[ad_1]
مولانا فضل الرحمٰن کی سیاست کے سب معترف ہو گئے ہیں۔ ایک دلچسپ منظرنامہ ہے‘ حکومت بھی مولانا کی معترف ہے اور تحریک انصاف بھی مولانا کی حمایت پر مجبور ہے۔ فواد چوہدری جو پوری تحریک انصاف کی قیادت پر تنقید کر رہے ہیں، مولانا کی سیاست کی تعریف کر رہے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو اسٹبلشمنٹ بھی مولانا کی حامی نظر آرہی ہے۔ 26 ویں آئینی ترمیم پر مولانا نے ایسی سیاست کی ہے کہ سب کو خوش کر دیا ہے۔سب کو خوش کرنے کی اس سے عمدہ سیاسی مثال نہیں ملتی۔
یہ درست ہے کہ 14ستمبر کو آئینی ترمیم منظور نہ کر کے مولانا نے حکومت کو ایک بڑی مشکل میں ڈال دیا تھا۔ ساری حکومت مولانا کی منتیں کر رہی تھی لیکن وہ نہیں مانے۔ کہا جاتا ہے کہ اسٹبلشمنٹ بھی بہت دباؤ ڈال رہی تھی لیکن وہ نہیں مانے۔ ان کے نہ ماننے نے حکمران اتحاد میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں۔
اس موقع پر ایک رائے یہ تھی کہ اب مولانا اور حکومت کے درمیان 26 ویں آئینی ترمیم کے لیے تعاون ختم ہو گیا ہے۔ اگر حکومت نے اب یہ ترمیم منظور کرنی ہے تو مولانا کے بغیر ہی کرنی ہوگی۔ لیکن کمال یہ ہے کہ 14ستمبر کو انکار کرنے کے باوجود مولانا نے حکومت کے ساتھ بات چیت اور مذاکرات کے دروازے بند نہیں کیے۔ یہ بات بھی ہماری نوجوان نسل کے لیے سیکھنے کی ہے کہ اختلاف کے باوجود تعاون جاری رکھنا بھی سیاست ہے۔ ورنہ ہمارا نوجوان تو یہ سمجھنے لگ گیا ہے کہ اختلاف کا مطلب بات چیت بند ، ذاتی دشمنی، سلام دعا بھی نہیں ۔
مولانا نے تحریک انصاف کو جیسے ہینڈل کیا ہے‘ وہ بھی ایک عمدہ مثال ہے۔ انھوں نے تحریک انصاف کو ایسی بند گلی میں پہنچا دیا کہ تحریک انصاف مولانا کی جانب سے 26ویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالنے پر بھی تنقید نہیں کر سکی۔ بلکہ مولانا کی جماعت گلہ کر رہی ہے کہ تحریک انصاف نے ووٹ نہ ڈال کر ان کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ مولانا نے تحریک انصاف کو ایسی جگہ پہنچا دیا کہ تحریک انصاف کھل کر 26ویں آئینی ترمیم کی مخالفت بھی نہیں کر سکی۔
یہی وجہ ہے کہ ہمیں آج یہ سمجھ نہیں آرہی کہ اب تحریک انصاف کیوں مخالفت کر رہی ہے۔ مولانا نے تحریک انصاف کو ایک بڑی جماعت ہوتے ہوئے ایسی شکست دی ہے کہ تحریک انصاف سیاسی طور پر مولانا کی جماعت کے مقابلے میں چھوٹی جماعت لگنے لگی ہے۔ اس کا سیاسی کردار بھی چھوٹا ہو گیا۔ مولانا نے بلاشبہ تحریک انصاف کے سیاسی قد کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ انھیں اہم سے غیر اہم کر دیا۔ لیکن تحریک انصاف کو اس پر احتجاج کی اجازت بھی نہیں دی۔ تحریک انصاف کو آخری موقع تک مجبور رکھا کہ وہ ساتھ رہے بھی اور نہ بھی رہے۔
سب کہہ رہے ہیں کہ مولانا نے حکومتی مسودہ مسترد کر دیا اس لیے حکومت کو شکست ہو گئی۔ یہ بھی مولانا کی با کمال سیاست کا عمدہ شاہکار ہے۔ مولانا نے حکومت کے تمام کام کر بھی دیے ہیں اور حکومت کو اس کا کریڈٹ بھی نہیں لینے دیا۔آپ دیکھیں حکومت یہ ترمیم کیوں کرنا چاہتی تھی۔ یقیناً 25 اکتوبر سے پہلے ترمیم کا واحد مقصد چیف جسٹس پاکستان لگانے کا طریقہ کار تبدیل کرنا تھا۔ حکومت کے لیے سب سے اہم یہی تھا کہ اسے نیا چیف جسٹس لگانے کا طریقہ کار تبدیل کرنا ہے۔
اگر ہم ایک لمحہ کے لیے مان لیں کہ حکومت کا مسودہ مولانا نے مکمل طور پر مسترد کردیا۔ لیکن حقیقت کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت جو چاہتی تھی اسے حاصل ہو گیا ہے۔ یہ سیاست میں تاثر اور حقیقت کا کھیل ہے۔ ہم اکثر سیاست میں کہتے ہیں کہ جو نظرآتا ہے وہ ہوتا نہیں۔ اور جو ہوتا ہے وہ نظر نہیں آتا۔ اسی طرح مسودہ حکومت کا مسترد ہو گیا یہ نظر آرہا ہے یہ تاثر ہے۔ لیکن ترامیم حکومت کی مرضی کی منظور ہوئی ہیں۔ یہ حقیقت ہے۔اسے تاثر اور حقیقت کا کھیل کہتے ہیں۔
آپ بتائیں حکومت کے لیے زیادہ اہم یہ نہیں تھا کہ چیف جسٹس پاکستان کی تعیناتی کا عمل ان کی مرضی سے طے ہو جائے۔ قاضی فائز عیسیٰ اور سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ ایج میں توسیع کو ایسے ہی ایشو بنا دیا گیا تا کہ مولانا اپنی جیت کا جشن منا سکیں۔ حکومت جو چاہتی تھی‘ وہ اسے مل گیا‘ ترمیم اسی لیے کی جا رہی تھی۔ مولانا نے یہ ترمیم حکومت کی مرضی کی کروائی ہے۔ ٹائمنگ بھی حکومت کی مرضی کی رہی ہے۔ حکومت چاہتی تھی نئے چیف جسٹس کی تعیناتی نئے آئینی طریقہ کار کے مطابق ہو۔ ترمیم ایسی ٹائمنگ سے منظور کروائی گئی ہے کہ حکومت کو یہ موقع مل گیا۔ لیکن کہا یہ جا رہا ہے کہ ترمیم کا مسودہ حکومت کا مسترد ہو گیا۔ مولانا کا مسودہ منظور ہوا ہے۔ یہ مولانا کا کیسا مسودہ ہے کہ کام حکومت کی مرضی کے ہو گئے ہیں۔ لیکن مسودہ پر جشن مولانا منا رہے ہیں۔ اسے سیاست کہتے ہیں۔
آپ بتائیں حکومت کو کیا یہ کریڈٹ لینے کی کوئی ضرورت ہے کہ مسودہ کس کا ہے۔ اگر مولانا یہ کہتے بھی رہیں کہ میں نے حکومت کا مسودہ مسترد کر دیا ہے تو حکومت اور اسٹبلشمنٹ کو برا نہیں منانا چاہیے۔ اس ترمیم سے اسٹبلشمنٹ نے اپنے اہداف حاصل کر لیے۔ اب اگر مسودہ مولانا کی مرضی کا ہے تو اہداف اسٹبلشمنٹ کو کیسے حاصل ہو گئے۔ تاثر تو یہ ہے کہ مولانا نے اسٹبلشمنٹ کو ناکوں چنے چبوا دیے ہیں۔ لیکن نتائج یہ ہیں کہ اسٹبلشمنٹ نے اس ترمیم سے کئی کامیاب شکار کر لیے ہیں۔ اسٹبلشمنٹ کو آئینی تشریحات کی آڑ لے کر چیلنج کرنے کا راستہ ہی بند کر دیا گیا ہے۔
وہ جج صاحبان جو بار بار وضاحتیں جاری کر کے اسٹبلشمنٹ کو چیلنج کر رہے تھے‘ ان وضاحتوں کی آئینی و قانونی حیثیت اب کیا ہے؟ ایک ترمیم سے ان سب کے چیف جسٹس بننے کا فی الحال چانس ختم ہو گیا ہے۔ ورنہ سب چیف جسٹس بننے کو تیار بیٹھے تھے۔ ایک ترمیم سے کسی ایک کی نہیںسب کی چھٹی ہو گئی۔ یہ سب مولانا کے مسودہ کی وجہ سے ممکن ہوا ہے کیونکہ حکومت کا مسودہ تو مسترد ہو گیا تھا۔
عوامی تاثر یہ ہے کہ مولانا جیت گئے ہیں اور حکومت کو بری شکست ہوئی ہے‘ حکومت کو کچھ حاصل نہیں ہوا‘ مولانا نے چند سیٹوں سے حکومت کو ڈکٹیشن دی ہے۔ لیکن یہ کیسی ڈکٹیشن تھی جس میں کام اسٹبلشمنٹ اور حکومت کی مرضی کے ہوئے ہیں۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ مولانا کو جیت کا جشن منانے دینا بھی ایک سیاسی اسکرپٹ کا حصہ ہے۔
مولانا نے یہاں بھی حکومت کی سہولت کاری کی ہے۔ کوئی بھی مسودہ پر تنقید کرے تو کہا جائے گا کہ مولانا کا مسودہ تھا ہم تو بے قصور ہیں۔ جیسے مولانا نے کہا ہم نے کر دیا۔ یہ سیاست کے کھیل کا عجب رنگ ہے۔ اس کو نظر کا دھوکہ بھی کہتے ہیں۔ اسے ہی کہتے ہیں کہ بظاہر ہارا ہوا شخص اصل میں جیت چکا ہوتا ہے صرف جیت کا اعلان نہیں کرتا اور جو ہارا ہوتا ہے وہ عزت بچانے کے لیے اپنی ہار کو اپنی جیت بتا رہا ہوتا ہے۔ بس یہی ہوا ہے۔ اسی کو سیاست کہتے ہیں۔
[ad_2]
Source link