[ad_1]
لبنان کی تحریک مزاحمت حزب اللہ نے اپنے سینئر رہنما ہاشم صفی الدین کی شہادت کی تصدیق کردی۔ اسرائیلی فورسز نے غزہ میں مزید 74 فلسطینیوں کو شہیدکردیا۔ برکس اجلاس کے مشترکہ اعلامیے میں غزہ اور مغربی کنارے پر اسرائیل کی بمباری سے بڑے پیمانے پر فلسطینی شہریوں کی اموات، جبری انخلا اور تباہی پر تشویش کا اظہارکیا گیا ہے، جب کہ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن غزہ جنگ بندی کے لیے مشرق وسطیٰ کا گیارہویں مرتبہ دورہ کر رہے ہیں۔
اب یہ حقیقت واضح ہوچکی ہے کہ عالمی برادری اور اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی ادارے فلسطینیوں کے حقوق کا دفاع کرنے اور صہیونی جارحیت کو روکنے میں بری طرح ناکام ہوگئے ہیں،مشرق وسطیٰ میں ایک نئی لڑائی کا آغاز ہو رہا ہے۔ یہ امکانی طور پر تیسرے محاذ یعنی شام کے ساتھ ہوگی اور چوتھا محاذ ایران کا ہوگا، تاہم یہ اگلا محاذ اس کے بعد شروع ہوگا جب حماس اور حزب اللہ کی جنگی صلاحیت کو زیادہ تر ختم کیا جا چکا ہوگا۔ اسرائیل کو خوف ہے کہ دوبارہ سے وہی خطرات سر اٹھا لیں گے اگر ایران کو ان کی پشت پناہی سے روکا نہ گیا اور عراق سے شام اور شام سے لبنان تک امداد پہنچنے کا سدباب نہ کیا گیا، اگرچہ یہ بات سرکاری طور پر اسرائیل نہیں کر رہا لیکن وہ کسی طرح شام میں ایرانی اثرات کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ اسرائیل نے شام میں گولان کی پہاڑیوں میں بچھائی گئی بارودی سرنگوں کو صاف کیا ہے اور ساتھ ہی یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ علاقے میں موجود بین الاقوامی فورسز وہاں سے نکلیں، تاکہ وہ اپنے آیندہ کے منصوبوں کو شام میں بھی پوری طرح عملی شکل دے سکے۔ تاہم شام کی کوشش یہ ہے کہ وہ حماس اور حزب اللہ کی اس لڑائی کا حصہ بننے سے ذرا دور رہے، تاکہ اسرائیل کو ایسا کوئی بہانہ نہ میسر آئے، جس کے بعد وہ شام کو بھی حماس اور حزب اللہ کی طرح نشانہ بنانا شروع کردے۔
نیتن یاہوکی حکومت کیونکہ اس بات کا پختہ ارادہ کیے ہوئے ہے کہ اس نے اپنے اردگرد موجود ایران کے تمام اثر و رسوخ کو ختم کرنا ہے۔ اس سلسلے میں حماس، حزب اللہ اور شام میں موجود ایرانی اڈے سب شامل ہیں۔ حالیہ دنوں میں غزہ اور لبنان کی مزاحمتی تحریکوں کے سربراہوں کی شہادت کے بعد اسرائیل اور اس کے چھپے اور ظاہری حامی اپنے آپ کو پہلے سے زیادہ مضبوط پوزیشن میں دیکھتے ہیں۔ اسرائیل اب یرغمالیوں کے تبادلے پر بات چیت کرنے یا ان سمجھوتوں کو قبول کرنے کے لیے دباؤ میں نہیں ہے، جن پر غزہ کی انتظامیہ کے ساتھ قاہرہ میں مذاکرات کے دوران تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔ پیرس کی طرف سے تجاویز اب متعلق نہیں رہیں،کیونکہ کوئی بھی اسرائیل کو یہ حکم نہیں دے سکتا کہ وہ سرحدی راہداریوں کا انتظام کیسے کرے یا کس طرح نہ کرے۔ انھی راہداریوں میں فلاڈیلفی راہداری بھی ہے۔ اسرائیل اب صرف قرارداد نمبر 1701 کے مطالبات پر مطمئن نہیں ہے، جس میں اسرائیلی تحمل کے بدلے راکٹ چلانا بند کرنا اور حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی ضرورت تھی، البتہ لبنان کی فوج اپنی سرحدوں کی حفاظت اور حزب اللہ کے عسکری کردار کو ختم کرنے کی پوری ذمے داری لے سکتی ہے۔ اس کے بغیر اسرائیل اگلے موسم بہار تک اپنی فوجی کارروائیاں جاری رکھے گا، جس کا مقصد لبنان میں ہر مزاحمتی جنگجوکا خاتمہ کرنا ہے۔ تاہم اسرائیل کا یہ ہدف پورے لبنان کی تباہی اور حزب اللہ کے خاتمے کے بغیر ممکن نہیں۔ اپریل کے شروع میں دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر اسرائیل کا حملہ اسی سلسلے کا واضح پیغام تھا کہ ایران کو لازماً اپنا بوریا بستر شام سے لپیٹنا ہوگا، اگر ایران پرامن طریقے سے چلاجاتا ہے تو اس میں شام کی حکومت کا فائدہ ہے کہ اس سے شام کو نقصان نہیں برداشت کرنا پڑے گا۔ بلاشبہ نیتن یاہو کی حکومت اور اسرائیلی فوج اندھا دھند انداز میں تمام اطراف میں بمباری وگولہ باری کر رہی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک طے شدہ منصوبے کے مطابق ایسا کر رہی ہے۔ اسرائیل منصوبہ بند طریقے سے علاقے میں موجود ایرانی خطرے کا محاصرے کیے ہوئے اور اسے کمزورکر رہا ہے۔ یہ اندازہ کیا جا رہا ہے کہ اسرائیل ایران پر بڑا حملہ کرنے جا رہا ہے، اگر ایران پر حملہ ہوتا ہے تو ایران کے لیے انتخاب کے دو راستے ہیں کہ اسرائیل کی شرائط قبول کر لے اور پاسداران انقلاب کورکی سرگرمیوں کو روکے۔ دوسری صورت میں ایران اور خطے کے لیے اس سے بھی زیادہ خطرناک صورتحال ہوگی۔
کئی سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ امریکا، اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری تنازعے کا فائدہ اٹھا کر ہوسکتا ہے، ایران کی ایٹمی تنصیبات کوکہیں نشانہ نہ بنا دے۔ آیندہ چند روز میں پتہ چل جائے گا کہ کیا ایران اور اسرائیل کا یہ تنازعہ دم توڑتا ہے یا مزید زور پکڑتا ہے، اسرائیل کی اس سے زیادہ بھلا اور زیادہ خود سری کیا ہوسکتی ہے کہ اس نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے اسرائیل میں داخلے پر پابندی لگا دی ہے،کیونکہ انھوں نے اسرائیل پر ایران کے حملے کی مذمت نہیں کی، اسرائیل کی اس دیدہ دلیری پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ’’سیاں بھئے کوتوال اب ڈرکاہے کا۔‘‘ امریکا، اسرائیل کا سیاں ہے، اس لیے اس کو بھلا اب ڈرکس کا ہو سکتا ہے، بیروت میں صرف مسلمان ہی نہیں رہتے، وہاں ایک اچھی خاصی تعداد میں عیسائی بھی آباد ہیں۔ اس وقت اسرائیل اور ایران کے درمیان گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے جس سے بیروت اور لبنان کے دوسرے علاقے بھی بری طرح متاثر ہو رہے ہیں، امریکا نے تو بغیرکسی لگی لپٹی کے اب کی دفعہ کھلم کھلا کہہ دیا ہے کہ وہ اس جنگ میں اسرائیل کے شانہ بشانہ کھڑا ہے، اب تو ان اسلامی ممالک کے کرتا دھرتاؤں کو عقل آ جانی چاہیے اور انھیں ہوش کے ناخن لینے چاہیئیں کہ جو امریکا کی حمایت کر رہے ہیں۔
1960ء کے عشرے میں جو چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ ہوئی تھی، اس پر The six day war کے عنوان تلے ایک کتاب لکھی گئی تھی جو شہرہ آفاق مرحوم برطانوی وزیراعظم سر ونسٹن چرچل کے پوتے نے لکھی تھی اور اس میں انھوں نے واضح طور پر اس بات کا عندیہ دیا تھا کی اسرائیلی اپنی فوج اور دفاع کو مضبوط کرکے فلسطینیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا ارادہ رکھتے ہیں،کیونکہ وہ اپنی موجودہ سرحدات کو اپنے لیے غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔
فلسطین میں 2 دہائیوں سے زائد عرصے سے محاصرے کا شکار غزہ کو ہیڈکوارٹر بنائے ہوئے فلسطینی مزاحمتی گروپ حماس نے پوری دنیا کو معاملے کی جانب متوجہ کیا ہے۔ الیکشن میں غزہ سے باقاعدہ طور پر منتخب ہونے کے بعد سے علاقے پر حماس کا کنٹرول ہے۔ 2007 سے غزہ میں سیاسی وانتظامی قوت کے طور پر موجود حماس نے اسرائیل کے مسلسل حملوں اور فلسطینیوں کے قتل عام کے باوجود مزاحمت کی ہے۔ دوسری جانب اسرائیل اور لبنانی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے درمیان لڑائی کا دائرہ مزید پھیل گیا ہے۔ جنگ پھیلنے کے خدشات پر امریکا نے اپنے تمام شہریوں کو لبنان چھوڑنے کی ہدایت کردی ہے۔
فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کے منظم جرائم اور نسل کشی کے خلاف ایک لازمی اور ضروری جوابی اقدام کے طور پر (سیاسی، سفارتی اور عوامی تحریک کی سطح پر ) عالمی مزاحمتی محاذ کی تشکیل ضروری معلوم ہوتی ہے۔ صیہونی حکومت کے جرائم اس رجیم کو ان بڑے اور منظم دہشت گرد گروہوں میں شامل کرتے ہیں، جو عالمی امن اور انسانی نسل کے مستقبل اور بچوں کی فطری زندگی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہیں۔ صیہونیت اور اسرائیل ایک مہلک کینسر ہے جو نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی سطح پر بھی انسانیت کو خطرے سے دوچارکرتا ہے۔ دنیا کو’’اسرائیل کی خونخوار حکومت‘‘ کے خلاف عملی اقدام کے لیے پکارنا ایک مہلک ٹیومر یا وبائی بیماری کے خلاف طبی مداخلت کی اپیل کے مترادف ہے۔ فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی خصوصی نمایندہ فرانسسکا البانیس نے غزہ کی موجودہ صورت حال اور اسے روکنے میں عالمی برادری کی نااہلی پر تنقید کرتے ہوئے ٹھوس ثبوتوں پر مبنی جائزہ رپورٹ ’’ نسل کشی کی اناٹومی‘‘ کے عنوان سے پیش کی ہے۔ البانیس کی جائزہ رپورٹ کے نتائج سے واضح ہو جاتا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کے جرائم کو نسل کشی سے تعبیرکیا جا سکتا ہے۔ یہ رپورٹ نسل کشی کی تین خوفناک کارروائیوں کا تجزیہ کرتی ہے، جس میں عوام کا قتل عام، ان کی جسمانی یا ذہنی سالمیت کو شدید نقصان پہنچانا اور ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرتے ہوئے ظالمانہ شرائط عائد کرنا شامل ہیں۔ غزہ میں جاری جنگ میں غیر معمولی اور بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا ہے، جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ تنازعات کے حل اور انسانی امداد کے لیے ایک عالمی اصلاحی راہ حل کی فوری ضرورت ہے۔ اسرائیل کے جرائم کہ جس نے بیالیس ہزار سے زیادہ لوگوں کی جانیں لے لی ہیں، جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین تھے، بین الاقوامی برادری کی فوری انسانی اور اخلاقی مداخلت پر زور دیتے ہیں۔
ان تحفظات کی روشنی میں، موجودہ جیو پولیٹکل انتظامات ایک گہرے اور فوری از سر نو جائزے کے متقاضی ہیں۔ بہتر مستقبل کی ضمانت کے لیے اہم عالمی قوتوں کے کردار اور ذمے داریوں کا تنقیدی جائزہ، بین الاقوامی قانونی اور اخلاقی معیارات کی بحالی اور عالمی امن، سلامتی اور انسانی وقار کے تحفظ کا ایک زبردست تجدید عہد ہونا چاہیے، تاکہ انسانیت موجود ناکام عالمی نظام سے چھٹکارہ حاصل کرسکے۔
[ad_2]
Source link