28

اور ترمیم منظور ہو گئی

پارلیمان نے 26ویں آئینی ترمیم منظور کر لی ہے۔حکومت نے قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں ایوانوں میں اپنی دو تہائی اکثریت ثابت کر دی ہے۔ اس ترمیم کے حوالے سے ملک کا سیاسی منظر نامہ دو ماہ سے یرغمال تھا۔ تا ہم بہرحال یہ ترمیم اب منظور ہو چکی ہے۔ اور صدر مملکت نے ترمیم پر دستخط کر دیے ہیں۔

اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ حکومت ترمیم کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے اور اپوزیشن اس ترمیم کو روکنے میں ناکام ہوئی ہے۔ اس ترمیم کو حکومت کی فتح اور تحریک انصاف کی شکست ہی کہا جائے گا۔ تحریک انصاف نے اس ترمیم کو روکنے کے لیے سر توڑ کوشش کی ہے۔ جب کہ حکومت نے اس ترمیم کو منظور کروانے کے لیے سر توڑکوشش کی ہے۔

اس ترمیم کے ملک کے آیندہ سیاسی منظر نامہ پر بہت اثرات ہونگے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ موجود نظام حکومت مستحکم ہو گیا ہے۔ اس نظام حکومت کو ختم کرنے کے لیے جو سازشیں کی جا رہی تھیں ان کا خاتمہ ہوگیا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ موجودہ نظام حکومت کو عدلیہ سے جو خطرات درپیش تھے ان کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ بہت سی قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں کہ عدلیہ ملک کو نئے انتخابات کی طرف لے جانا چاہتی ہے۔ ایسی تمام قیاس آرائیاں اور خدشات ختم کر دیے گئے ہیں۔ اس ترمیم سے جیوڈیشل ایکٹوازم کو بھی ختم کرنے میں مدد ملے گی۔میں سمجھتا ہوں جیوڈیشل ایکٹوازم کے خاتمہ کے لیے یہ ترمیم ایک سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے۔

یہ کہنا غلط ہوگا کہ اس ترمیم کو روکنے کی کوشش نہیں ہوئی۔ میں سمجھتا ہوں اس ترمیم کو روکنے کی سب سے زیادہ کوشش عدلیہ کے ایک دھڑے کی جانب سے ہی کی گئی۔ پہلے مخصوص نشستوں کے فیصلے کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے کہ آئینی ترمیم کو روکنے کے لیے یہ فیصلہ دیا گیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں مخصوص نشستوں کے فیصلے سے پہلے ہی ترمیم کرنے کا فیصلہ ہو چکا تھا۔

آئینی عدالت کا فیصلہ اس سے پہلے ہی ہو چکا تھا۔ عدلیہ نے مخصوص نشستوں کا فیصلہ اس ترمیم کو روکنے کے لیے دیا ۔ اس فیصلہ کے بعد پہلی وضاحت بھی ترمیم کو روکنے کے لیے ہی دی گئی۔ وہ بھی ترمیم کے موقع پر ہی جاری کی گئی اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پہلی وضاحت نے ترمیم کو روکا۔ دوبارہ جب ترمیم ہونے لگی تو پھر دوسری وضاحت جاری کی گئی۔ عدلیہ میں وضاحت جاری کرنے کی کوئی روایت نہیں۔ عدلیہ اپنے فیصلوں کے بارے میں وضاحت نہیں جاری کرتی۔ اس لیے ان کو ترمیم کو روکنے کے تناظر میں دیکھا گیا ہے۔

یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ وضاحتیں جاری کی گئیں لیکن حکمران اتحاد کی نظر ثانی کی درخواستیں نہیں لگائی گئیں۔ عدلیہ کے ججز کی جانب سے یہ موقف کہ ہم چھٹیوں پر جا رہے ہیں اس لیے نظر ثانی کی درخواست نہیں سن سکتے۔ تاہم بند کمروں سے وضاحت جاری کی جا سکتی تھی۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ عدلیہ کی جانب سے اس ترمیم کو روکنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن ممکن نہ ہوسکا۔ انھیں شکست ہو گئی۔ دو وضاحتیں جاری کر کے بھی شکست ہو گئی۔

دوست بہت سوال کر رہے ہیں کہ کیا جسٹس منصور علی شاہ اب چیف جسٹس بن جائیں گے۔ مجھے علم غیب نہیں ہے۔ حکومتی حلقے کیا سوچ رہے ہیں یہ بھی مجھے نہیں علم۔ لیکن ایک سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر جسٹس منصور علی شاہ کو ہی چیف جسٹس لگانا ہے تو پھر اس ترمیم کو اتنی رات کو منظور کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اگر انھیں ہی چیف جسٹس لگانا تھا تو پھر یہ کیوں کہا جا رہا تھا کہ اگر پچیس اکتوبر تک ترمیم منظور نہ ہوئی تو اسے منظورکرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ سب جانتے تھے کہ اگر ترمیم نہ منظور ہوئی تو پچیس اکتوبر کو جسٹس منصور علی شاہ خود بخود چیف جسٹس بن جائیں گے۔ ان کے نوٹیفکیشن کو بھی اس ترمیم کی وجہ سے ہی روکا گیا تھا۔ اگر ترمیم منظور نہ ہو رہی ہوتی تو یقیناً نوٹیفکشن ہو جاتا۔

میں نے پہلے بھی لکھا ہے اور اب تو ترمیم سامنے آنے کے بعد واضح ہو گیا ہے کہ آئینی بنچ اور آئینی عدالت صرف لفظوں کا فرق ہے۔ جب بنچ کی خود مختاری کو یقینی بنا دیا گیا ہے اور آئینی بنچ بنانے کا اختیار چیف جسٹس سپریم کورٹ کے پاس نہیں ہے تو پھر بنچ بھی عدالت ہی ہے۔جب آئینی بنچ کے سربراہ اور ممبران کے تعین کا اختیار پارلیمانی کمیشن کے پاس ہوگا تو یہ عدالت ہی ہوئی۔

یہ متوازی عدالت بن گئی اب آپ نام بنچ دینا چاہیں تو آپ کی مرضی ہوگی۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں نام بنچ رکھ کر مولانا فضل الرحمٰن کو جیت کا جشن منانے کا موقع دیا گیاہے لیکن اس کے خدو خال حکومت کی جیت کی نوید ہی سنا رہے ہیں۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ آئینی عدالت بن گئی ہے نام صرف بنچ رکھا گیا ہے۔ چیف جسٹس لگانے کا جو طریقہ کار تبدیل کیا گیا ہے یہ بھی حکومت کی جیت ہے۔ مولانا نے حکومت کی بات مانی ہے۔ حکومت کا ترمیم کرنے کا بنیادی مقصد پورا ہوگیا ہے۔

اس لیے یہ ترمیم حکومت کے بنیادی ایجنڈے کی تکمیل کرتی ہے۔حکومت کو اپنے تمام اہداف حاصل ہو گئے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ اپوزیشن کی کوئی بھی بات مانی گئی ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ عمر کی حد تک مولانا کی بات مانی گئی ہے۔ ججز کی عمر میں جو اضافہ کیا جا رہا تھا وہ نہیں ہو سکا۔ اس لیے عمر کی حد میں اضافہ سے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو توسیع مل سکتی تھی۔ تا ہم اب وہ نہیں مل سکے گی۔ لیکن عمر کی حد تو سب کے لیے بڑھ رہی تھی۔ وہ اکیلے قاضی کے لیے نہیں بڑھ رہی تھی۔ اس لیے نقصان سب کا ہوگا۔ صوبائی آئینی عدالتوں کا بھی قیام ممکن بنا دیا گیا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ بھی حکومت کی جیت ہے۔ سب سے اہم اسلام آباد ہائی کورٹ کی آئینی عدالت ہوگی جو قومی اسمبلی بنائے گی۔ اسی طرح صوبوں میں بھی صوبائی آئینی عدالتیں بنا کر بھی حکومت نے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کی ہے۔

چیف الیکشن کمشنر کے حوالے سے بھی حکومت کو بہت بڑا ریلیف مل گیا ہے۔ اس ترمیم میں یہ بات لکھ دی گئی ہے کہ جب تک نئے نام پر وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان اتفاق نہیں ہوگا پرانے چیف الیکشن کمشنر کام جاری رکھیں ، اس طرح تو موجودہ چیف الیکشن کمشنر لمبے عرصہ تک کام جاری رکھیں گے۔ اگر نئے نام پر اتفاق نہیں ہوگا تو کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ اب اپوزیشن پردباؤ ہوگا کہ نئے نام پر اتفاق کریں ورنہ سکندر سلطان راجہ کام جاری رکھیں گے۔

سیاسی لڑائی میں جیت ہار دیکھی جاتی ہے۔ یہ ترمیم بھی ایک سیاسی لڑائی تھی۔ ایک طرف اپوزیشن تھی دوسری طرف حکومت تھی۔ اپوزیشن کی کوشش تھی کہ ووٹ پورے نہ ہوں۔ اپوزیشن نے اس ترمیم کی ووٹنگ میں حصہ لے کر اس کی قانونی اور آئینی حیثیت کو بہتر کیا ہے۔ اس کی سیاسی ساکھ بہتر ہوئی۔ اگر وہ بائیکاٹ کر دیتے تو حکومت کے لیے مشکل ہوتی۔ لیکن انھوں نے ووٹنگ میں حصہ لے کر حکومت کی مدد کی ہے۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں