[ad_1]
حضرت ابُوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’سات آدمی ایسے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ ان کو اپنے (عرش) کے سائے میں جگہ دے گا، جس دن کہ اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔ عادل بادشاہ۔ وہ جوان جو اﷲ کی عبادت میں پلا بڑھا ہو۔ وہ آدمی جس کا دل مسجد میں اَٹکا ہُوا رہتا ہے۔ ایسے دو آدمی جن کی محبت محض اﷲ کی خاطر تھی، اسی کے لیے جمع ہوئے اور اسی پر جدا ہوئے۔ وہ آدمی جس کو کسی صاحبِ حسب و جمال عورت نے دعوت دی تو اس نے کہا: مجھے خدا کا خوف ہے۔ وہ آدمی جس نے اس قدر چھپا کر صدقہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہوئی۔ اور وہ آدمی جس نے تنہائی میں اﷲ کو یاد کیا تو آنکھیں اُبل پڑیں۔‘‘
عدل درحقیقت اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کی عظیم الشان صفت ہے، قرآن کریم میں ارشاد ہے، مفہوم: ’’اﷲ نے گواہی دی کہ کسی کی بندگی نہیں اس کے سوا اور فرشتوں نے اور علم والوں نے بھی، وہی حاکم انصاف کا ہے۔ کسی کی بندگی نہیں سوائے اس کے، زبردست ہے حکمت والا۔‘‘ (آلِعمران)
حق تعالیٰ شانہ خود عادل ہے، اس کا نازل کردہ قانون (شریعتِ محمدیہؐ) سراپا عدل ہے، اس لیے بے شمار آیتوں میں بندوں کو عدل و انصاف کا حکم دیا گیا ہے اور اس میں ایسی باریکیوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے کہ عقل حیران ہے۔ قرابت کے موقع پر بڑے سے بڑے انصاف پرور کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں اور وہ جانب داری کی خاطر عدل و انصاف کا دامن چھوڑ دیتا ہے، مگر فرزندانِ اسلام سے ایسی نازک صورت حال میں بھی عدل و انصاف قائم رکھنے کا عہد لیا گیا ہے، مفہوم: ’’اے ایمان والو! قائم رہو انصاف پر، گواہی دو اﷲ کی طرف کی، اگرچہ نقصان ہو تمہارا، یا ماں باپ کا، یا قرابت والوں کا، اگر کوئی مال دار ہے یا محتاج ہے تو اﷲ ان کا خیرخواہ تم سے زیادہ ہے، سو تم پیروی نہ کرو دل کی خواہش کی انصاف کرنے میں۔‘‘ (النساء)
اسی طرح جب کسی سے بغض و عداوت ہو تو عدل و انصاف کے تقاضے عموماً بالائے طاق رکھ دیے جاتے ہیں اور اپنے حریف کو نیچا دکھا نے کے لیے آدمی ہر جائز و ناجائز حربہ تلاش کرتا ہے، لیکن احکم الحاکمین کی جانب سے مسلمانوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ ایسے موقع پر بھی عدل و انصاف کی ترازو ہاتھ سے نہ چھوڑیں، بل کہ ہر حال میں عدل و انصاف کو قائم رکھیں، مفہوم: ’’اے ایمان والو! کھڑے ہو جایا کرو اﷲ کے واسطے گواہی دینے کو اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہرگز نہ چھوڑو، عدل کرو، یہی بات زیادہ نزدیک ہے تقویٰ سے اور ڈرتے رہو اﷲ سے، اﷲ کو خوب خبر ہے جو تم کر تے ہو۔‘‘ (المائدہ)
نظامِ عالم اور عدل و انصاف:
دراصل کائنات کا نظام ہی عدل و انصاف سے وابستہ ہے، نظامِ عالم کے لیے عدل و انصاف سے بڑھ کر اور کوئی چیز ضروری نہیں۔ بلاشبہ حاکمِ عادل کا وجود اس عالم کے لیے سایۂ رحمتِ الٰہی اور کسی عدل کش حاکم کا تسلط عذابِ الٰہی ہے، جو بندوں کی نافرمانیوں کی پاداش میں ان پر نازل کیا جاتا ہے۔
قوموں اور ملکوں کی تباہی کے اسباب:
کسی مملکت کی تباہی و بربادی کے عوامل کا جائزہ لیجیے تو دو بنیادی چیزیں سامنے آئیں گی، قوم کا فسق و فجور اور حکم رانوں کا ظلم و عدوان، جب کوئی قوم خدا فراموشی کی روش اختیار کرتی ہے، الٰہی قوانین سے سرکشی کرتی ہے اور فسق و معصیت کے نشے میں بدمست ہوکر حلال و حرام اور جائز و ناجائز کے حدود اعلانیہ توڑنے لگتی ہے تو ان پر جفا کیش اور جابر و ظالم حاکم مسلط کر دیے جاتے ہیں۔ قرآن کر یم میں کسی قوم کی تباہی وبر بادی کے بارے میں ایک قانون عام بیان فرمایا ہے: ’’اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کر نا چاہتے ہیں تو اس کے خوش عیش لوگوں کو حکم دیتے ہیں، پھر جب وہ لوگ وہاں شرارت مچا تے ہیں، تب ان پر حجت تمام ہو جاتی ہے، پھر اس بستی کو تباہ اور غارت کر ڈالتے ہیں۔‘‘ (بنی اسرائیل)
قوم کا فسق و فجور اور ملوک و سلاطین کا ظلم ہی سب سے پہلے اس عالم کی تباہی و بر بادی کا ذریعہ بنتا ہے۔ ظلم و استبداد کی چکی میں پہلے سرکش قوم پستی ہے، بالآخر یہی چکی ظالم و جابر کو بھی پیس ڈالتی ہے۔ سیدنا حضرت علیؓ کا قول ہے: ’’کفر کے ساتھ حکومت رہ سکتی ہے، مگر ظلم و استبداد کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔‘‘
درحقیقت کائنات کا حقیقی تصرف و اقتدار اﷲ رب العالمین اور احکم الحاکمین کے ہاتھ میں ہے۔ حدیث میں ہے کہ اﷲ تعالیٰ ظالم کو چندے مہلت دیتا ہے، لیکن جب اسے پکڑتا ہے تو پھر اسے نہیں چھوڑتا۔ یہی وجہ ہے کہ ظالم حکم ران زیادہ دیر تک مسندِ اقتدار پر نہیں رہ سکتا، بل کہ دوسروں کے لیے درسِ عبرت بن کر بہت جلد رخصت ہو جاتا ہے۔ تاریک دور کے فرعون وہا مان اور شداد و نمرود کو جانے دو، ماضی قریب میں اسٹالن، ہٹلر اور مسولینی وغیرہ کا عبرت ناک حشر کس نے نہیں دیکھا۔
حکومت کی بقاء کے لیے عدل و انصاف ضروری ہے:
بہ ہر حال بقائے مملکت اور بقائے حکومت کے لیے بے حد ضروری ہے کہ اربابِ اقتدار عدل و انصاف کو قائم کریں اور قوم فسق و معصیت کا راستہ ترک کرکے انابت اور رجوع الی اﷲ کا راستہ اختیار کرے۔ دنیا کی تاریخ بالعموم اور اسلامی تاریخ بالخصوص اس حقیقت پر شاہد ہے کہ مسلمان قوم کو من حیث القوم ناؤ و نوش، فسق و فجور اور فحاشی و بدکاری کبھی راس نہیں آئی اور اس کا انجام ہمیشہ ہول ناک ہُوا۔
یہ ایک فطری اصول ہے کہ جرم انفرادی ہو تو اس کی سزا بھی افراد تک محدود رہتی ہے اور جب قوم کی قوم ہی جرم و بغاوت کا راستہ اختیار کر ے تو اس کی سزا بھی عام ہوتی ہے۔
مسلمان قوم سے اسلام کی روح نکلنے کا نتیجہ:
جس طرح روح نکل جانے کے بعد لاشۂ بے جان اپنے وجود کو محفوظ نہیں رکھ سکتا، بلکہ اس کے اعضاء میں انحلال و انفصال کا عمل شروع ہوجاتا ہے اور بالآخر سڑ گل کر منتشر ہوجاتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح مسلمان قوم سے اسلام کی روح نکل جائے تو نتیجہ انحلال و انتشار کے سوا کیا ہوسکتا ہے۔ شدید خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ جس طرح ہم اپنے ملک کے ایک بڑے حصہ سے محروم ہو بیٹھے ہیں، اسی طرح خاکم بہ دہن مز ید تباہی وبر بادی سے دو چار نہ ہوجائیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ عقلوں پر کیسے پردے آجاتے ہیں اور ان حقائق سے کیوں عبرت نہیں لی جاتی؟! ایک طرف پورا ملک بے چینی و بے قراری کا شکار ہے، بیم و یاس کی کیفیت طاری ہے، ہوش ربا گرانی سے کمر ٹوٹ رہی ہے، خیر و برکت اُٹھ چکی ہے۔ یہی خطۂ زمین جو دوسرے علاقوں کو غلہ فراہم کر تا تھا خود دانے دانے کے لیے دریوزہ گر ہے۔ ہر چیز کا قحط ہے، باہمی اُلفت و محبت اور اتحاد و اعتماد نصیبِ دشمناں ہے۔ رشوت، لالچ، چور بازاری، سٹہ بازی جیسے امراض دَق کی طرح چمٹے ہوئے ہیں۔ چوری اور ڈاکے کی وارداتیں روز مرہ کا معمول بن چکی ہیں۔ کیا یہ سب عذابِ الٰہی کی شکلیں نہیں؟ صد حیف کہ ان تنبیہات سے سبق نہیں لیا جاتا، بل کہ فواحش و منکرات میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔ عریانی بے حیائی کے دردناک مظاہر ہیں۔ ظلم و بربریت کی آخری حدوں کو چھوا جارہا ہے۔ غفلت و خدا فراموشی کا نشہ دن بدن تیز سے تیز تر ہوتا جا رہا ہے۔ آخر حق تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینے والی زندگی کب تک برداشت کی جائے گی ؟ اور انتقامِ الٰہی کی بے آواز لاٹھی کب تک تھمی رہے گی؟ گزشتہ بے خدا قوموں کے بارے میں فرمایا ہے: ’’یہ سب وہ تھے جنہوں نے زمین میں سرکشی کی، پس اس میں بہت اودھم مچایا، پھر برسایا ان پر تیرے رب نے کوڑا عذاب کا، بلاشبہ! تیرا رب گھات میں ہے۔‘‘ (الفجر)
ان تمام دردناک صورت حال سے نجات حاصل کرنے کے لیے ازبس ضروری ہے کہ راعی اور رعایا بارگاہِ ربوبیت میں توبہ و انابت اختیار کریں، اجتماعی معاصی سے یک سر پرہیز کریں اور گزشتہ گناہوں پر بارگاہِ رحمت میں توبہ و استغفار کریں، اسلامی شعائر کو بلند کریں اور غیر اسلامی نشانات کو پامال کریں۔ سورہ نوح میں اس قسم کے معاصی کی کثرت سے قحط و تنگ سالی جیسے عذاب کا نازل ہونا اور اس کا علاج توبہ و استغفار بتایا گیا ہے: (نوح علیہ السلام قوم سے خطاب کرتے ہوئے بارگاہِ الٰہی میں عرض کرتے ہیں)، مفہوم: ’’میں نے کہا: گناہ بخشواؤ اپنے رب سے، بے شک! وہ ہے بخشنے والا، چھوڑ دے گا تم پر آسمان کی دھاریں اور بڑھا دے گا تم کو مال اور بیٹوں سے اور بنا دے گا تمہارے واسطے باغ اور بنا دے گا تمہارے لیے نہریں۔‘‘ (نوح)
مقصد یہ کہ تو بہ و انابت کی برکت سے نہ صرف آخرت کی کام یابی و کام رانی نصیب ہوگی، بل کہ دنیا کے عیش و آرام کی صورتیں بھی اﷲ تعالیٰ اپنے فضل و احسان سے مہیا فرما دیں گے۔ دلوں کو سکون و اطمینان نصیب ہوگا، اموال میں خیر و برکت ہوگی، اولاد صالح اور خدمت گار ہوگی۔ آسمان سے ابرِ رحمت کا نزول ہوگا، پھلوں اور غلوں کی کثرت اور بہتات ہوگی۔ فرصت کے لمحات بہت مختصر ہیں اور فیصلے کی گھڑی سر پر آئی کھڑی ہے، اس لیے ہمیں موجودہ حالات کا صحیح علاج فوراً کرلینا چاہیے، ورنہ ہماری ظاہری اور سطحی تدبیریں سب ناکام ہوں گی۔
اﷲ تعالیٰ ہم پر رحمت فرمائے، ہماری قوم کو فسق و فجور اور حکم رانوں کو ظلم و عدوان سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
[ad_2]
Source link