدائی خدمت گار تحریک میں حصہ لینا شروع کر دیا ۔ اپنے علاقے کی خواتین میں سیاسی، قومی اورآزادی کی آگہی پیدا کرنے کے لیے گھر گھر پھرتی رہیں اور تقریریں کیا کرتی تھیں ۔ ساتھ تحریک کے میگزین’’پختون‘‘ میں اپنی شاعری اور مضامین کے ذریعے بھی پختون خواتین کے حقوق ، اپنی قوم میں اتفاق اور یکجہتی کے لیے آواز اٹھاتی رہیں وہ چھٹی جماعت کی طالبہ تھیں کہ شاعری شروع کر دی اور ردیف، قافیہ، وزن اور بحور کے سلسلے میں گاؤں ٹیری سکول کے ہیڈ ماسٹر علی محمد سے اصلاح لیا کرتی تھیں جو خود ایک اچھے شاعر تھے ، علی محمد کی بیٹیاں الف جان کی سہیلیاں تھیں تو ان کے ذریعے الف جان اپنا کلام بھیجتی اور اس میں علی محمد اصلاح کر کے واپس کر دیا کرتے تھے ۔ الف جان خٹکہ 1954ء میں محکمہ تعلیم میں استانی بھرتی ہو گئی تھیں اور دوران ملازمت بھی اپنے شاگردوں کو اپنے ملک وقوم سے پیار کرنے اور اس کی حفاظت کرنے کا درس دیا کرتی تھیں۔ 1968ء میں ان کی محنت اور صلاحیت کو دیکھتے ہوئے محکمہ کے آفیسروں نے انہیں ترقی دے کر ہیڈماسٹر کی پوسٹ دے دی اور کافی عرصے تک اسی عہدے پر اپنی خدمات سرانجام دیتی رہیں ۔ 1991ء میں وہ گورنمٹ گرلزہائی سکول ٹیری سے بطور پرنسپل ریٹائر ہو گئی تھیں ۔ بقول شاعر
کچھ باتوں پرکھل کر رونا پڑتا ہے
کچھ صدمے صحراوں جیسے ہوتے ہیں
جس ہیڈ ماسٹر علی محمد سے الف جان اپنی شاعری کی اصلاح لیا کرتی تھیں بعد میں اسی کے بیٹے ظفرجو خود بھی سکول ماسٹر تھا ان کی شادی ہوئی مگر چند ماہ بعد ان کے شوہر نے ان کی ادبی اور سیاسی سرگرمیوں پر اعتراضات شروع کر دیے اور وہ چاہتے تھے کہ ان کی بیوی شاعری اور سیاست سے مکمل کنارہ کشی اختیار کر لیں مگر الف جان اس وقت ان کی اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھیں جس کی وجہ سے بات بڑھتی گئی ۔ آپس میںاختلافات پیدا ہوئے جوآخرکار ایک دوسرے سے الگ ہونے پر منتج ہوئے اور جن چیزوں یعنی شاعری اور سیاست نے الف جان کو اپنے جیون ساتھی سے الگ کر دیا بعد میں انہوں نے دونوں شعبوں کو خیرباد کہہ دیا ، یہاں تک کہ اپنی ساری تخلیقات مضامین کوآگ کی نذرکر دیا ، علیحدگی کے بعد باقی ساری عمر اپنے والد ہی کے گھر میں گزارنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ، گھر کے تمام افراد ان ہی کی وجہ سے زیور تعلیم سے آراستہ ہوئے ۔ وہ اس معاملے میں کسی کے ساتھ رو رعایت برتنے کے حق میں نہیں تھیں ۔ الف جان خٹکہ جب تک حیات تھیں بظاہر تو صحت مند نظر آتی تھیں مگر ایک طرف پیرانہ سالی اور دوسری طرف ہائی بلڈ پریشر اور دل کے عارضے نے ان کے حافضے کو کافی حد تک متاثر کیا تھا جس کی وجہ سے انہیں اپنے ماضی کے بارے میں بہت کچھ یاد نہیں تھا ۔ ان سے ان کے گھر میں ایک ملاقات کے دوران بتایا کہ باچاخان اور خان عبدالولی خان جب بھی ان کے علاقے کا دورہ کرنے آتے تھے تو الف جان سے ضرور ملاقات کیا کرتے تھے اور ان کے سر پر دست شفقت رکھا کرتے تھے اپنے دور کے شعراء میں وہ فضل رحیم ساقی کی شاعری کی بہت زیادہ تعریف کیا کرتی تھیں ۔ اگرچہ اب الف جان کے پورے گھرانے کا اے این پی سے کوئی تعلق نہیں رہا مگر الف جان سیاست دانوں میں باچاخان کو عظیم انسان اور ان کی وفات کو پختونوں کے لیے قومی نقصان قرار دیتی رہیں ان کی وفات کی خبر سن کربہت روئی تھیں ، پانچ وقت نماز اور قرآن پاک کی تلاوت کی سخت پابند رہیں ، زمانہ صحت یابی میں مختلف کتابوں کا مطالعہ کیا کرتی تھیں ، الف جان کے طور اطوار سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا تھا کہ وہ ایک سلیقہ شعار اور نفاست پسند خاتون ہیں ۔ ملکی صورت حال پر انتہائی رنجیدہ رہتی تھیں، ایک ملاقات میں کہا تھا کہ ہمیں حقیقی معنوں میں ایک قوم بننا ہو گا ، ہمیں آپس کے اختلافات ختم کرنا ہوں گے ، دنیا کے دیگر ممالک اور اقوام کے ساتھ معاشی اور تہذیبی ترقی کی دوڑ میں اپنی ایک ایک اینٹ کی مسجد سے باہر نکل کر ایک ہی صف میں کھڑا ہونا ہو گا ، ہمارے آبا ؤ اجداد نے بڑی قربانیاں دے کر یہ ملک حاصل کیا ہے ، آزادی کی خاطر اپنا سب کچھ داو پر لگا دیا تھا اس لیے اب اس ملک کی ترقی اور حفاظت ہم سب پر فرض ہے تاکہ ہم اپنی آنے والی نسل اور تاریخ کے سامنے سرخُرو رہیں ۔ حکومت یا دیگر اداروں سے کوئی مطالبہ کے سوال پر الف جان خٹکہ نے بتایا تھا کہ میں نے سرکار کی نوکری کی جس کا مجھے معاوضہ ملتا رہا، بطورشاعرہ ادیبہ میں نے پختونوں کے حقوق کی خاطر جوکچھ لکھا وہ میرا قومی اور اخلاقی فرض بنتا تھا، جتنا مجھ سے ادا ہو سکتا تھا میں نے ادا کیا، کیوں کہ شاعر ادیب بھی اپنے معاشرے کا ایک فرد ہوتا ہے اور سماج میں ان کا جو رول بنتا ہے اسے خلوص اور بغیرکسی صلہ وستائش کے ادا کرنا چاہیئے اور ایسا ادب تخلیق کرنا چاہیئے جو انسانوں میں پیار اور محبت کے جذبات اور احساسات پیدا کرے ۔ n
[ad_2]
Source link