[ad_1]
حالیہ 16ویں برکس سمٹ جو روس کے شہر کازان میں منعقد ہوئی، اس سمٹ کے اختتام پر ایک مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ’’ ہم غیر قانونی اور یکطرفہ جبر آمیز اقدامات، جن میں غیر قانونی پابندیاں شامل ہیں، کے عالمی معیشت، بین الاقوامی تجارت اور پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول پر منفی اثرات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔‘‘
بلاشبہ مذکورہ اعلامیے سے برکس ممالک کی مساوات پر مبنی عالمی اقتصادی ماحول کے قیام کی خواہش کا اظہار ہوتا ہے۔ برکس ممالک کثیرالجہتی حکمرانی کے لیے ایک متحد موقف اپنانے کی کوشش کر رہے ہیں، تاکہ ابھرتی ہوئی معیشتوں کے مفادات کی عکاسی کرنے والا ایک متوازن عالمی نظام تشکیل دیا جا سکے۔ کازان اعلامیہ اس بات کا ثبوت ہے کہ برکس ممالک یکطرفہ پابندیوں کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے اور قوموں کے درمیان تعاون کو فروغ دینے کے لیے پرعزم ہیں۔ برکس اجلاس میں چین کے صدر زی جن پنگ اور بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کی ملاقات ہوئی ہے۔
اس ملاقات کو دونوں ملکوں کے تعلقات کے حوالے سے اہم سمجھا جا رہا ہے۔ دوسری طرف یوکرین جنگ کی وجہ سے امریکی پابندیوں کی زد میں آئے ہوئے صدر پوتن نے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ دنیا میں تنہا نہیں ہیں اور امریکا کی روس کو اکیلا کرنے یا اس کی معیشت تباہ کرنے کا خواب پورا نہیں کرسکتا۔ خبروں کے مطابق روس اور چین نے برکس میں پاکستان کی شمولیت کا معاملہ بھارت کے ساتھ اٹھایا ہے لیکن اس حوالے سے مزید تفصیلات سامنے نہیں آسکیں۔ البتہ حالات اگر مثبت طریقے سے آگے بڑھتے ہیں تو بھارت کو پاکستان کی برکس میں شمولیت پر راضی ہونا پڑے گا۔ یقیناً برکس ممالک کے بہت سے مخصوص مطالبات نے درحقیقت مغرب کو بے چینی میں مبتلا کر دیا ہے جو بالادستی کے ’’ طرز حکمرانی ‘‘ کا عادی ہے۔
اب جب کہ بڑی تعداد میں ممالک اپنی اپنی کرنسیوں میں لین دین کا انتخاب کرتے ہیں تو امریکا کو زیادہ تشویش ہے کہ اگر برکس ممالک ایک خود مختار تجارتی لین دین کے نظام پر متفق ہوجاتے ہیں تو وہ ’’ڈی ڈالرائزیشن‘‘ کو فروغ دیں گے اور امریکا کی مالی بالادستی کو ختم کردیں گے۔ درحقیقت ’’ڈالرکی بالادستی‘‘ ایک ایسا جال ہے، جسے ایک ہی بار ڈالنے سے امریکا دنیا کی دولت کی لوٹ مار کرسکتا ہے، یہ جال اگر کٹ جائے گا تو امریکا کیوں پریشان نہ ہوگا۔ برکس میکانزم کے ایک اہم رکن کی حیثیت سے چین کے رہنما نے مختلف مواقعے پر نشاندہی کی ہے کہ ’’آج دنیا اس صدی میں ہونے والی بڑی اور بے نظیر تبدیلیوں سے گزر رہی ہے، عالمی پیٹرن، بین الاقوامی نظام اور طاقت کے بین الاقوامی توازن میں نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں، اور عالمی نظام کو نئی شکل دی جا رہی ہے۔‘‘ یہ صورتحال ’’ فار ہوم دا بیل ٹالز ‘‘ کی سی ہے۔
عالمی پیٹرن کے بارے میں چین کا فیصلہ درحقیقت مغرب کو بہت تکلیف دے رہا ہے، جو موجودہ غیر مساوی بین الاقوامی نظام میں غالب ملک ہے، اسی لیے چین کی شرکت پر مبنی برکس میکانزم کے خلاف دشمنی قدرتی طور پر روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ اس وقت برکس میکانزم مساوی تعاون اور مشترکہ ترقی کے پلیٹ فارم فراہم کرنے سامنے آیا ہے، جس کی ان ممالک کو سب سے زیادہ ضرورت ہے، اور اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ برکس میں شامل ہونے کے لیے قطار میں کھڑے ممالک کی فہرست طویل سے طویل تر ہوتی جارہی ہے۔
ہر برکس سربراہ اجلاس کے موقع پر مغرب ہمیشہ ’’ برکس کی زوال پذیری‘‘ اور ’’ترقی پذیر ممالک کی تقسیم ‘‘ کی کچھ پرانی دھنیں دہراتا ہے اور مغربی رائے عامہ برکس میکانزم کے نام نہاد ’’داخلی اختلافات‘‘ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہے جب کہ برکس میکانزم کے موقف اور نوعیت کی غلط تشریح کرتے ہوئے برکس کو جی سیون کے نام نہاد ’’جیو پولیٹیکل حریف‘‘ اور یہاں تک کہ عالمی امن و استحکام کے لیے ممکنہ خطرہ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتی ہے، تاہم، حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ آج زیادہ ممالک ’’برکس کے دروازے پر دستک‘‘ دینے کی امید میں ہیں، جو بلاشبہ برکس تعاون کے میکانزم کی مضبوط قوت اور اثر و رسوخ کو پوری طرح ظاہر کرتا ہے، اور مغرب کے ’’زوال پذیر ‘‘ نظریہ کے خلاف ایک واضح جواب ہے۔مغربی ذرایع ابلاغ نے ایک بار برکس میکانزم کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ’’بیکار تتلی‘‘ ہے جو مغربی غلبے والے عالمی نظام کے کونے میں اپنے پرگاڑ رہی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج، ’’ تتلی کا اثر‘‘ خاموشی سے دنیا کو نئی شکل دے رہا ہے۔
ایک کونے میں پر گاڑنے والی تتلی سے لے کر عالمی سطح پر اہم قوت تک، برکس پہلے سے بھی زیادہ اہم ہوتی جا رہی ہے۔ مغرب نے کبھی بھی برکس میکانزم کی تضحیک، اس پر سوال اٹھانا اور اسے بدنام کرنا نہیں چھوڑا بلکہ اسے آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے ایک بڑا جال بچھانے کی کوشش کی۔ مغرب برکس نظام کی توسیع اور عالمی گورننس سسٹم میں اصلاحات کے برکس کے مطالبے کو مغربی بالادستی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے اور اس کا خیال ہے کہ یہ عالمی سیاست اور معیشت میں مغرب کے اثر و رسوخ کو کمزور کرتا ہے۔ بہرحال، بین الاقوامی حکمرانی کے نظام میں جمہوری اصلاحات کے لیے برکس کے مطالبے نے مغربی طاقتوں کو جھنجھوڑا ہے جو بالا دستی اور آمرانہ بین الاقوامی حکمرانی کے نظام کے کر تا دھرتا ہونے کے باوجود جمہوری نائٹس ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
مغربی سیاست دان، میڈیا اور کچھ اسکالرز برکس میکانزم کو بدنام کرنے اور اس کا موازنہ جی 7 اور یہاں تک کہ نیٹو جیسے فوجی اتحاد سے یہ کہتے ہوئے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ برکس ممالک میں ’’فوجی اتحاد کے رجحانات‘‘ موجود ہیں۔درحقیقت برکس تعاون کا طریقہ کار ہمیشہ سے محض کثیر القومی تعاون کے ایک پلیٹ فارم کا رہا ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ برکس میکانزم جس میں ’’ لامرکزیت‘‘ شامل ہے، کوئی بین الاقوامی تنظیم بھی نہیں ہے بلکہ ممالک کے درمیان ایک رضاکارانہ تعاون کا پلیٹ فارم ہے تو یہ غلط نہ ہوگا۔برکس نے بہت سے ترقی پذیر ممالک کو اپنی طرف راغب کیا ہے، اور یہاں تک کہ ترکی نے بھی جس کا پس منظر نیٹو کا ہے، رکنیت کے لیے درخواست دی ہے جس سے پوری مغربی دنیا بے چین ہے۔برکس کی کامیابی سے دنیا میں معاشی ضرورتوں کی اہمیت اور اس مقصد کے لیے پرانے رشتوں کو نئی شکل دینے کی کوششیں خاص طور سے اہم ہیں۔ بطور خاص بھارت، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی ترجیحات اور پالیسیاں قابل غور ہیں۔ یہ تینوں ممالک امریکا کے قریبی حلیف ہیں اور چین کے معاشی اور اسٹرٹیجک ’’گھیراؤ‘‘ کے لیے امریکا خاص طور سے ان ممالک پر انحصار کرتا ہے، لیکن شنگھائی تعاون تنظیم کے علاوہ برکس جیسے پلیٹ فارمز میں بھارت کی دلچسپی اور ان میں مسلسل شرکت اس حقیقت کا ادراک ہے کہ اپنے ہمسایہ اور ریجن میں موجود ممالک کے ساتھ تعاون و اشتراک کو کسی عالمی جتھے بندی یا امریکی مفادات کے لیے قربان نہیں کیا جاسکتا۔
اس اجلاس میں چین اور بھارت جیسے بڑے ملکوں کی شرکت سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ تمام ممالک سیاسی بیانیہ کے باوجود معاشی اور علاقائی تعاون کو اہمیت دیتے ہیں اور یہ مقاصد حاصل کرنے کے لیے نئے اتحاد بنانے اور معاشی اہداف کے لیے کام کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ روس اور ایران کے ساتھ تعاون بھارت سمیت متعدد ممالک کو سستی انرجی کے علاوہ مواصلاتی سہولتیں فراہم کرنے کا سبب بن سکتا ہے جب کہ یہ دونوں ممالک سخت امریکی پابندیوں کا شکار ہونے کی وجہ سے متبادل معاشی و سفارتی گروہ بندی کو اپنے مفاد میں اہم سمجھتے ہیں۔ یہ بھارتی رویہ اس حقیقت کے باوجود دیکھنے میں آرہا ہے کہ ایک طرف امریکی کمپنیاں بھارت میں کثیر سرمایہ کاری کررہی ہیں، بھارت امریکا کا اسٹرٹیجک پارٹنر اور دفاعی معاہدوں میں شریک ہے اور دوسری طرف امریکا روس کو مہذب جمہوری دنیا کا سب سے بڑا دشمن قرار دینے کی سر توڑ کوشش کرتا رہا ہے۔
یوکرین جنگ شروع ہونے کے بعد امریکا نے اس جنگ کو بند کروانے کی کوشش کرنے کے بجائے یوکرین کی بھرپور مالی و عسکری امداد کے ذریعے جنگ کو طول دیا اور روسی پیش قدمی کو کامیابی سے روکنے میں معاونت کی۔ روس کو سزا دینے کے لیے ہی امریکا نے روس پر کڑی اقتصادی پابندیاں عائد کی ہیں۔ پاکستان کو یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ کسی خاص معاملے پر اختلاف کو دو ممالک کے درمیان مکمل تصادم کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے۔
بعض معاملات پر اختلافات کے باوجود ممالک کو ایسے پہلو تلاش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جن کے ذریعے وہ دیگر شعبوں میں تعاون کو فروغ دے سکیں۔ البتہ پاکستان اور بھارت نے باہمی اختلاف کو دشمنی میں تبدیل کیا ہے اور کھیلوں و ثقافتی شعبوں سمیت ہر معاملے میں ایک دوسرے کو نظر انداز کرنے کا چلن اپنایا ہے۔ تیزی سے تبدیل ہوتی دنیا اور نئی گروہ بندیوں کے اس دور میں یہ رویہ مفید نہیں ہوسکتا۔ چین اور امریکا سے بیک وقت دوستی کی مثال دو کشتیوں میں پاؤں رکھنے کی طرح نہیں ہے بلکہ دونوں ممالک کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان ان کے درمیان اہم نقطہ اتصال ہے۔ ہمارے پالیسی سازوں کو اس پہلو پر حکمت عملی تیار کرنے اور اسے مناسب سفارتی زبان میں بیان کرنے کی قدرت حاصل کرنی چاہیے۔
[ad_2]
Source link