[ad_1]
اگرچہ کچھ روایتوں میں منصور حلاج کے واقعے کو سیاسی انتقام کہا گیا ہے کہ اس وقت کا وزیراعظم اس کامخالف ہوگیا اوراس کی حق گوئی وبیباکی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کرنے لگا۔ لیکن ہم صرف لفظ ’’اناالحق‘‘ کی بات کریں گے جو زیادہ تر اورمستند روایتوں کے مطابق حلاج نے اناالحق کانعرہ لگایاتھا ۔ کچھ ایسے ہی الفاظ نعرے اوردعوے اور بھی چند بزرگوں سے منسوب ہیں۔ تصوف کی دنیا میں ایسے بہت سے قصے بتائے جاتے ہیں لیکن ہم اناالحق کی بات کرتے ہیں۔ تصوف میں وحدت الوجود کا نظریہ یہ ہے کہ یہ پوری کائنات صرف ایک ہی وجود ہے اوراس کے علاوہ اورکوئی وجود نہیں ہے یا دوسرے الفاظ میں یہ سب کچھ ، زمین وآسمان ، انسان، حیوان، جمادات، نباتات اور ہمہ موجودات سب اسی واحد وجود کی کثرت ہے ۔ ہم تم سب اسی ایک وجود سے نکلے ہیں اور اسی میں جاملیں گے۔ تصوف کی اصطلاح میں اسے فصل اور وصل کہاجاتا ہے یعنی موجودہ وقت ’’فصل‘‘ کا ہے اوروہ واحد وجود مختلف مظاہر میں آشکار ہے لیکن ایک دن یہ سب کچھ پھر اسی ایک وجود میں مرتکز ہوجائے گا اور وصل ہوجائے گا ۔یہ پوری بحث میں نے اپنی کتاب ’’وحدت الوجود اوربگ بینگ ‘‘ میں تفصیل سے کی ہے کہ طبیعات کا نظریہ بگ بینگ ، ہندودھرم کا نظریہ ادوتیاواد ( آواگون) اورتصوف کا نظریہ وحدت الوجود ہیں ۔
عام طور پر نظریہ وحدت الوجود یا فارسی اصطلاح میں ہمہ دوست کو تو فلاطونیت سے ملایا جاتا ہے کیوں کہ سکندریہ کے ایک شخص فلاطینوس نے اسے پہلی مرتبہ تفصیل سے بیان کیا تھا ،مسلمانوں میں اس نظریہ کے بانی شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کو قراردیا جاتا ہے، ہندو دھرم میں اس ادوتیاواد کابانی شنکر اچاریہ ہے اورحیرت انگیزطورپر جدیدطبیعات کا نظریہ بگ بینگ بھی یہی کہتا ہے کہ اس وسیع وعریض خلا میں ایک ذرہ پھٹا جس سے یہ کائنات پھیلنا شروع ہوئی پھر ایک دن یہ سب رک جائے گا اور واپس ارتکاز یا سمٹاؤ کاعمل شروع ہوجائے گا ، سکڑتے سکڑتے سمٹتے سمٹتے یہ پوری کائنات ایک مرتبہ پھر اسی ایک ذرے میں مرتکز ہوجائے گی اور ارتکاز کی انتہائی حد پر پہنچ کر ذرہ پھر پھٹ جائے گا اور دوسری کائنات شروع ہوجائے گی، طبیعات ابھی تک یہ معلوم نہیں کرپائی ہے کہ کائناتوں کے بننے، ذرہ پھٹنے اورسمٹنے کا یہ سلسلہ کب سے ہے اورکب تک رہے گا۔ ہندو دھرم میں بھی یہ سب کچھ ایک ہی پرم آتما (روح اعلیٰ) سے نکلا ہے اورآخر کار اسی میں جاملے گا اور وحدت الوجود یا ہمہ اوست کے بارے میں تو ہم بتا چکے ہیں کہ اس پوری کائنات زمان ومکان مخلوقات و موجودات کو صرف ایک ہی وجود یا ایک ہی وجود کی کثرت پھیلاؤ یا حالت فصل مانا جاتا ہے۔ ابن عربی نے اس کی تشریح یوں کی ہے کہ یہ میرے ہاتھ میں جو قلم ہے اس میں بھی’’وہ ‘‘ ہے اوراگر اس کے دس یا سو ٹکڑے کیے جائیں تو ان سب میں بھی ’’وہ‘‘ موجود ہوگا، اردو کاایک شعر بھی اس بات کی تشریح کے لیے بہت اچھا ہے
آئینے کے سو ٹکڑے کرکے ہم نے دیکھے ہیں
ایک میں بھی تنہا ہیں سو میں بھی اکیلے ہیں
اکثر فلموں میں آپ نے دیکھا ہوگا کہ ولن ایک آئینہ خانے میں چھپ جاتا ہے، اس سلسلے میں پہلی فلم شاید بروس لی کی تھی جہاں بے شمار آئینوں میں ولن دکھائی دیتا ہے ، ہیرو اس کو تلاش کرتا ہے لیکن جہاں کہیں ملتا ہے وہ عکس ہوتا ہے اس میں نکتے کی بات یہ ہے کہ ہزارہا عکسوں میں تبدیل ہو کر بھی اصل وجود ویسے ہی اپنی جگہ موجود بھی رہتا ہے اس میں کوئی کمی یا کمزوری واقع نہیں ہوتی ۔
اس سلسلے میں کسی گزشتہ کالم میں ہم نے کسی اورموضوع کی بحث میں بیج کی مثال دی کہ اس کائنات کی ہرچیز کی ابتدا بیج سے ہوتی ہے اورآخر کار دوبارہ بیج بن جاتی ہے ۔ بیج کے اندر اس پودے پیڑ کاوجود مرتکز ہوتا ہے اوروہی فصل اور وصل کاسلسلہ چلتارہتا ہے ۔ گہرائی سے غور کیا جائے تو وحدت الوجود کانظریہ سمجھ میں آجاتا ہے ۔
حلاج کے انا الحق پر بہت کچھ لکھا اور کہاگیاہے ۔ علماء کا ایک طبقہ اسے ناپختہ اور چھوٹے ظرف سے موسوم کرتے ہیں کہ چھلک گیا، ناپختہ ہی اٹھ آیا ازمحفل جاناناں۔ اس کی مثال ہم یہ بھی لے سکتے ہیں کہ ہرہر برتن کی گنجائش کسی حد تک ہوتی ہے اوراس میںگنجائش سے زیادہ پانی پڑے تو چھلک جاتے ہیں ، چشمے ندیاں نالے دریا بھی مخصوص گنجائش رکھتے ہیں اورپانی بڑھنے پر چھلک پڑتے ہیں لیکن’’سمندر‘‘ کی گنجائش لامحدود ہوتی ہے اس لیے سمندر کبھی نہیں چھلکتا چاہے کتنا ہی پانی اس میں پڑتا جائے ۔
حلاج کابرتن بھی چھلک پڑا تھا ورنہ بنیادی طورپر اس کائنات کے ہرہرذرے میں ’’وہ‘‘ موجود ہے
ہرچند کہ ہرشے میں تو ہے
پر تجھ سی تو کوئی شے نہیں
غالب کے اس شعر کی مزید تشریح اس شعر سے ہوجاتی ہے کہ
ہرتخیل سے ماورا ہے تو
ہرتخیل میں ہے مگر موجود
ترا ادراک غیر ممکن ہے
عقل محدود تو ہے لامحدود
[ad_2]
Source link