30

حقوق نسواں کے لیے مقامی بیانیے کی تشکیل

پاکستان کی آبادی کا 51 فی صد صنف نازک پر مشتمل ہے، لیکن اس کے باوجود خواتین کو مختلف مسائل درپیش ہیں، بالخصوص دیہات میں بہت سی جگہوں پر ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔

آج تک برسر اقتدار طبقے نے کبھی بھی خواتین کو قومی ترقی کے دھارے میں بھرپور طریقہ سے شامل کرنے کی عملی کوشش نہیں کی۔ کچھ روایات، کم شرح خواندگی، مردوں کی برتری کا رجحان وغیرہ بڑی وجوہات میں شامل ہیں، مگر سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ ملک کی نصف آبادی ہونے کے باوجود خواتین کو قومی سیاست میں وہ مقام نہیں دیا جاتا، جس کی ضرورت ہے، حالاں کہ آئین کے آرٹیکل 34 میں واضح طور پر درج ہے کہ ریاست ایسے تمام اقدام کو یقینی بنائے گی، جن کے ذریعے ہر شعبہ ہائے زندگی میں خواتین کی بھرپور شرکت ممکن ہو۔

آئین کو نافذ ہوئے پچاس برس گزر گئے، مگر  اس وقت بھی ملک کے بہت سے پس ماندہ  علاقے ایسے ہیں، جہاں عورت کو ووٹ کا حق استعمال کرنے کی اجازت نہیں ملتی اور دل چسپ امر یہ ہے کہ ان علاقوں میں ملک کی تمام بڑی، چھوٹی سیاسی جماعتیں ایک غیر اعلانیہ معاہدے کے تحت اس پر متفق بھی ہو جاتی ہیں۔ پچھلے کچھ عرصہ میں پاکستانی سیاست میں خواتین کی شرکت بڑھی ہے۔

سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے 2002 ء میں قومی وصوبائی اسمبلیوں میں خواتین کی مخصوص نشستوں کا کوٹا بڑھا کر 33 فی صد کیا تھا، مگر بدقسمتی سے ان نشستوں کو اہل اور قابل صلاحیت خواتین کو آگے لانے کے بہ جائے ہر جماعت نے اپنے حصے کی نشستوں کی بندر بانٹ کرتے ہوئے زیادہ تر بڑے سیاسی خاندانوں کو نوازا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اسمبلی کے ایوانوں میں عورتوں کی موجودگی محض کورم پورا رکھنے یا پھر سیاسی مخالین پر نعرے کسنے کے لیے استعمال ہوتی دکھائی دیتی ہے۔

تاہم گذشتہ انتخابات میں ایک سیاسی جماعت کے بحران کے سبب بہت سے دوسرے خاندانوں کو بھی اپنی خواتین کو ایوانوں میں بھیجنے کا موقع مل گیا۔ ورنہ اس سے قبل روایتی خاندانوں کی خواتین کے سبب پارلیمان میں خواتین کی کی حقیقی آواز ذرا کم سنائی دیتی تھی، اس وقت بھی صورت حال بہترین تو نہیں، لیکن نسبتاً مختلف ہے۔ ہمارے سیاسی نظام کے بوسیدہ پن اور کرپشن زدہ ہونے کا یہ عالَم ہے کہ بانی پاکستان کی بہن، مادر ملت فاطمہ جناح  ملک کی پہلی خاتون  اور حزب اختلاف کی متفقہ صدارتی امیدوار ہونے کے باوجود صدارتی انتخاب ہار گئی تھیں۔

1970 اور1977 کے عرصہ میں خواتین کے لیے تھوڑی سی مثبت سوچ کا مظاہرہ کیا گیا۔ اسے ہم لبرل دور بھی کہہ سکتے ہیں۔ اسی دوران 1973ء کے آئین میں آئندہ دس برس یا تین عام انتخابات کے لیے خواتین کی 10 نشستیں مختص کی گئیں۔ 1985ء میں اس تعداد کو بڑھا کر 20 کیا گیا، لیکن 1977، 1985 کے بعد تیسرے عام انتخابات 1988 کے مکمل ہونے پر آئین کی یہ شق معدوم ہو گئی۔

1988ء میں بے نظیر بھٹو پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں، تو انھوں نے ملک کی پہلی وزارت برائے ترقی خواتین تشکیل دی۔ 1999 سے لے کر 2008 ء تک صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں ملک کی سپر بیوروکریسی میں 10 فی صد، جب کہ دیگر تمام محکموں میں 5 فی صد کوٹا خواتین کے لیے مختص کیا گیا۔ 2008ء سے اب تک خواتین کے لیے متعدد نئے منصوبے بھی شروع کیے گئے ہیں۔ تعلیمی سہولیات میں بھی اضافہ ہوا، ملازمت پیشہ خواتین کے تحفظ کے لیے قانون سازی ہوئی ہے۔ غیرت پر قتل کے واقعات کی روک تھام کے لیے سخت سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔

اسی عرصے میں سندھ سے تعلق رکھنے والی خاتون سیاست دان فہمیدہ مراز کو قومی اسمبلی کی پہلی خاتون اسپیکر بنایا گیا۔ حنا ربانی کھر پہلی خاتون وزیر خارجہ بنیں، شیری رحمٰن وزیر اطلاعات رہیں۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی شریک حیات محترمہ کلثوم نواز نے پرویز مشرف دور میں اپنے شوہر کی رہائی کے لیے سیاسی احتجاج کی مہم کی قیادت کی۔ جیسے بیگم نصرت بھٹو نے ضیا دور میں کی، اس کے ساتھ بیگم نسیم ولی، بیگم رعنا لیاقت بھی ہمارے سیاسی منظر نامے پر نمایاں رہی ہیں۔

اس کے باوجود خواتین کے لیے ایسے اقدام کی ضرورت ہے، جو نمائشی نہ ہوں۔ پاکستانی سیاست میں خواتین کی جائز نمائندگی کے لیے تمام سیاسی کو ایک نیا ’’چارٹر آف ڈیموکریسی‘‘ بنانا ہوگا، جس کے لیے سیاسی اور معاشرتی رویوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ خواتین کو آزادانہ نقل و حرکت اور رابطوں کی اجازت دینا ہوگی۔ خاندانی نظام میں برداشت کا عنصر بڑھانا ہوگا، تا کہ خواتین بھی اپنے فیصلے کرسکیں اور ان فیصلوں کو مردوں کی جانب سے تسلیم بھی کیا جائے۔ پاکستانی سیاست میں بد کلامی، تشدد کا غلبہ ہے، جو قابل خواتین کی آمد کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پارلیمان میں موجود خواتین نے قانون سازی کے عمل میں بہت کم حصہ لیا ہے، انھیں قانون سازی میں شرکت کو مؤثر بنانا چاہیے۔

تاریخ گواہ ہے کہ قیام پاکستان میں خواتین نے بہت سی قربانیاں دی ہیں، ان قربانیوں کو آج کے دور میں خواتین کی سیاست سمیت ہر شعبۂ زندگی میں بھرپور شرکت کے ذریعے ہی زندہ رکھا جا سکتا ہے، امید کی جاتی ہے کہ خواتین کے حقیقی مسائل پر توجہ دی جائے گی اور صرف وہی چیزیں نمایاں نہیں ہوں گی جو ’این جی اوز‘ صرف اپنے مقاصد کے تحت ہمارے سماج میں پھیلاتی ہیں اور اسے ’حقوق‘ کا نام دیا جاتا ہے، ان میں سے اکثر چیزیں پروپیگنڈا بھی ہوتی ہیں اور اس کے پس پشت ان کے ایجنڈے بھی ہوتے ہیں، اس لیے ’حقوق نسواں‘ کے حوالے سے ہمیں اپنا مقامی اور حقیقی بیانیہ تشکیل دینے کی زیادہ ضرورت ہے۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں