[ad_1]
علمِ نجوم کی عمارت اس مفروضے پر استوار ہے کہ ستاروں کی چال سے قوموں کے عروج و زوال، انسانوں کا کیریئر،صحت اور معاشرت جڑی ہوئی ہے۔ سب سے پہلے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا یہ ستارے ہمارے اوپر اثر انداز ہو بھی سکتے ہیں کہ نہیں۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ ہمارے نظامِ شمسی کا واحد ستارہ یعنی سورج زمین پر زندگی کے لیے لازم و ملزوم ہے۔یہ ہماری زندگی کو اپنی حرارت،روشنی اور کششِ ثقل سے سپورٹ کرتاہے۔سورج نہ ہو تو ہم دن کے اجالے کو ترس جائیں۔سورج نہ ہو تو نباتات اُگ نہ سکیں،اور سبزہ نا پید ہو جائے۔سورج نہ ہو تو ہوائیں چلنی بند ہو جائیں۔سورج نہ ہو تو پانی گرمی کے بغیر بخارات بن کر نہ اڑے اور بادل بننے کا سلسلہ ختم ہو جائے۔سورج نہ ہو تو زمین اپنا معمول کا درجۂ حرارت قائم نہ رکھ سکے اور اتنی ٹھنڈی ہو جائے کہ زندگی ممکن ہی نہ رہے۔بادل نہ بنیں تو بارشوں کا نظام معطل ہو جائے۔غرضیکہ ہمیں ماننا پڑے گا کہ سورج زمین پر زندگی کے لیے بہت ہی اہم ہے۔سورج کے ساتھ چاند بھی زمین پر اثر انداز ہوتا ہے۔چاند سورج کی روشنی کو زمین پر منعکس کر کے ہماری راتوں کو خیال سے بھی نازک دودھیا روشنی سے منور کرتا ہے۔نظامِ شمسی کے باقی تمام سیارے زمین سے اتنے دور،اتنے فاصلے پر ہیں کہ نہ تو ان کی گرمی سردی اور نہ ہی کششِ ثقل زمین کو متاثر کرتی ہے۔ سورج اور چاند جو زمین پر زندگی کے لیے اہم ہیں،کیا وہ کوئی ایسا کام بھی کر رہے ہیں،کسی ایسی خاصیت کے حامل ہیں جس سے انسانوں کی قسمت بنا یا بگاڑ سکیں تو یہ نا ممکنات میں سے ہے۔آج انسان کے پاس وہ تمام ٹولز ہیں جن سے انسانی زندگی پر اثر انداز ہونے والی قوتوں کا پتہ لگ سکے اور یہ اب پورے طور پر ہمارے علم میں ہے کہ سورج سمیت پورا نظامِ شمسی انسانی تقدیر بنانے یا بگاڑنے کا اہل نہیں۔
اب تک کی معلومات کے مطابق ہمیں نظر آنے والی Constallationsکی تعداد 12نہیں بلکہ88ہے۔یہ سب Constallationsزمین سے اتنی دور ہیں کہ نہ تو ان کی روشنی و حرارت اور نہ ہی کششِ ثقل ہمیں متاثر کر سکتی ہے۔اگر فرض کر لیا جائے کہ کسی Constallationکے کسی ستارے یا سیارے کی کششِ ثقل ہمارے اوپر اثر انداز ہونے کے قابل ہو جاتی ہے تو زمین یکایک اپنے مدار سے نکل کر اس ستارے یا سیارے کی طرف کھنچی چلی جائے ، ہم نظامِ شمسی کا حصہ نہ رہیں گے اور اس عمل میں زمین پر تمام مخلوق تباہی سے دوچار ہو جائے۔
قرآنی تعلیمات میں انسان کو ٹھوس حقائق پر مبنی علم کی روشنی میں زندگی گزارنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اسلام میں علمِ نجوم کی کوئی جگہ نظر نہیں آتی البتہ مسلمانوں نے قرآنِ کریم کی سورۃ85البروج سے لفظ برج اُٹھا لیا اور اس کو ہندو ویدک علم سے منسلک کر کے بالکل ہندوؤں کی طرح پیشین گوئیاں کرنی شروع کر دیں۔ ہر مسلمان ماہرِ نجوم ہندو ویدک علمِ نجوم سے حساب کتاب چرا کر اپنے انداز میں پیشین گوئیاں کرتے ہوئے کمائی کر رہا ہے۔آسمان پر تمام ستارے و سیارے اینٹی کلاک وائز اپنے مدار میں آگے ہی آگے سفر کر رہے ہیں لیکن علمِ نجوم کے ماہرین یہ کہتے سنے جا سکتے ہیں کہ فلاں Planetالٹٰی چال چل رہا ہے۔کائنات میں کوئی Celestial bodyالٹا چل ہی نہیں سکتی۔ایسا کرنے سے کائنات کا نظام یقینی طور پر درہم برہم ہو جائے گا۔ہمیں اس زاویئے سے بھی دیکھنا ہو گا کہ آیا علمِ نجوم ایک مکمل سائنسی علم ہے۔اگر تو یہ سائنسی علم ہے تو ہمیں اس پر اعتماد و بھروسہ کرنا ہو گا اور اگر یہ سائنس نہیں ہے تو پھر اس پر اعتماد کرنا اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہو گا۔سائنسی علم سے مراد وہ علم ہے جو بغور مشاہدے سے حاصل ہونے کے بعد تجربہ گاہ سے گزر کر پایہء ثبوت کو پہنچ جاتا ہے ۔اس کے نتائج کو دہرایا جا سکتا ہے۔ہمارا مشاہدہ ہے کہ پانی ہائیڈروجن اور آکسیجن سے مل کر بنا ہے۔اس کو دنیا کی کسی بھی لیبارٹری میں کسی بھی وقت تجربہ کر کے ثابت کیا جا سکتا ہے۔پانی کے اندر سے برقی رو گزاریں تو یہ ہائیڈروجن اور آکسیجن میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ہائیڈرو جن کے دو مالیکیول،سلفر کے ایک اور آکسیجن کے چار مالیکیول کیمیکل ری ایکشن کے ذریعے سلفیورک ایسڈ میں تبدیل ہو کر تیز ترین اور انتہائی اہم تیزاب بنا دیتے ہیں۔اس عمل کو کسی بھی وقت،کسی بھی تجربہ گاہ میں دہرایا جا سکتا ہے۔اس کے نتائج ہمیشہ یکساں ہوں گے۔کیا علمِ نجوم کے ماہرین کے مشاہدات کو تجربہ کی بھٹی سے گزارا جا سکتا ہے۔اس کا جواب نہیں میں ہو گا۔چونکہ علم نجوم کے ماہرین کے مشاہدات کو تجربہ گاہ میں کامیابی سے پرکھا نہیں جا سکتا،اس لیے یہ کہنا پڑتا ہے کہ Astrology is a pseudo science which has consistantly failed experimental verification.یہ کچھ لوگوں کا بس ایک دعویٰ ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ جدید علوم کی روشنی میں اس کے اندر جو ترقی ہونی چاہیے تھی وہ نہیں ہو پائی کیونکہ اس کی بنیاد ٹھوس حقائق پر نہیں۔علمِ نجوم کم از کم 5ہزار سال پرانے خیالی تصورات پر مبنی ہے۔اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ستارے اور سیارے انسان کی قسمت کے حامل ہوتے ہیں تب بھی یہ ایک حقیقت ہے کہ پچھلے پانچ ہزار سال میں ستاروں کے جھرمٹ اپنی جگہ تبدیل کر چکے ہیں۔ 5ہزار سال پہلے جو ستارہ قطبی ستارے کی حیثیت رکھتا تھا آج وہ وہاں پر نہیں ہے۔کائنات میں ہر اجرامِ فلکی اپنے اپنے مدار میں تیر رہا ہے،سورۃ یٰسین آیت 40.۔اس کے ساتھ زمین کی محوری گردش میں wobblingکی وجہ سے ہر برج ان پانچ ہزار سالوں میں ایک قدم آگے بڑھ چکا ہے۔اس بات کو سائنسی معلومات کی روشنی میں پرکھا جا سکتا ہے۔یوں اگر کسی انسان کا برج 5ہزار سال پہلے Ariesتھا تو اب وہ اپنی جگہ سے حرکت کرتے ہوئے اگلے برج Taurusکی جگہ لے چکا ہے لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ علمِ نجوم کے ماہرین سائنس کی ترقی کے ساتھ علوم میں تبدیلیوں کو نہیں مانتے،اسی لیے آج ان کا مشاہدہ ،دعویٰ سرے سے متروک علم پر مبنی ہے۔
ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ کیا ستارے اور ان کی چال انسان کی تقدیر کے حامل ہو سکتے ہیں۔اگر خود ان کی تقدیر کسی اور کے ہاتھ میں ہے تو وہ کسی کی تقدیر کیسے بنا سکتے ہیں۔سورۃ یٰسین کی آیات38,39,40میں ارشادِ احکم الحاکمین ہے کہ سورج مسلسل اپنے ٹھکانے کی جانب گامزن ہے۔یہ ایک زبردست اور علیم ہستی کی مقرر کردہ تقدیر ہے۔چاند کے لیے ہم نے منازل مقرر کر دی ہیں۔۔۔تمام اجرامِ فلکی اپنے اپنے فلک، مدار میں تیر رہے ہیں۔تمام کائنات پر مکمل قدرت رکھنے والا خالق اور بادشاہ فرما رہا ہے کہ سورج کی تقدیر ہم نے مقرر کر دی ہے اور تمام اجرامِ فلکی کو مسخر فرما دیا ہے،خلق اور امر سب اس کا ہے۔پیدا کرنے والا بھی اﷲ ہے اور حکم بھی اﷲ ہی کا چلتا ہے ۔تو خود جس کی تقدیر کسی اور کے ہاتھ میں ہے وہ انسانوں کی تقدیر پر کیسے اثر انداز ہو سکتا ہے۔ہر اجرامِ فلکی کی تقدیر اس کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کے مالک نے لکھ دی ہے تو پھر وہ ستارہ یا سیارہ کسی اور کا مالک کیسے ہو سکتا ہے۔
علمِ نجوم میں کہا جاتا ہے کہ فلاں گھر کا مالک فلاں ستارہ یا سیارہ ہے۔یہ صحیح نہیں ہے،اصل میں ان سب کا مالک صرف اور صرف اﷲ ہے جو ایک اور اکیلاہے۔قرآن میں سورۃ بنی اسرائیل کی آیت71میں ارشاد ربانی ہے کہ ،کہ ہم نے آدم کی اولاد کو تکریم سے نوازا،یعنی صاحبِ عزت بنایا۔اسی طرح سورۃ التین میں فرمایا کہ ہم نے انسان کو احسنِ تقویم بنایا۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسی مخلوق جس کو خالق نے عزت دی،جسے زمین پر اپنا خلیفہ بنایا،وہ انسان جو مسجودِ ملائک ہے،جس کو احسنِ تقویم بنایا،اس انسان کی تقدیر ستاروں کے ہاتھ کیسے ہو سکتی ہے،ستارہ جو نہ خود پیدا ہوا،نہ وہ اپنی تقدیر پر قادرہے،جس کی اپنی کوئی مرضی یا منشا نہیں،جس کی چال ایک زبردست اور علیم ہستی کے ہاتھ میں ہے۔وہ تو خود مسخرہے اور اﷲ کے حکم کی اتباع کر رہا ہے۔اسی لیے اقبال نے فرمایا،ستارہ کیا میری تقدیر کی خبر دے گا… وہ خود فراخیء افلاک میں ہے خوار و زبوں۔
[ad_2]
Source link