[ad_1]
کہنے کو آئینی ترامیم اور قانون سازی عوام کا مسئلہ نہیں ہے، فکر معاش سے دوچار عوام کو ایسے مسئلوں سے شاید ہی کوئی دلچسپی ہو۔انھیں مزید بڑھکانے والے ہمارے ٹی وی اینکر مائیک پکڑے بازاروں میں نکل جاتے ہیں اور عام غریب عوام سے یہ سوال پوچھتے دکھائی دیتے ہیں کہ آپ مجوزہ آئینی ترامیم کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ جس کا جواب یقیناً یہی آتا ہے کہ ہم تو روٹی روزی کی تلاش میں سارا دن مارے مارے پھرتے ہیں اِن آئینی ترامیم سے ہمارا کیا واسطہ۔ یہ تو سیاستدانوں کے اپنے فائدے کے لیے ہوتی ہیں عوام الناس کو اِن ترامیم سے کیا ملنا۔ قانون سازی سے متعلق سوالوں کے جواب میں تو غریب عوام سے ایسا ہی جواب ملے گا۔ یہ تو سوال کرنے والے کو سوچنا چاہیے کہ اُسے ایسے سوالات ان پڑھ عوام سے کرنا بھی چاہیے یا نہیں۔ اُصولاً ایسے سوالات قانون کی سوجھ بوجھ رکھنے والوں سے کیے جاتے ہیں۔
73 ء کا آئین اس بات کا گواہ ہے کہ تمام مشکلات کے باوجود یہ متفقہ آئین ترتیب دیا گیا اور ساری پارلیمنٹ نے اُسے مکمل تعاون کے ساتھ منظور بھی کر دیا۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ اس وقت وطن عزیز مشکل ترین حالات سے گزر رہا ہے اور عوام انتہائی کرب و ابتلا سے دوچار ہیں اور آپ آئین بنانے نکل پڑے ہیں۔ پہلے عوام کو اس صدمے سے باہر نکالیں اور اُن کے دکھوں کا مداوا کریں۔
وہ چاہتے تو ایسا کر بھی سکتے تھے ، ایک بے دستور مملکت کی حکمرانی بناء کسی قید و بند اور پابندیوں کے آرام سے حکومت کرسکتے تھے لیکن انھوں نے خود کو ایک دستور کے پابند بنانے کے لیے ان مشکل ترین حالات میں بھی آئین سازی شروع کی اور اس ملک کو ایک متفقہ آئین دیا۔ ہم پچاس سالوں سے اسی دستور کے مطابق کام کرنے پر پابند ہیں ، یہ اگر نہ ہوتا تو کوئی بھی حکمران جیسے چاہتا اپنا حکم چلاتا اور ایک انارکی اور آمریت کا دور دورہ ہوتا۔ جمہوری سیاستدانوں پر آئین کی پابندیاں لازمی ہوا کرتی ہیں، وہ اگر اس سے ماورا کوئی قدم اُٹھاتے ہیں تو ہماری عدالتیں انھیں ایسا کرنے سے روک سکتی ہیں۔ آئین اور قانون بنانا پارلیمنٹ کا ہی کام ہے مگر اس پر عمل درآمد کروانے کی ذمے داری ہماری عدلیہ پر لاگو ہوتی ہے۔
کوئی بھی حکمراں اگر آئین سے تجاوز کرنے لگے تو عدلیہ اسے ایسا کرنے سے روک سکتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ہمارے یہاں ہر کسی ادارے نے اپنا کام درست طریقے سے نہیں کیا۔ عدلیہ کا کام ہے آئین کی حفاظت اور اس کی پاسداری۔ لیکن ہم نے ماضی میں ایسی بہت سے مثالیں دیکھی ہیں جس میںاس نے اپنا فریضہ غیر جانبداری سے ادا نہیںکیا ۔ سب سے بڑھ کر اس نے غیرآئینی حکمرانوں کو جمہوری حکمرانوں کے مقابلے میں سپورٹ کیا۔ آج جب دستور کو اس بات کا پابند کیا جا رہا ہے کہ کوئی شخص صرف ذاتی پسند اور ناپسند کے تحت فیصلے نہ کرسکے اور آئین و قانون کے مطابق فیصلے کرے تو اس میں ہمارے خیال میں کوئی غلط بات بھی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن جو پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا حصہ بھی ہیں،26 ویں آئینی ترامیم پر راضی اور رضا مند ہوگئے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ماضی میں جمہوری حکومتوں کو کیسی کیسی مشکلات کا سامنا رہا ہے۔
حالات اور وقت کے مطابق قوانین میں ترمیم جمہوری نظام کا خاصہ بھی ہے اور حق بھی ۔ وہ اگر سمجھے کہ سسٹم اگر موجودہ قانون کی تحت چل نہیں پا رہا تو اس میں تبدیلی کرسکتا ہے۔ دستور میں تبدیلی ویسے بھی کوئی اکیلا مطلق العنان شخص ہرگز نہیں کرسکتا ہے ۔ تبدیلی کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی دو تہائی اکثریت لازمی ہے۔ اس لیے یہ کام کوئی اتنا آسان اور سہل بھی نہیں ہے۔ اس کے لیے ناکوں چنے چبانے پڑتے ہیں اور جیسے ہم آج کل دیکھ بھی رہے ہیں۔ حکومت اور اس کے اتحادی سرتوڑ کوششیں کرکے بھی اس ترمیم پر دوتہائی اکثریت حاصل نہیں کر پائے ہیں اور معاملہ کھٹائی میں جاتا رہا۔
رہ گیا سوال کہ عوام کو اس ترمیم سے کیا ملے گا ؟ تو عوام کو یہ سوچنا ہوگا کہ ہر کام کو عوام کے فوری فائدہ کی ضمن میں نہیں دیکھنا چاہیے۔ عوام اگر انتخابات میں کسی ایک جماعت کو ووٹ دیتے ہیں تو وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ اُن کے ووٹوں سے برسر اقتدار آنے والے حکمراں بلا کسی خوف اور ڈر کے اور بلا کسی روک ٹوک کے عوام کی بھلائی کے فیصلے کریں، لیکن اگر کسی جانب سے انھیں کام کرنے ہی نہیں دیا جائے تو پھر ملک کے حالات کیسے بہتر ہوں گے۔ سیاسی عدم استحکام پیدا کر کے معاشی استحکام کی راہ میں روہڑے اٹکائے جائیں تو پھر کیسے اس ملک میں خوشحالی آسکتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی جو بظاہر اس حکومت کا حصہ بھی نہیں ہے لیکن وہ اور اس کی قیادت مجوزہ آئینی ترامیم کے لیے سر توڑ کوششوں میں مگن ہے اور یہ انھی کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن بھی ترمیم کے ایک فارمولے میں متفق اور رضا مند ہوچکے ہیں۔ انھیں کی کوششوں کی بدولت پاکستان تحریک انصاف بھی بڑی حد تک مجوزہ ترامیم کے لیے کسی حد تک راضی ہوچکی ہے۔
عوام کو روزگار اور نوکریاں دینے کے لیے حکومت کا مستحکم ہونا ضروری گردانہ جاتا ہے، جب ایک حکومت کو ہر وقت دھڑکا لگا رہے کہ کب وہ فارغ ہوجائے تو بھلا ایسی صورت میں وہ کیسے عوام کی بھلائی اور فائدے میں فیصلے کرسکتی ہے ، وہ تو ہر وقت اپنے بچاؤ کی فکر میں پریشاں اورگرداں رہے گی۔ یہی عدم استحکام آج تک ہمارے جمہوری نظام کو پروان چڑھنے نہیں دیتا رہا ہے۔
کسی بھی حکمران نے اپنی آئینی مدت پوری نہیں کی۔ افسوس کی بات ہے کہ عوام پھر بھی سیاستدانوں کو ہی ساری ناکامیوں کا الزام اور دوش بھی دیتے رہے ہیں، وہ یہ نہیں دیکھتے کہ کونسی قوتوں نے انھیں سکون و آرام سے کام کرنے نہیں دیا۔ ہمارے یہاں پہلے جمہوریت کو خطرہ لاحق رہتا تھا۔ آئین کے پاسداروں نے اپنی اپنی مرضی سے تشریح لکھنا شروع کردی اور یہ آئین ایک بازیچہ اطفال بن کر رہ گیا۔ جس نے چاہا اور جیسے چاہا اسے اپنے مطابق سمجھا اور مطلب نکال لیا۔ جب کہ دیکھا جائے تو جس قانون کا حوالہ دیا جاتا ہے اُسے بنانے والی پارلیمنٹ ہی ہے ۔ توہین عدالت کا قانون تو موجود ہے لیکن توہین پارلیمنٹ کا کوئی قانون موجود نہیں ہے ۔ پارلیمنٹ کو اب اپنی توہین کے بارے میں بھی کوئی قانون ترتیب دینا ہوگا اور اپنی عزت اور توقیر کا سامان خود پیدا کرنا ہوگا۔
[ad_2]
Source link