[ad_1]
(دوسری قسط)
ہم ابھی تریشنگ میں ہی تھے کہ تیز بارش نے ہمیں آن لیا۔ پہاڑوں پر یہ ایک معمولی بات ہے۔ یہاں تقریباً روز ہی بارش ہوتی رہتی ہے۔ پہلے پہل پہاڑوں کی بارش سے ڈر لگتا تھا مگر اب پہاڑوں کی تیز دھوپ سے ڈر لگتا ہے۔ ایک بات واضح کرلیں کہ ماضی کے تریشنگ اور موجودہ تریشنگ میں بہت فرق ہے۔ سڑک نہ صرف پکی ہے بلکہ وسیع بھی ہے۔ گاؤں کی واحد پکی سڑک جہاں آپ کو کیچڑ نہیں ملتا۔ تریشنگ کی اس پکی سڑک پر اب نہ صرف جیپیں دوڑتی ہیں بلکہ تریشنگ کے نوجوان یہاں موٹرسائیکل بھی دوڑاتے ہیں۔ یہاں بہت سارے ہوٹل بن چکے ہیں۔
ڈھابے بن رہے ہیں اور ہلکے پھلکے کریانہ اسٹور کا تو پوچھیں ہی مت۔ الغرض دنیا کی تقریباً ہر وہ نعمت جس کا آپ اپنی عام زندگی میں تصور کرسکتے ہیں وہ آپ کو ترشنگ میں ضرور ملے گی۔ بارش رکی تو میں نے دکان سے باہر نکل کر نانگا پربت کو دیکھا اور ہم آگے کی طرف چل پڑے۔ ایک وقت تھا جب شمال کے لوگوں کو غیرملکیوں کو دیکھنے کی عادت تھی۔ شمالی بچے پاکستانیوں کو ایک عجیب سی مخلوق سمجھتے تھے۔ وقت کا ظالم چکر ایسا گھوما کہ اب شمال کے بچے جب غیرملکیوں کو دیکھتے ہیں تو تعجب کا اظہار کرتے ہیں۔
تریشنگ میں ایک جگہ میدان میں نوجوان لڑکے فٹ بال کھیل رہے تھے۔ کھیل کود کرتے نوجوان مجھے ہمیشہ ہی قابلِ تعریف لگتے ہیں کہ جسم کو توانا رکھنا بے حد ضروری ہے اور خاص کر اگر پچیس سال کی عمر تک آپ کی فٹنس بن گئی تو بس پھر آگے خیر ہی سمجھیں۔ اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ تریشنگ میں دیکھنے کے لیے کیا ہے تو جواب تریشنگ ہی ہو گا۔ تریشنگ میں ایسا کچھ نہیں جسے آپ نظرانداز کر سکیں۔
میرا بس چلتا تو وادیِ روپل کے ایک ایک گاؤں میں پورا ایک دن گزار دیتا مگر اتنا وقت کس کے پاس تھا۔ میرے پاس تو فقط چند آزاد گھڑیاں تھیں اور ان ہی آزاد گھڑیوں میں، میں نے نانگا پربت کے بیس کیمپ 2 تک جانا تھا۔ میرے پاس بس اتنا ہی وقت تھا کہ راستے میں آنے والے ہر خوب صورت گاؤں میں چند لمحے گزار دوں۔ تریشنگ میں بھی بس ایک سرسوں کے کھیت میں رکے جس کے بالکل پیچھے نانگا پربت کھڑا مسکرا رہا تھا۔ مجھے ابھی نانگا پربت کے مزید قریب جانا تھا۔ اس کی گود میں سر رکھ کر سونا تھا، اس لیے تریشنگ کو بس یہیں سے خدا خافظ کہا اور آگے بڑھ گیا۔
سوشل میڈیا کے بہت سے فوائد ہیں۔ ایسے ہی میرے ایک فیس بک کے دوست محمد بلال نے نانگا پربت کے پہلے منظر پر میری تصحیح کی کہ عام طور پر تریشنگ جاتے ہوئے جس پہاڑ کو نانگا پربت سمجھا جاتا ہے وہ نانگا پربت نہیں بلکہ نانگا پربت سے جڑا ایک حصہ ہے۔ دراصل وہ چونگڑا اور رائیکوٹ پیک ہے جو نانگا پربت کا حصہ ضرور ہیں مگر نانگا پربت نہیں ہیں۔
دراصل نانگا پربت وہاں سے نظر نہیں آتا۔ تریشنگ سے بھی بالکل معمولی سا نظر آتا ہے۔ اس کا اصل منظر روپل کے بعد کھلتا ہے۔ چھوٹی سی پگڈنڈی ہے۔ ایک وقت تھا کہ یہاں سے صرف پیدل ٹریک جاتا تھا اور سامنے نانگا پربت کے نظارے۔ یہیں سے آوارہ گرد لوگ تریشنگ سے ٹریک کر کے دو گلیشیئر کراس کرتے ہوئے ہرلنگ کوفر پہنچتے تھے۔ تب روپل بھی جیپ نہیں جاتی تھی۔ روپل فیس سے نانگا پربت تقریباً 4500 میٹر اٹھتا ہے اور بادلوں کو چیرتا ہو آسمان میں گم ہوجاتا ہے۔ یہ دیوار تمام آٹھ ہزاری چوٹیوں میں سے بلند ہے، کے ٹو اور ایورسٹ سے بھی بلند۔ رب ذوالجلال اس کا حسن قائم رکھے یہاں سے کلائمنگ کرنے کی جرأت گنے چنے لوگ ہی کرتے ہیں۔
ایک اور دل چسپ بات دیکھیں کہ میں نانگا پربت کے بیس کیمپ 1 اور بیس کیمپ 2 کو کمیپ 1 اور کمیپ 2 سے مکس کر رہا تھا۔ سنا تھا نانگا پربت کی شاید چار ہی کمیپ سائٹس ہیں۔ بیس کیمپ 2 پہنچ کر میں بہت خوش تھا کہ میں کیمپ 2 تک تو میں بھی پہنچ گیا ہوں۔ مطلب نانگا پربت کی چوٹی کو میں بھی سَر کر سکتا ہوں۔ یہ تو میری خوش قسمتی تھی کہ وادیِ روپل میں، میں نے اپنی ان باتوں کو صرف اپنے دماغ میں ہی رکھا ورنہ یہ بات یقینی تھی کہ مجھے وادیِ روپل میں جوتے پڑنا شروع ہوتے اور استور تک پڑتے۔ محمد بلال نے بعد میں کیمپ 2 اور بیس کیمپ 2 میں فرق سمجھایا اور جب فرق سمجھ آیا تو میرا ہنس ہنس کر برا حال تھا۔ میں نے فوراً اپنا چہرہ شیشے میں دیکھا۔ میں اصل میں دیکھنا چاہتا تھا کہ کیمپ 2 تک جانے والے خوش فہمی میں مبتلا چہرے کیسے ہوتے ہیں۔
ہمارا تریشنگ سے وادیِ روپل کی طرف سفر جاری تھا۔ یہاں بھی دِیر اور چترال کی طرح دو روپل ہیں۔ روپل زیریں اور روپل بالا۔ روپل کے پسِ منظر میں پہاڑ پھیکے رنگ کے ہیں اور کم بلندی کے ہیں۔ وادیِ روپل میں درخت کم ہیں، کھیت زیادہ ہیں۔ کھیتوں میں مختلف فصلیں لگی تھیں۔ کہیں سرسوں تھی تو کہیں گندم۔ وادیِ روپل کی سب سے اچھی بات یہ تھی کہ فصل جو بھی تھی، ہر فصل کے اطراف میں پھول کِھلے ہوئے تھے جو کھیتوں کو اور بھی دل کَش بنا دیتے تھے۔ جس تیزی سے ہم تریشنگ سے گزرے تھے، اس سے زیادہ تیزی سے روپل سے گزر رہے تھے۔
میں پھر وہی بات کہوں گا کہ اگر آپ کے پاس وقت ہو تو یہاں کے ایک ایک گاؤں کو ایک دن دیں۔ اگر ایک دن نہیں دے سکتے تو کم از کم چار سے پانچ گھنٹے تو ہر گاؤں کا حق ہے مگر مجھے میرے ابراہیم کی فکر تھی۔ وہ گذشتہ رات بھی مجھے یاد کرتے کرتے سو گیا تھا۔ کچھ دیر پہلے کال پر اذلان بتا رہا تھا کہ کیسے گذشتہ رات ابراہیم روتے ہوئے مجھے یاد کر رہا تھا۔ میرا جی چاہا کہ اسی وقت واپس مڑ جاؤں مگر تھوڑی دیر کے لیے جذبات کو ایک طرف رکھا، نم آنکھوں سے نانگا پربت کو دیکھا اور دل ہی دل میں ابراہیم کو بہت سا پیار کر کے آگے بڑھ گیا۔
میرا راہ نما مجھے بتانے لگا کہ روپل میں برف سب سے زیادہ ہوتا ہے یہاں تک کہ ہرلنگ کوفل بھی بند ہوجاتا ہے۔ روپل سے تمام لوگ اپنے مال مویشی لے کر پیچھے گاؤں میں چلے آتے ہیں۔ عام طور پر روپل والے تریشنگ یا چورت کا ہی انتخاب کرتے ہیں۔ برف ترشنگ اور چورت میں بھی ہوتی ہیں مگر اتنی نہیں ہوتی جتنی روپل میں ہوتی ہے۔ روپل زیریں ہو یا روپل بالا، یہاں نہ تو زیادہ گھر ہیں اور نہ ہی زیادہ ہوٹل یا پھر آپ یوں سمجھ لیں کہ مجھے گھر بہت کم نظر آئے کیوں کہ میں تو صرف مرکزی سڑک پر ہی تھا۔ نیچے اترنے کا نہ میرے پاس وقت تھا اور نہ پیسے۔ دو دنوں کے لیے میرے پاس بائیک تھی اور ان دو دنوں میں صرف ہرلنگ کوفل اور لاتبو بیس کیمپ ہی ہو سکتا تھا۔
عین ممکن تھا کہ مرکزی سڑک سے ہٹ کر بھی کہیں گھر ہوں۔ روپل زیریں میں نانگا پربت اتنا واضح نظر نہیں آتا مگر روپل بالا میں نانگا پربت بالکل آپ کے سامنے ہوتا ہے۔ دریائے روپل نہ جانے کہیں گم ہوا گیا تھا۔ یہ ہم سے ایسا بچھڑا کہ اب نظر نہ آتا تھا اور نہ ہی کہیں دور اس کے پانیوں کا شور سنائی دیتا تھا۔ سورج اب رفتہ رفتہ ڈوبنے لگا تھا۔ میں ہر صورت دن کی روشنی میں ہرلنگ کوفر پہنچنا چاہتا تھا۔ ہرلنگ کوفر پہنچنے کی جلدی مجھے ہے، یقیناً آپ کو تو نہیں ہو گی۔ تو کیوں نہ اس فراغت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تارڑ صاحب کی کتاب نانگا پربت کا اقتباس پڑھ لیں۔ ہاتھ میں اگر بلیک کافی ہو تو کیا ہی بات ہے۔ بلیک کافی سے یاد آیا، میری بلیک کافی ختم ہوئی پڑی ہے۔
رات کے اس پہر اب مجھ سے کافی پیے بنا آگے نہ بڑھا جائے گا۔ آپ اپنی بلیک کافی بنائیں، میں تب تک ذرا اپنے قریبی سٹور سے بلیک کافی کی بوتل پکڑ لوں۔ بھائی میں تو ساتھ دو ابلے ہوئے انڈے بھی کھاؤں گا۔ گرمی ہے تو کیا ہوا؟ اب بندہ دل پشوری بھی نہ کرے۔ بھائی سیدھی سی بات ہے مجھے تو ابلے ہوئے انڈے کھانے کا بہت مزہ آتا ہے خواہ دن جون کے ہوں یا جولائی کے مگر شرط یہ ہے کہ زردی ذرا کچی کچی سی ہو۔ پکی ہوئی زردی والے انڈے مجھے ذرا نہیں بھاتے۔ آپ اپنی کافی بنائیں، میں تب تک سٹور سے کافی پکڑ لوں۔ یاد رہے کہ بلیک کافی میں نہ دودھ ڈالنا ہے اور نہ چینی۔ خبردار کوئی دو نمبری نہیں کرنی۔ چلیں پہلے اقتباس پڑھتے ہیں۔
’’دیا میر کو پریوں کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ مقامی آبادی کا عقیدہ ہے کہ نانگا پربت کی چوٹی پریوں کی ملکہ کی رہائش گاہ ہے۔ داستانوں میں آیا ہے کہ وہ ایک ایسے برفانی قلعے میں رہتی ہے جو شفاف اور دبیز برف کا بنا ہوا ہے اور برف کے بڑے بڑے مینڈک اور برف کے ایسے سانپ جو کئی کلومیٹر لمبے ہیں اس ملکہ کی حفاظت پر مامور ہیں اور ان علاقوں میں رہنے والی عورتیں رنگین کپڑوں اور شوخ زیوروں سے اجتناب کرتی ہیں کیوں کہ انھیں پہننے سے پریاں ان سے حسد کر سکتی ہیں اور ان پر جادو کر سکتی ہیں۔‘‘ جہاں میری آپ نے اتنی فضول باتیں سنی ہیں، وہیں دو چار کام کی باتیں بھی سن لیں۔
نانگا پربت دنیا کا نواں سب سے بڑا پہاڑ اور پاکستان کی دوسری بلند ترین چوٹی بھی ہے۔ یہ پہاڑ ہمالیہ سلسلے میں واقع ہے۔ اس کی اونچائی 8126 میٹر ہے۔ یہ پاکستان کے علاقہ گلگت بلتستان کے علاقہ میں واقع ہے۔ یہ کوئی واحد پہاڑ نہیں ہے بلکہ بلند ہوتی گئی پے در پے پہاڑوں اور عمودی چٹانوں پر مشتمل ایک ایسا دیو ہیکل مٹی اور برف کا تودہ ہے جو برفانی چوٹیوں پر اختتام پزیر ہوتا ہے اور یہ بلند اور پر وقار چوٹی شان و شوکت کے ساتھ کھڑی ہے۔ یہاں نانگا پربت کے سائے میں شیر دریا (دریائے سندھ) بہہ رہا ہے۔ یہ دنیا کے کسی اور پہاڑ سے زیادہ انسانوں کے لیے سخت سنگدل اور بے رحم ہے۔
یہ پہاڑ اب تک بتیس سے زائد کوہ پیماؤں کی جان لے چکا ہے۔ نانگا پربت دنیا کے بلند پہاڑوں میں یہ سب سے آخر میں سَر ہوئی۔ نانگا پربت پر پہنچنے کے لیے قابل اعتماد سامان کے ساتھ ساتھ صبرواستقلال اور حالات کا مقابلہ کرنے کے ذہنی صلاحیت کی ضرورت ہونی چاہیے۔ بیس ہزار فٹ سے بلندی پر آکسیجن کی کمی جسم، دماغ اور جذبے کو کمزور کردیتی ہے اور رد عمل خطرناک حد تک سست پڑ جاتا ہے۔ توانائی ختم ہوجاتی ہے اور قوت ارادی کمزور پڑجاتی ہے۔ نانگا پربت کو عام طور تین اطراف سے سَر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، جن میں شمالی طرف سے فیری میڈوز، مغربی طرف سے دیامیر اور جنوبی طرف سے ہرلنگ کوفر شامل ہیں مگر زیادہ تر ٹیمیں اسے مغربی طرف یعنی دیامیر کی طرف سے سَر کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ واضح رہے کہ نانگا پربت کو سب سے پہلے آسٹریا کے کوہ پیما ہرمن بوہلر نے 3 جولائی 1953 میں سَر کیا تھا۔
قدیم عقائد کے مطابق ہمالیہ اور قراقرم کی دوسری بلند چوٹیوں کی طرح اسے بھی متلون مزاج روحوں کا مسکن سمجھا جاتا تھا۔ اس قرب و جوار میں آباد مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کی چوٹیوں پر بھی پریوں کے بسیرے ہیں اور وہ اس کی حفاظت کرتی رہتی ہیں۔ جب سورج کی روشنی اپنے شباب پر ہوتی ہے تو اس بلند پہاڑ کی بلند گھاٹیوں سے دھواں سا اٹھتا نظر آرہا ہوتا ہے تو مقامی لوگ کہتے ہیں کہ پریاں اپنا کھانا پکارہی ہیں۔ اس پہاڑ پر رہنے والی کچھ اور دوسری مخلوق جن میں کچھ ڈراوَنی اور خوفناک ہیں اور ان میں شیطانی روحیں، دیو ہیکل مینڈک، سو سو فٹ لمبے برفانی اژدھے بستے ہیں۔ یہ سب کچھ بڑا رومانی لگتا ہے لیکن آج بھی وہاں کے لوگ اس پر یقین رکھتے ہیں۔
نانگا پربت کے مشرقی جانب استور کی طرف سے اسے دیکھا جائے تو یہ نانگا پربت سر اٹھائے بادلوں سے نکلا ہوا ناقابل یقین حدت تک انتہائی خوب صورت نظر آتا ہے۔ یہ اپنی بلندیوں اور وسعتوں میں کھڑا نہایت معصوم دکھائی دیتا ہے۔ جس میں پاکیزگی، سکون، شکوہ اور نزاکت اور لطافت کے ساتھ اس دنیا کا حصہ نہیں بلکہ آسمانی دنیا کی مخلوق نظر آتا ہے۔ یہ ایک ایسا نظارہ ہوتا ہے جو دیکھنے والوں کے وجود کے اندر حلول کرجاتا ہے۔ جہاں سے پاکیزگی اور محبت کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ غروب آفتاب کے وقت یہ گلابی روشنی کے سمندر سے ابھر ہوا موتیوں کا ایک جزیرہ لگتا ہے۔ لیکن یہ صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو اسے بڑی محبت اور عقیدت سے دور دراز کا سفر طے کرکے دیکھنے یا اسے سر کرنے آتے ہیں۔ لیکن اس کے دامن میں سنگلاخ چٹانوں پر جو لوگ رہتے ہیں ان کے لیے یہ ایک ننگا پہاڑ ہے۔
اسلام آباد سے گلگت جانے والے ہوائی جہاز نانگا پربت کے پاس سے گزرتے ہوئے کافی وقت لیتے ہیں۔ ہوائی جہاز کی کھڑکیاں کے سامنے عمودی سفید چٹانیوں کی ایک پوری دنیا جن میں دندانے دار سطحیں اور بدنما تھوتھیاں نکالے گلیشیئر کالی چٹانوں میں گھری تنگ گھاٹیوں میں سے جھانک رہی ہوتی ہیں۔ ادھر ادھر بکھری پڑی چٹانوں کے بیان میدان آہستہ آہستہ گزر رہے ہوتے ہیں۔
نانگا پربت کو سر کرنے کی کوشش کرنے والی پہلی کوہ پیما مہم 1895ء میں برطانیہ کی تھی۔ مگر وہ اس کی چوٹی کو سر کرنے میں ناکام رہی اور اس کی دو اراکین لاپتا اور ایک ہلاک ہوگیا۔ اس کے بہت سے لوگوں اسے سَر کرنے کی کوشش جاری رکھیں اور اس کوشش میں بہت سے کوہ پیما ناکامی کے ساتھ ساتھ پچاس کے لگ بھگ کوہ پیما اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس لحاظ سے یہ کوہ پیماؤں دشمن، قاتل پہاڑ اور جبل الموت مشہور ہوگیا۔ اس کے باوجود کوہ پیماؤں کا جذبہ سرد نہ ہوا اور اسے سر کرنے کوششیں جاری رہیں۔ آخر کار اس پہاڑ کی حفاظت کرنے والی روحیں نرم پڑ گئیں اور 1953ء میں اس چوٹی کو آسٹریا کے ایک جرمن کوہ پیما ہرمن بوہلر نے اسے سر کر لیا۔ اس طرح دنیا کہ یہ آٹھویں بلند ترین چوٹی سب سے آخر میں سر ہو گئی اور انسانی عزم کے سامنے سرنگوں ہو گئی۔ یہ پہاڑ جرمن اور جاپانیوں کا پسندیدہ پہاڑ اور اس سر کرنے کی کوشش میں مرنے والے لوگوں میں اکثریت جرمنوں اور جاپانیوں کی ہے اور بہت جاپانی اس کوشش میں جان سے ہاتھ بیٹھے ہیں۔
……………
بات ہے 71-1970 کی جب پاکستان اپنی سالمیت کی ایک خود ساختہ جنگ لڑ رہا تھا۔ ایک ایسی جنگ جو ہم جمہوری طریقے سے بآسانی جیت سکتے تھے مگر ہم نے اپنی اَناپرستی میں آدھا ملک گنوا دیا مگر پارلیمان کو نہیں چلنے دیا۔ یہاں میدانوں میں دو بھائی مجیب الرحمٰن اور ذوالفقار علی بھٹو اپنی الگ ہی مالا جپ رہے تھے اور وہاں دو بھائی گینتھر میسنر اور رین ہولڈ میسنر دور پہاڑوں میں کوئی اور ہی پروگرام بنائے بیٹھے تھے۔
اٹلی کے دو سر پھرے بھائی 1970 میں نانگا پربت روپل فیز کے بیس کیمپ پر موجود تھے۔ بڑا بھائی رین ہولڈ میسنر تھا جب کہ چھوٹا بھائی گینتھر میسنر تھا۔ دونوں کا ارادہ تھا کہ نانگا پربت کو اس کے روپل فیز کی طرف سے سمٹ کیا جائے۔ یہاں میں آپ کو بتانا چلوں کہ رین ہولڈ میسنر کو دنیا کی چودہ آٹھ ہزار سے بلند چوٹیوں کو بنا آکسیجن کے سَر کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ خدا نے شاید بڑی فرصت سے دونوں بھائیوں کے پھپھڑے بنائے تھے۔ روپل فیس سے ہی نانگا پربت تقریباً 4500 میٹر اٹھتا ہے اور بادلوں کو چیرتا ہو آسمان میں گم ہو جاتا ہے۔ یہ دیوار تمام آٹھ ہزاری چوٹیوں میں سے بلند ہے، کے ٹو اور ایورسٹ سے بھی بلند۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ نانگا پربت کو بیس کیمپ سے لیکر چوٹی تک چار کیمپوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ بیس کیمپ جو بنیادی طور پر سطع سمندر سے 4200 میٹر کی بلندی پر ہے۔ کوئی بھی ٹمییں جو چوٹی سر کر کے لئے جاتی ہیں، وہ پہلے بیس کیمپ پر کچھ آرام کرتے ہیں۔ اپنے آپ کو ماحول اور اونچائی کے مطابق ایڈجسٹ کرتے ہیں اور پھر کیمپ 1 کی طرف چڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ بیس کیمپ سے آٹھ سو میٹر اوپر نانگا پربت کیمپ 1 ہے جس تک پہنچنے کے لیے آپ کو راستے میں آنے والے گلیشیئرز اور برف کی چٹانوں کو پار کرنا پڑتا ہے۔ کیمپ 1 پہنچنے پر آپ سطع سمندر سے تقریباً پانچ ہزار فٹ کی بلندی پر ہوتے ہیں۔
کیمپ 1 سے مزید ایک ہزار میٹر آپ اونچائی چڑھتے جائیں تو آپ کیمپ 2 پر ہوں گے۔ کیمپ 2 کے راستے میں آپ کو نوکیلی چٹانوں سے تو واسطہ پڑے گا ہی مگر ساتھ میں آپ کو ہوا کے کم دباؤ کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ کیمپ 2 میں ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ سطع سمندر سے چھ ہزار میٹر کی بلندی پر آ چکے ہیں۔
کیمپ 2 سے مزید 1200 میٹر اوپر کمیپ 3 ہے۔ کیمپ 3 میں ہونے کا مطلب ہے کہ آپ زیادہ تر پہاڑ چڑھ چکے ہیں اور سطع سمندر سے 7200 میٹر کی بلندی پر ہیں۔
کیمپ 3 سے اوپر صرف اور صرف کیمپ 4 ہے۔ دونوں کیمپوں کے درمیان فاصلہ چھ سو میٹر کا ہے۔ جوں ہی کوئی کوہ پیما کیمپ 4 میں پہنچتا ہے تو وہ 7800 میٹر کی بلندی پر آ چکا ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ نانگا پربت کی چوٹی سطع سمندر سے 8126 میٹر بلند ہے اور کیمپ 4 تقریباً 7800 میٹر ہے۔ کمیپ 4 سے اوپر ڈیتھ زون ہے۔ ڈیتھ زون میں داخل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی موت کبھی بھی کسی بھی طریقے سے ہو سکتی ہے۔ کیمپ 4 سے اوپر صرف اور صرف ایک ہی شے ہے اور وہ ہے نانگا پربت کی چوٹی۔
اکثر کوہ پیما سنو بلائنڈنیس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سنو بلائنڈنیس کوہ پیمائی کے دوران کوہ نوردوں کو متاثر کرنے والی ایسی بیماری ہے جس کی وجہ سے ان کی آنکھیں بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ نانگا پربت جیسے بلند پہاڑوں پر سنو بلائنڈنیس کا خطرہ ہر وقت موجود رہتا ہے اور اس خطرے سے بچاؤ کے لیے خصوصی قسم کی عینکیں استعمال کی جاتی ہیں۔ برف پر جو دھوپ پڑتی ہے اس میں چمک بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس سے بہت تیز عکس پیدا ہوتا ہے جو آنکھوں کو خراب کرتا ہے۔ اس کی دوسری وجہ تیز ہوا کا چلنا ہوتا ہے جو آنکھوں کے اوپری حصے کو متاثر کرتا ہے۔ اس سے آنکھوں میں جلن پیدا ہوتی ہے اور آنکھیں کھولنا ممکن نہیں رہتا ہے۔‘
اصل کہانی کچھ سادہ سی یہ ہے کہ میسنر بھائیوں کا ارادہ کچھ یہ تھا کہ وہ روپل فیز کی جانب سے چڑھنا شروع کریں گے اور دیا میر کی جانب سے نیچے اتریں گے۔ اس سے ان کے دو کام ہو جاتے۔ نانگا پربت بھی سَر ہو جاتی اور وہ تمام آٹھ ہزاری چوٹیوں میں سے اونچی دیوار کو بھی پار کر لیتے۔ مگر قدرت کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا۔ یہاں ایک اور بات یاد رکھیے گا کہ دونوں بھائی الپائن انداز میں یعنی بنا آکسیجن کے نانگا پربت پر چڑھ رہے تھے۔ کیمپ 4 تک تو تمام معاملات تقریباً ٹھیک رہے مگر جوں ہی دونوں بھائی کیمپ 4 میں پہنچے تو موسم انتہائی خراب ہو گیا۔ یا یوں سمجھ لیں کہ کیمپ 4 سے پہلے ہی موسم خراب تھا مگر خراب موسم کے باوجود دونوں بھائی کمیپ 4 تک پہنچنے میں کام یاب ہوگئے۔ موسم اس قدر خراب تھا کہ دونوں میں سے کوئی بھی کیمپ 4 سے ڈیتھ زون میں جانے پر رضا مند نہیں ہوا اور دونوں نے مشترکہ طور پر دیامیر کی طرف اترنے کا فیصلہ کیا۔
کیمپ 4 میں دونوں بھائیوں کے درمیان کچھ اختلافات بھی ہوئے جن کے ذکر سے مضمون بہت لمبا ہوتا چلا جائے گا۔ مختصر یہ کہ دونوں بھائیوں نے عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈیتھ زون میں داخل ہونے کی بجائے دیامیر کی طرف اترنے کا فیصلہ کیا۔ واپسی کے سفر میں رین ہولڈ میسنر کا چھوٹا بھائی گنتھر میسنر لاپتا ہوگیا۔ بقول رین ہولڈ میسنر اسے علم نہیں ہوسکا کہ وہ کہاں لاپتہ ہوا۔ کہیں برف کی کھائی میں گر گیا یا طبعیت خراب ہونے کی وجہ سے وہیں کہیں بیٹھ گیا اور موت کی وادی میں چلا گیا۔ رین ہولڈ میسنر دیامیر بیس کیمپ پہنچنے میں کام یاب ہو گیا مگر اس کی اپنی حالت انتہائی نازک تھی۔ جیسے تیسے کر کے وہ پہلی آبادی میں پہنچا تو مقامی افراد نے اسے کوئی انگریز سمجھ کر اسے گلگت ہسپتال پہنچا دیا جہاں سے اسے پنڈی منتقل کیا گیا۔ صحت یاب ہونے پر وہ اپنے وطن واپس لوٹ گیا۔
حیرت انگیز طور پر گینتھر میسنر کا بوٹ بہت عرصے بعد کوہ پیماؤں کو نانگا پربت کی برفوں سے ملا۔ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلی۔ اس وقت کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ جوتا گینتھر میسنر کا ہے۔ جوتے کی تصویر ہر طرف پھیل گئی۔ رین ہولڈ میسنر نے اپنے چھوٹے بھائی گینتھر میسنر کا جوتا پہچان لیا۔ وہ صرف ایک جوتے کو لینے کے لیے دوبارہ پاکستان آیا۔ رین ہولڈ میسنر کو اس علاقے سے اتنی محبت تھی کہ اس نے یہاں فلاحی کام بھی شروع کروائے جن میں اسکول اور فری ڈسپنسری بھی شامل ہیں۔
……………
اگر آپ نانگا پربت کے روپل فیز بیس کیمپ 1 جسے ہرلنگ کوفر بھی کہا جاتا ہے، جانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو میرے نزدیک آپ کو تریشنگ یا آس پاس کہیں اور رکنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر آپ صبح سویرے استور پہنچ چکے ہیں تو اپنا سفر جاری رکھیں۔ آپ سہ پہر تک بیس کیمپ تو پہنچ ہی جائیں گے۔ کچھ اصلاحات ایسی ہیں جو وہاں کے مقامیوں نے نہ صرف خود سے بنالی ہیں بلکہ باقاعدہ طور پر لکھ کر بھی لگا دیا گیا ہے۔ روپل بالا کا آخری مقام جہاں تک آپ کی بائیک جاسکتی ہے، اسے نانگا پربت بیس کیمپ کا نام دیا گیا ہے اور باقاعدہ لکھ کر بھی لگایا گیا ہے۔ یہاں سے صرف نانگا پربت کی ایک لکیر نظر آتی ہے۔ یہاں کیمپ بھی لگے ہیں، آپ رات رک سکتے ہیں مگر رات رکنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگرچہ کہ آپ ایک لمبے سفر سے تھک چکے ہیں مگر تھوڑی سی ہمت مزید کریں۔ بیس کیمپ سے ایک ٹریک اوپر کی طرف نکلے گا۔ بیس کمیپ والے آپ کو بہت بار کہیں گے کہ اوپر مت جائیں، یہی آخری کیمپ سائیٹ ہے مگر یقین مانیں سب نظارے اوپر ہی ہیں۔ ٹریک کوئی لمبا چوڑا نہیں ہے۔ بس شروع کی ایک چڑھائی ہے اور پھر سیدھا سیدھا راستہ ہے۔ زیادہ سے زیادہ پینتالیس منٹ کا ٹریک کر کے آپ نانگا پربت بیس کیمپ 1 پر پہنچ جائیں گے۔ یہاں آپ کے سامنے صرف اور صرف ایک ہی شے واضح طور پر پوری کی پوری کھڑی ہو گی۔ بنا کسی حجاب کے، بنا کسی پردے کے اور وہ شے ہے نانگا پربت بذاتِ خود۔ یہاں پورے کا پورا شہر آباد ہے۔ کیمپ لگے ہیں، کچن ہیں اور واش روم کا بھی بندوبست ہے۔
……………
میں رات ہرلنگ کوفر میں تھا اور خذیفہ کو شدت سے یاد کر رہا تھا۔ میرے ٹھیک سامنے نانگا پربت مکمل برہنہ حالت میں کھڑا تھا۔ بنا کسی حجاب کے، بنا کسی پردے کے۔ ویسے تو خذیفہ کو میں ہمیشہ ہی یاد کرتا رہتا ہوں مگر اگلے دن اس کا جنم دن تھا، اس لیے اسے یاد کرتا تھا۔ خذیفہ کے بارے باتیں کرنے لگا تو نانگا پربت کا یہ مضمون یہی وہ جائے گا اور بات سے بات نکلتی چلی جائے گی۔ ہم ہاسٹل میں چار سال ایک ساتھ رہے مگر کبھی بھی ایک کمرے میں نہیں رہے۔ خوب مستیاں کیں، خوب سوتے، فلمیں دیکھتے، گھومنے پھرتے اور اپنے اپنے کمرے میں جا کر سو جاتے۔ انڈے والا برگر بہت کھایا اور لڑائیاں بھی بہت کیں مگر ہماری سب سے اچھی بات تھی کہ ہم دونوں ایک ساتھ رہے، ایک دوسرے سے بات چیت کرتے رہے۔ میں نے ہم دونوں کے درمیان کبھی خاموشی کو نہیں آنے دیا۔ اس کا موڈ کسی بات پر خراب تھا یا وہ ویسے ہی ناراض تھا، میں نے ہمیشہ ہی بات چیت کو جاری رکھا۔ جس کا نتیجہ مجھے یہ ملا کہ ہم دونوں آج تک ساتھ ہیں۔ میرا پہلا اسمارٹ فون جس میں میں واٹس ایپ بھی چلا سکتا تھا، خذیفہ نے ہی مجھے سعودیہ عرب سے بھیجا تھا۔ کتابوں اور پہاڑوں کی لت لگانے والا وہی تھا۔ اگرچہ کہ ہمارے درمیان اب سمندر آ چکا ہے مگر نہیں آیا تو فاصلہ کبھی نہیں آیا۔
صبح سو کر اٹھا تو پہلا خیال نانگا پربت کا ہی آیا۔ نانگا پربت کی چوٹی مکمل طور پر بادلوں میں چھپی ہوئی تھی۔ صرف چوٹی ہی نہیں بلکہ نانگا پربت کا زیادہ تر حصہ بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ میرے پاس ابھی پورا دن تھا۔ یہی سوچا کہ کچھ نہ کچھ دیر بعد بادل چھٹ ہی جائیں گے۔ میں کیمپ سے باہر نکلا، کھانے پینے کے لیے کچھ ہلکا پھلکا سا پکڑا، پانی کی بوتلیں لیں اور اپنا رخ لاتبو جھیل کی جانب کر دیا۔
رات ہرلنگ کوفر میں تھا اور خذیفہ کو شدت سے یاد کر رہا تھا۔ میرے ٹھیک سامنے نانگا پربت مکمل برہنہ حالت میں کھڑا تھا۔ بنا کسی حجاب کے، بنا کسی پردے کے۔ ویسے تو خذیفہ کو میں ہمیشہ ہی یاد کرتا رہتا ہوں مگر اگلے دن اس کا جنم دن تھا، اس لیے اسے یاد کرتا تھا۔ خذیفہ کے بارے باتیں کرنے لگا تو نانگا پربت کا یہ مضمون یہی وہ جائے گا اور بات سے بات نکلتی چلی جائے گی۔ ہم ہاسٹل میں چار سال ایک ساتھ رہے مگر کبھی بھی ایک کمرے میں نہیں رہے۔ خوب مستیاں کیں، خوب سوتے، فلمیں دیکھتے، گھومنے پھرتے اور اپنے اپنے کمرے میں جا کر سوجاتے۔ انڈے والا برگر بہت کھایا اور لڑائیاں بھی بہت کیں مگر ہماری سب سے اچھی بات تھی کہ ہم دونوں ایک ساتھ رہے، ایک دوسرے سے بات چیت کرتے رہے۔ میں نے ہم دونوں کے درمیان کبھی خاموشی کو نہیں آنے دیا۔ اس کا موڈ کسی بات پر خراب تھا یا وہ ویسے ہی ناراض تھا، میں نے ہمیشہ ہی بات چیت کو جاری رکھا، جس کا نتیجہ مجھے یہ ملا کہ ہم دونوں آج تک ساتھ ہیں۔ میرا پہلا سمارٹ فون جس میں میں واٹس ایپ بھی چلا سکتا تھا، خذیفہ نے ہی مجھے سعودیہ عرب سے بھیجا تھا۔ کتابوں اور پہاڑوں کی لت لگانے والا وہی تھا۔ اگرچہ کہ ہمارے درمیان اب سمندر آ چکا ہے مگر نہیں آیا تو فاصلہ کبھی نہیں آیا۔
[ad_2]
Source link